Episode 106 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 106 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

” یہ ای میل انہیں دہلی سے ملی ہے۔ اب تلاش کرتے رہیں کہ یہ کون تھا ، کیوں تھا اور کیسے تھا؟“ بلدیو سنگھ نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا
” اور سناؤ کاروبار کیسا جا رہا ہے آج کل ؟“ جسپال نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو وہ زیرلب مسکراتے ہوئے بولا
” چلیں پھر فارم ہاؤس؟“ وکرم سنگھ نے پوچھا
” تم لوگ جاؤ۔ میں چلا جاؤں گا۔
“ جسپال نے کہا اور کافی کا مگ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔
” ہم بھی نکلتے ہیں۔“ بچن کور نے کہا
وہ سب اٹھ گئے۔ بلدیو نے کاونٹر پر جا کر بل دیا اور سبھی باہر آ گئے ۔جسپال نے ان کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا” ٹھیک ہے ، ملتے ہیں پھر۔“ 
 انہوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا اور اپنی اپنی راہ ہو گئے۔
جسپال نے نوتن کور سے کہا کہ وہ اس کی گاڑی لے اوگی پنڈ آ جائے ۔

(جاری ہے)

اس نے اگلی صبح آ نے کا کہا اور تو جسپال نے ٹیکسی لی اور اوگی کی جا نب چل پڑا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ قتل اگرچہ بلدیو سنگھ کی منصوبہ بندی میں تھا۔ لیکن یہ یونہی اٹھ کر یہ سب کر دینا کہیں فضول تو نہیں تھا یا پھر کسی نئے ہنگاموں کی شروعات تھیں؟ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا وہ یہی سوچتا چلا جا رہا تھا،لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
                               #…#…# 
 کارخانے کے مالک کو ہسپتال میں داخل کروا کے اس کی ٹریٹمنٹ شروع کر دی گئی۔ اس پر تشدد کیا گیا ہوا تھا۔ سبھی میرے ساتھ تھے ۔ لیکن ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر الرٹ تھا۔ بانیتا کور میرے ساتھ تھی اسی کمرے میں جہاں اسے رکھا گیاہوا تھا ۔تقریباً ایک گھنٹے بعد جب دواؤں کے اثر سے اسے کچھ جسمانی راحت ملی تو میں نے اس نے پوچھا
” کیا ہوا تھا؟“
” مجھے مینیجر کا فون آیا کہ کچھ لوگ آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
ایسا معمول کے مطابق ہوتا رہتا تھا۔ کاروباری معاملات میں ایسا چلتا ہی رہتا تھا۔ میں کارخانے گیا ۔ وہاں چند لوگ تھے ۔ میں نے پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کاروباری نہیں ہو سکتے ہیں۔ خیر۔!انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ جو بندہ یہاں لایا گیا ہے وہ کہاں ہے؟ میں یہ مانا ہی نہیں کہ کوئی بندہ یہاں لا یا گیا، اسے یہاں رکھا گیا۔
وہ یوں بات کر رہے تھے جیسے انہیں پورا یقین ہو۔ پھر انہوں نے مجھے گن پوائنٹ پر رکھ لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔“
” وہاں جا کر بھی یہی پوچھتے رہے؟“ میں نے کریدا 
” ہاں، انہوں نے مجھ پر تشدد کی انتہا کردی۔ اس کے ساتھ میرے بیوی بچوں کو مارنے کی دھمکی دی۔ تب میں یہ مان گیا کہ ایک بندے کویہاں لایا گیا تھا، اور اگلے دن یہاں سے وہ لے گئے تھے۔
وہ کون تھے ، یہ مجھے نہیں معلوم ۔“ اس نے کراہتے ہوئے بتایا
” انہوں نے یہ پوچھا کہ تم کس کے لئے کام کرتے ہو، جس بندے نے مجھے تمہارے ساتھ متعارف کرایا تھا، اس کے بارے میں بتایا۔“ میں نے پوچھا
” نہیں، میں نے براہ راست تمہارے ساتھ ہی اپنا تعلق بتایا ،کہ بس وہ میرا دوست ہے ۔ مگر انہوں نے یقین نہیں کیا۔ وہ ان دو بندوں کے بارے میں پوچھتے رہے۔
“ اس نے بتایا۔ لیکن میرے سوال کا جواب اب بھی نہیں ملا تھا کہ آ خر وہ میرے گھر تک کیسے پہنچ گئے تھے ؟ اس کی باتوں سے مجھے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا تھا ۔ تبھی بانیتا کور نے پوچھا
” وہاں کیسے لوگ تھے ، وہ آ پس میں کیسی باتیں کر رہے تھے، ان سے کوئی سمجھ میںآ یا؟“
” وہ اکثر ایسے لوگوں کی باتیں کر رہے تھے جو مختلف مقامات پر تھے۔
ان سے فون پر باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ انہیں یہی کہا جاتا تھا کہ چند دن کے لئے اِدھر اُدھر ہوجائیں۔ یا جب کسی کا دل کرتا تھا ، مجھے مارنا شروع کر دیتے تھے۔“
” ٹھیک ہے ، اب میں تمہیں جیسے بتاؤں ، ویسے ہی پولیس کو بیان دینا اور ہاں میں نے تمہارے گھر والوں کو اطلاع دے دی ہے ۔ وہ ابھی تمہارے پاس آ جاتے ہیں ۔ میں تمہیں بعد میں ملتا ہوں۔
اب گھبرانے کی ضرورت نہیں تم محفوظ ہاتھوں میں ہو۔“ میں نے اُسے تسلی اور حوصلہ دیا پھر بانیتا کور کے ساتھ باہر آ گیا۔ 
 میں بانیتا کور کے ساتھ کار خود ڈرائیو کرتا ہوا ٹاؤن کی طرف جا رہا تھا۔ میں خاموش تھا، جس پر وہ اکتائے ہوئے انداز میں بولی
” جمال۔! کیا بات ہے ، اتنے خاموش کیوں ہو ؟ میں نے تم سے پہلے بھی پوچھا ہے ۔ بات کروگے تو پتہ چلے گا۔
“ 
” یار، مجھے ساری سمجھ آ گئی ہے کہ کون لوگ ہیں، ابھی طارق نذیر مجھے کنفرم بھی کر دے گا، یہ الطاف گجر ہی کے لوگ ہیں اور ان کا ساتھ فیضان بٹ کے لوگوں نے دیا۔ لیکن ایک کڑی نہیں مل رہی ہے۔ “ میں نے اسے کہا
” کیا، کون سی کڑی؟“ اس نے پوچھا
” میں نے گھر کے بارے میں اس قدر احتیاط رکھی تھی کہ یہاں کسی کو بھی نہیں لے کر آیا، حتکہ طارق نذیر کو بھی جو کہ بہر حال ایک معتبر ذرائع سے مجھے ملا تھا۔
وہ لوگ میرے گھر تک کیسے پہنچ گئے؟یہ ابھی تک مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔“
” ہاں ، یہی بات اہم ہے، انہوں نے یہاں تک رسائی کیسے لی، یہاں تک کیسے پہنچے؟ یہی نکتہ ہے، جس نے تم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ “ وہ دھیمے لہجے میں بات کو سمجھتے ہوئے بولی
” وہ اس تاک میں تھے کہ باقی سب لوگ کب واپس آ تے ہیں۔ انہوں نے اسی دن ، بلکہ اسی وقت حملہ کیا۔
اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے کافی دنوں سے اس گھر پر نگاہ رلھی ہوئی تھی ۔اگر اس دن قسمت ساتھ نہیں دیتی، میں چھت پر نہ ہوتا، تو بہت سارا نقصان ممکن تھا۔ وہ جس تیاری سے آ ئے تھے ، وہی بتارہی ہے کہ وہ ہمیں س حد تک ختم کرنا چاہتے تھے۔“ میں نے متوقع تباہی کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا
” جمال۔! میرے خیال میں یہ بھی پتہ چل جائے گا۔ تم تھوڑا دھیرج رکھو اور اپنے ذہن کو کھلا چھوڑ دو۔
“ بانیتا کور نے خوشگوار لہجے میں کہا تو میں مسکرا دیا۔
 اس وقت ہم گلبرگ سے ڈیفنس کی جانب جا رہے تھے۔ راستے ہی میں ایک غیر ملکی ریستوران دیکھ کر بانیتا کور بولی 
” وہاں گھر میں تو ، ایسا ہی کھانا ملے گا، کیوں نا اس ریستوان میں کچھ ٹیسٹ کر لیا جائے۔“ وہ بولی
” چلو، یہ بھی سہی۔“ میں نے کہا اور کار اس جانب موڑ لی۔ پارکنگ میں کار لگا کر ہم اس وقت اندر جا بیٹھے۔
وہاں کافی رش تھا۔ عورتیں ،بچے اور ان کی ساتھ مرد حضرات تھے۔ کچھ ہماری طرح جوڑے بھی تھے۔ ہم ایک پر سکون اور تنہائی میں کوئی جگہ دیکھ رہے تھے۔ جو بہرحال وہاں ناپید تھی۔
” کیا خیال ہے ، یہیں ٹرائی کریں یا پھر کوئی دوسراجگہ چلیں؟“ میں نے بانیتا کور سے پوچھا
” دیکھ لو، یہاں رش زیادہ ہے، جبکہ ہمیں اس وقت کوئی پر سکون گوشہ مل جائے تو تھوڑا دماغ کو آرام آ جائے“ اس نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا
ہم باتیں ہی کر رہے کہ ریستوران ہی کا ایک آدمی ہمارے پاس آ گیا۔
اس نے ہم سے پوچھا تو ہم نے اپنا مسئلہ بتا دیا۔
” نو پرابلم، آپ آئیں۔“ اس نے کاروباری مسکراہٹ سے کہا اور ایک جانب اشارہ کیا۔ سامنے سیڑھیاں تھیں۔ ہم اس کے ساتھ اوپر چلے گئے۔ دو کرسیوں کے درمیان ٹیبل لگا ہوا تھا۔ سامنے شیشے میں سے باہر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ ہم وہاں بیٹھ گئے تو میں نے بانیتا کور کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا
” جب سے تم آئی ہو پہلی بار چند لمحے سکون سے بیٹھنے کو ملیں ہیں۔
” سکون ہمارے نصیب میں کہاں۔“ اس نے باہر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔پھر میری طرف دیکھ کر باہر اشارہ کیا۔ دو گاڑیاں ہوٹل کے کمپاؤنڈ میں آ کر رکی ہوئیں تھیں۔ ان میں سے چھ لوگ باہر نکل آئے تھے۔ سبھی نے پتلون اور شرٹوں کے ساتھ جیکٹ پہنی ہوئی تھی جوکسی کی کھلی ہوئی اور کسی کی بند تھی۔ ان کا انداز مشکوک ہی نہیں تھا ،بلکہ بتارہا تھا کہ وہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔
” کیا خیال ہے؟ یہ ہمارے مہمان ہیں یا کسی دوسرے کے ہو سکتے ہیں؟“ میں نے پوچھا ہی تھا کہ میرا سیل فون بج اٹھا۔
میں نے بجتے ہوئے سیل فون کو جیب سے نکال کر دیکھا۔ اسکرین پر اجنبی نمبر جگمگا رہے تھے ۔ پھر باہر کی جانب نظر دوڑائی۔ وہ لوگ اندر آ رہے تھے۔ میں نے بانیتا کور کی طرف دیکھ کر فون رسیو کر لیا۔ میرے ہیلو کے جواب میں کسی اجنبی نے کہا
” سمارٹ مین، میرے بندے تمہارے پاس پہنچ چکے ہیں۔ امید ہے تم زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش نہیں کرو گے اور چپ چاپ ان کے ساتھ آ جاؤ گے۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط