” ارے یہاں تو ڈھابہ بھی ہے، یہیں سے کچھ کھا پی نالیں؟“
” یہاں سے کھا لیتے ہیں۔“ میں نے کہا تو وہ اُتر گئی۔ میں نے پیٹرول لیا اورایک جانب کار پارک کر کے اس کے پاس جا بیٹھا۔ وہاں رش خاصاکم تھا۔ شاید رات کاپہلا پہر تھا۔ اس لئے ٹرک اور دوسری گاڑیاں نہیں رک رہی تھیں۔ ہم نے بڑے سکون سے کھانا کھایا۔ اس وقت چائے پیتے ہوئے بانیتا کور خاموش تھی کہ میرا سیل فون بج اٹھا۔
میں نے اسکرین پر نگاہ کی ۔ اسی باس کا فون تھا۔ میں کال رسیو کر لی۔
” ہیلو۔!“ میں نے بڑے سکون سے کہا
” کہاں ہو ؟ “ اس نے حیرت سے پوچھا تو مجھے اچانک اس کی کہی ہو ئی بات یاد آ گئی کہ اس کا تو یہ دعوی تھا کہ وہ ہر وقت میرے قریب ہے، یہ اب کیوں پوچھ رہا ہے۔ میں نے ایک لمحہ میں سوچا اور جواب دیا
” اپنے گھر میں ہوں۔
(جاری ہے)
“
” نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا۔
“ اس نے اُلجھتے ہوئے جواب دیا۔ میں نے پوری طرح یہ احساس کر لیا کہ اس کے لہجے میں وہ پہلے والی خوشگواریت نہیں تھی۔
” تم یقین نہیں کرنا چاہتے تو نہ سہی۔“ میں نے گول مول جواب دیا
” میں اس لئے یقین نہیں کر سکتا کہ ابھی چند منٹ پہلے میرے لوگوں نے تمہارے ٹاؤن والے گھر کو لانچروں سے اڑایا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ تم وہاں ہو اور بچ گئے ہو۔
“ وہ تیزی سے بولا تو میں نے مزید اسے تپاتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے تم نے بموں سے گھر کو اڑا دیا ہوگا۔ لیکن میں تو گھر میں ہوں۔ اور تم سے بات کر رہاہوں۔ اور پھر میرے مرنے کی خبر مجھے سنا رہے ہو ، حیرت ہے۔ ابھی تو ہم کافی لمبی اننگز کھیلنی تھی۔ اپنے وعدے سے بھی مکر گئے ہو۔ مجھے مار کر۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں طنز اتر آ یا تھا۔
” تم اپنے گھر میں نہیں ہو۔“ اس نے غصے میں کہا تو اس کے لہجے میں بے بسی صاف سمجھ میں آ رہی تھی۔
” میں اپنے گھر میں ہوں۔ اگرتم میں ہمت ہے تو میرے سامنے آ جاؤ۔اور پھر تمہارا دعوی کدھر گیا کہ تم ہر وقت مجھ تک پہنچ سکتے ہو، میرے قریب ہو اور… “ میں نے اُسے مزید غصہ دلاتے ہوئے کہا تو اس نے فون بند کر دیا۔ بانیتا کور میری باتوں سے اندازہ لگا چکی تھی کہ فون کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔
میں نے انتہائی اختصار سے اُسے بتایا تو وہ بولی
” پہلے پتہ تو کر لو، گھر کا؟“
ارد گرد کے کسی بندے کا فون میرے پاس نہیں تھا۔ میرے پاس اس سیکورٹی گارڈ کا نمبر بھی نہیں تھا۔ وہ دارے کے پاس تھا۔ میں نے دارے کو فون کرنے کا سوچا ہی تھا کہ اس کا فون آ گیا۔
” اوہ جمال، جس گھر سے ہم آ ئے ہیں، کسی نے وہاں راکٹ لانچر اور بم مارکر پورے گھر کو اڑا دیا ہے۔
“
” تمہیں کس نے بتایا؟“ میں نے پوچھا
” اپنے پولیس والوں نے۔“ اس نے تیزی سے بتایا
” سیکورٹی گارڈ کہاں تھا؟وہ وہاں پر اس لئے کھڑا رہا کہ لوگ آ ئیں اور بم مار کر چلے جائیں؟“ میں نے پوچھا
” میں نے بھی پوچھا تھا پولیس والوں سے ، انہوں نے بتایا کہ وہ شدید زخمی ہے اور ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے ، انہوں نے آتے ہی اسے گولیاں مار ی تھیں۔
“ اس نے تیزی سے بتایا
” تم کہاں پر ہو؟ اور پولیس والوں کو اپنے بارے میں کیا بتایا ہے؟“ میں نے پوچھا
” میں ابھی نور نگر پہنچا ہی ہوں اور انہیں بھی یہی بتایا ہے۔“ اس نے بتایا
” ٹھیک ہے میں کرتا ہوں کچھ۔“ میں نے کہا اور چند لمحے سوچ کر طارق نذیر کو فون کر دیا۔ اُسے ساری صورتحال بتا کر کہا،” اسے دیکھ لینا، اب ہم نے وہاں واپس نہیں جانا، سیکورٹی گارڈ کو ہر ممکن خیال کرنا۔
“
” آپ بے فکر ہو جائیں۔ میں سب سنبھال لوں گا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا تو مجھے خیال آیا۔
” اور ہاں ۔! وہ منیجر کے بیٹے بارے کچھ پتہ چلا؟“
” آپ نے درست ٹریک دیا تھا۔ مجھے تھوڑا پتہ چلا ہے ، تفصیل بعد میں بتاؤں گا۔“ اس نے تیزی سے کہا
” اوکے۔“ میں نے کہا اور فون رکھ دیا۔ ہم نے کپ وہیں رکھے۔ بل دیا اور کار میں آ بیٹھے۔
میرے سامنے سوالیہ نشان تھا۔
اس باس کا دعوی بالکل غلط تھا کہ وہ میرے قریب ہے۔ اصل میں وہ مجھ تک نہیں پہنچ پاتا تھاصرف اپنی ذہانت سے مجھے چکر دینے کی کوشش کرتا تھا۔ اور اگر وہ درست تھا تو اس بار وہ دھوکا کیسے کھا گیا؟ میں اور بانیتا اسی بارے باتیں کرتے ہوئے سفر کرتے چلے گئے۔ یہ معمہ حل نہ ہوا ۔ یہاں تک کہ نور نگر آگیا۔
ہم نور نگر پہنچ گئے۔ تمام راستے میرا طارق سے رابطہ رہا۔
وہ مجھے وہاں کے بارے میں بتاتا رہا۔ بانیتا کور پہلی بار یہاں آئی تھی۔ جیسے ہی ہم حویلی کے گیٹ پر آ ئے، چوہدری اشفاق سامنے آ گیا۔ گیٹ کھل گیا۔ میں نے جب تک کار پورچ میں روکی تب تک چوہدری اشفاق ہمارے قریب آگیا۔
”جی آیاں نوں بانیتا ۔“ اس نے پورے خلوص سے کہا
” بہت مہربانی چوہدری اشفاق، لو میں تمہارے لئے کچھ لائی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ کار سے شاپنگ بیگ نکالنے لگی۔
تبھی چوہدری اشفاق نے پوچھا
” یار اتنا تیز پرفیوم ، تو نے پہلے کبھی نہیں لگایا تھا،یہ کیوں؟“
” یہ تیرے لئے لائی ہو ئی ایک پرفیوم کی شیشی ٹوٹ گئی تھی۔ وہ مجھ پر گر گئی۔ ابھی کپڑے بدلتا ہوں۔ یہ مہک چلی جائے گی۔“ میں نے کہا اور اندر کی جانب بڑھا۔
تبھی میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی ، اب یہاں نہ ماں تھی اور نہ سوہنی۔ مجھے یوں لگا جیسے ساری حویلی ہی ویران ہو۔
میں چلتے ہوئے ڈرائینگ روم میں جا بیٹھا پیچھے ہی وہ دونوں آ گئے۔ حویلی کے ملازمین کو پتہ چل گیا تھا کہ میںآ گیا ہوں۔ وہ آنے لگے۔ چوہدری اشفاق نے کھانا لگانے کا کہا تو بانیتا کور نے بتایا کہ ہم ایک ڈھابہ ہوٹل سے کھا آئے ہیں، چائے وغیرہ پی جا سکتی ہے۔ وہ انہی باتوں میں مصروف تھے کہ باس کی کال آ گئی۔
” تمہاری قسمت اچھی ہے کہ تم بچ گئے ہو، ورنہ آج تمہارا کام ختم ہو جانے والا تھا۔
“ اس نے غصے اور مایوسی ملے لہجے میں یو کہا جیسے اسے بری شکست ہو چکی ہو۔
”دیکھو ، تم جو کوئی بھی ہو ،اپنی بات پر قائم رہنے والے نہیں ہو ۔ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو کافی بے غیرت قسم کے ہوں۔ چھپ کر وار کرنے والا بے غیرت ہی تو ہوتا ہے، جس کے باپ کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، لہذا، اگر مجھ سے دشمنی لینی ہی ہے تو مردانگی دکھاؤ، ہیجڑوں سے میں نہیں لڑتا۔
“ میں نے انتہائی طنزیہ لہجے میں کہا ۔
” تم مجھے ایسے اشتعال نہیں دلا سکتے ہو، میں چاہوں تو ابھی تمہیں ختم کر سکتا ہوں،لیکن میں تم سے کھیل…“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے اس کی بات کاٹ کر تیزی سے کہا
”بکواس بند کرو، اور اگر ہمت ہے تو میں لاہور کے مال روڈ پر، ایک ریستوران میں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں دیکھ ہی لوں تمہیں۔ ایک گھنٹے تک تمہیں مہلت دیتا ہوں۔
مجھے تلاش کر لو، میرا وعدہ ہے میں خود کو تیرے حوالے کر دوں گا اور نہ تلاش کر سکے ، توتم اپنی شکست مانتے ہوئے خود اپنے آپ کو میرے حوالے کردینا، کیسا ہے یہ کھیل؟ آؤ ، اب میں تمہارے ساتھ کھیلتا ہوں۔“
”میں جانتا ہوں کہ تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو، تم زیادہ دیر تک میری نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکتے ہو۔“ اس نے انتہائی غصے میں کہا تو میں چونک گیا۔
کیا اس وقت میں اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوں؟ جیسے ہی مجھے یہ خیال آیا تو میں چونک گیا۔
”اب بھاگو مت، آؤ، مجھے پکڑو، تمہیں تو معلوم ہونا چاہئے کہ میں کس جگہ پر ہوں؟ “ میں نے کہا تو وہ خاموش رہا تب میں بولا،”حملہ کرکے بھاگ جانے والوں کے باپ کا پتہ نہیں ہوتا، دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں،بے غیرت اور منافق، اور یہ اپنے باپ کے نہیں ہوتے، ہار جانے کا اعلان کرو، اور اپنا آپ میرے حوالے کرو، یا پھر مجھے آ کر پکڑ لو، مزاحمت نہیں کروں گا۔
کہو منظور ہے؟“
اس نے جواب نہیں دیا اور فون بند کر دیا۔ مجھے تھوڑا بہت سمجھ آ نے لگی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک خاص دوست کو فون کیا اور اُسے سمجھاتے ہوئے اس ریستوران کے بارے میں بتایا۔ اور اُسے سمجھا دیا کہ اُسے کیا کرنا ہے ۔ میں بعدمیں رابطہ کروں گا۔
#…#…#