ہم کھانا کھا چکے تو مہوش اور فہیم اسی کمرے میں چلے گئے اور میں ہوا خوری کے لیے چھت پر آ گیا۔مجھے سوہنی بہت شدت سے یاد آ رہی تھی۔ اس گھر میں اس کا ہونا محسوس ہو رہاتھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی کسی کونے سے نکلے گی اور میرے سامنے آ کھڑی ہوگی۔ یہ مجھے یقین تھا کہ وہ مجھ سے رابطہ ضرور کر ے گی۔ میں اس کی یادوں میں کھویا ہوا ، چھت پر ٹہل رہا تھا کہ میرا فون بج اٹھا، یہ وہ فون تھا جو مجھے فہیم نے دیا تھا اور اس میں نمبر ٹریس نہ ہونے والی تکنیک تھی۔
مجھے نمبر بھی دکھائی نہیں دیا تھا تب میں فوراً سمجھ گیا کہ دوسری طرف بلا شبہ نوتن کور ہوگی۔ میں نے کال پک کرلی
” امرتسر پہنچ چکی ہوں اور اس وقت رتن دیپ سنگھ جی کے پاس ہوں۔“
” اتنی دیر بعد فون کیا؟“ میں نے پوچھا۔
(جاری ہے)
” یہاں آتے ہی افتاد پڑ گئی۔ بانیتا بس ”را“ والوں کے ہتھے چڑھنے ہی والی تھی۔یہ تو اسے رَبّ ہی بچا گیا۔
یہاں امرتسر میں تو کیا پورے پنجاب میں اسے تلاش کیا جا رہا ہے اسے ، بہت بڑا کام ڈال دیا ہے اس نے ۔“
” کسی چھوٹے کام کی اس سے اُمید بھی نہیں ہے۔ لیکن اب وہ ہے کہاں؟“ میں نے پوچھا۔
” کوئی پتہ نہیں کہاں ہے۔ آخری بار جالندھر میں تھی۔ اب دیکھیں کہاں ہو سکتی ہے ۔“ اس نے بتایا۔
” تم ممبئی کب جا رہی ہو؟“ میں نے پوچھا۔
” بس ابھی یہاں سے نکل کر اپنے گھر جاؤں گی، صبح سویرے میری فلائیٹ ہے یہاں سے۔
وہاں جا کر بات کروں گی ، یہ رتن دیپ سنگھ جی سے بات کرو۔“ اس نے کہا اورفون اُسے دے دیا۔ وہ کچھ دیر مجھ سے باتیں کرتا رہا، پھر فون بند کر دیا۔
رات کے گہرے سناٹے میں سوہنی کی یاد اس قدر تھی کہ کچھ دیر پہلے کی ہنگامہ آرائی بھی اس کی یاد کو محو نہ کر سکی ۔ ایک کے بعد ایک خیال آتا چلاجا رہا تھا۔ میں سوہنی کے خیالوں میں تھا کہ فون میں تھرتھراہٹ ہوئی ۔
وہ فہیم کی کال تھی۔
” ہاں بولو۔“ میں نے کہا۔
” ابھی کال ٹریس ہوئی ہے کہ گھاس منڈی میں جہاں اس جوا مافیا کے لوگوں کا گڑھ ہے ۔ وہاں سے کچھ لوگ ہنگامہ کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ ان کاٹارگٹ شاہ فیصل کالونی میں موجودایک مارکیٹ ہے۔ جو شاید ان کے مخالفین کی ہے۔“ فہیم نے تیزی سے بتایا
” مخالفین کی طرف سے کوئی پیش رفت ہے ؟“ میں نے پوچھا۔
” ان کی طرف سے ابھی کوئی بات سامنے نہیںآ ئی ۔“ اس نے بتایا
” یہ خبر ان تک پہنچا دو۔“ میں نے کہا تو گیت بولی۔
” میرے پاس ایک تجویز ہے۔ اگر کچھ دوسرے لوگوں کے ذریعے گھاس منڈی کے اڈے پر ہی حملہ کروا دیا جائے۔“
” تمہارے پاس ایسے لوگ ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
” بالکل ہیں۔ جس وقت یہ ہنگامہ ہو رہا ہو ، اس وقت ادھر بھی …“ اس نے بات جان بوجھ کر ادھوری چھوڑ دی
” اوکے ‘ تو پھر رات بھر میں دونوں طرف کو ہلا کر رکھ دو ۔
کوشش یہ کی جائے کہ گھاس منڈی میں جوا اڈے کا سرغنہ ساجد پولیس کے علاوہ دوسری فورسز پکڑ لیں۔“
” ایسا ہی ہوگا۔“ گیت نے کہا اور پھر فون آف ہو گیا۔ میرے اندر سنسنی پھیلنے لگی۔ میں کچھ دیر چھت پر رہا لیکن بے چین ہو گیا۔ یہاں سوہنی کی یادیں تھیں جو میری بے چینی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ میں نیچے چلا گیا۔ میری توقع کے مطابق مہوش اور فہیم کنٹرول روم میں تھے۔
سامنے اسکرین روشن تھی ۔ وہ دونوں جب سے آئے تھے ، اسی طرح مصروف تھے۔ میں نے مہوش کی طرف دیکھا اس کا چہرہ تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
” مہوش !تم آرام کر لو، میں اور…“
” میں بالکل ایزی ہوں ، فکر نہ کریں۔“ اس نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
” جاؤ ، تھوڑا سکون کر لو۔ میں ہوں یہاں پر ۔“ میں نے اس سے کہا تو وہ اٹھ گئی ۔ دارے نے اس کے لیے کمرہ سیٹ کر دیا ہوا تھا۔
سب سے پہلے شاہ فیصل کالونی کی مارکیٹ میں کچھ نامعلوم لوگ چند کاروں پر آئے اور آتے ہی فائرنگ شروع کر دی ۔ مارکیٹ میں بھگدڑ مچ گئی ۔ وہ سیدھے اس مارکیٹ کی انتظامیہ والے دفتر کی جانب بڑھے۔ لیکن جیسے ہی ہنگامہ شروع ہوا تھا وہ لوگ دفتر چھوڑ کر چھپ گئے کیونکہ وہ لوگ ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے ہنگامہ کرنے والے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا۔
ان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہونے لگا۔
اس دوران گھاس منڈی میں جوئے کے اڈے پر دھاوا بول دیا گیا۔ وہاں پر جو عام لوگ موجود تھے۔ انہیں ڈرا دھمکا کر بھگا دیا گیا۔ وہاں پر ساجد نامی وہ سرغنہ بھی موجود تھا۔جوئے کے اڈے والوں نے فائرنگ کر کے مزاحمت کر دی تو معا ملہ بڑھ گیا۔
ان دونوں ہنگاموں کی اطلاع پولیس کو معمول کے مطابق ہی ہوئی لیکن خفیہ فورسز کی مطلع کر دیا گیا تھا۔
جب یہ ایک ہی وقت میں دونوں ہنگامے شروع ہوئے وہ وہاں تک پہنچ چکے تھے۔ دونوں طرف سے ہی بندے مرے اور زخمی بھی ہوئے۔ لیکن کامیابی یہ ہوئی کہ ساجد نام کاوہ سرغنہ پکڑا گیا۔ ٹی وی اسکرین پر یہ خبریں چل رہی تھیں۔ فورسز نے ساجد کو پولیس کے حوالے کردیا۔ ایک طرف یہ ہنگامے چل رہے تھے تو دوسری طرف فون پر اطلاع دوبئی تک پہنچ گئی ۔
مخالفین کا سارا زور اپنے ان لوگوں پر تھا جو حکومت میں تھے۔
وہ سیٹھ نیلا کا سارا ریکارڈ لے کر وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ رات گئے یہ فیصلہ ہوا کہ چھاپہ مارا جائے۔
صبح ہونے تک تین کام ہوئے ۔ سیٹھ نیلا سمیت اس کے کارندوں کو پکڑ لیا گیا۔ سی ڈیز، کمپیوٹر اور وہ ریکارڈ جو ہنڈی کے ذریعے سرمایہ باہر منتقل کیا جا رہا تھا، وہ سب قبضے میں لے لیا۔ دوسرا ساجد نامی سرغنہ پولیس کی حراست سے نکل کے دوبئی فرار ہو گیا۔
پولیس صاف مکر گئی کہ ایسا بندہ انہوں نے پکڑا ہی نہیں تھا۔ تیسرا کام یہ ہوا کہ رات جو ایجنٹ پکڑا تھا، اسے زندگی سے آزاد کرکے زمزمہ پارک کے قریب پھینک دیا گیا۔ اس کے تمام نمبر حاصل کر لیے گئے تھے۔ دن نکلتے ہی اس کی لاش مل گئی ۔ اس سے کراچی انڈر ورلڈ میں ہلچل مچ گئی۔ جس کا احساس ٹیلی فون کالز سے ہو گیا۔
#…#…#