رات کا پہلا پہر ابھی ختم نہیں ہوا تھا جب جسپال اوگی پنڈ پہنچ گیا۔ پھوپھو کلجیت کور کھانے کی میز پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے ڈرائینگ روم داخل ہوتے ہی فتح بلائی تو پھوپھو نے جواب دے کہا
” تو پتر جلدی سے کھانے پر آ جا ، میں تیرا انتظار کر رہی ہوں اور باقی سب کو بھی بلاتی ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ آواز دینے لگی۔ جسپال وہیں بیٹھ گیا۔ چند منٹوں میں سارے وہاں آ گئے۔
خوشگوار ماحول بن گیا۔ وہ وہاں بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ جسپال نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ رتن دیپ سنگھ نے الیکشن ہی کے لئے بلایا تھا۔ پارٹی میں ہر پل اوپر نیچے تو ہو رہی ہے۔ ایسی ہی کچھ باتیں کر کے اس نے سب کو مطمئن کر دیا کہ وہ بہت اہم کام سے گیا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں تھا اور ایسا ہونا ناممکن تھا کہ وہ اپنے کمرے میں ہو اور ہر پریت اس کے آس پاس نہ ہو ۔
(جاری ہے)
وہ ایزی ہوکر بیڈ پر لیٹا ہی تھا کہ ہرپریت آ گئی۔ وہ حسب معمول اس کے پاس بیڈ پر نہیں بیٹھی، بلکہ قریب پڑی ایزی چیئر پر سمٹ کر بیٹھ گئی۔ جسپال نے پہلے تو محسوس نہ کیا ، پھر چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا
” خیر تو ہے پریتو، یوں اجنبی ہو رہی ہو؟“
” کہاں تھے تم ، اتنی رات کو اچانک نکلے؟“ اس نے جواب دینے کی بجائے سوال کر دیا۔
” بتایا نا کہ میں رتن دیپ سنگھ کے پاس گیاتھا۔ کیوں تم شک کیوں کر رہی ہو؟“ اس نے ہرپریت کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
”مجھے شک نہیں یقین ہے۔“ اس نے اعتماد سے کہا
” مطلب میں جھوٹ بول رہا ہوں؟“ اس نے ناراضگی سے کہا
” مجھے نہیں پتہ۔“ وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی
” کوئی وجہ تو ہو، میرے جھوٹ بولنے ،نہ بولنے کی، کیا بچوں کی طرح کر رہی ہو۔
“ وہ اکتاتے ہوئے بولا
”میں نے کہا نا کہ تمہاری باتوں پر میرا دل نہیں مان رہا ہے۔اوراب اس کی وجہ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے۔“ اس نے تنک کر کہا
” اچھا، میرا مغز نہ کھاؤ، صبح وہ نوتن کور آ جائے گی ادھر ، اس سے پوچھ لینا تفصیل کہ میں کہاں تھا۔ اب چاہو تو اب بھی پوچھ لو کہ میں کہاں تھا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سیل فون اس کی طرف بڑھا دیا۔
” اچھا ، غصے کیوں ہوتے ہو،بس تم نے کہا اور میں نے مان لیا۔“ اس نے عام سے انداز میں کہا
” تو پھر ، یوں اجنبی کیوں لگ رہی ہو؟“ جسپال نے پوچھا تو وہ اٹھتے ہوئے بولی
” میں تمہارے لئے چائے لانا بھول گئی ، وہ لے آؤں۔ یا پھر جُوتی کو بھیج دوں؟“
” ہرپریت۔! ادھر بیٹھو ، میرے پاس اور بتاؤ بات کیا ہے؟“ جسپال نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔
وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی ، پھر بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی تو اس نے پوچھا،” بولوکیا بات ہے؟“
” میں بہت ڈسٹرب ہوں جسّی، میری سوچیں مجھے پاگل کر رہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔“ اس نے بے چینی کے سے انداز میں کہا
” کیسی سوچیں ہیں؟“ اس نے نرمی سے پوچھا
” یہی کہ یہ جو ہم الیکشن لڑنے جا رہے ہیں، کیا ہو گا اس سے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ہم اسمبلی کی سیٹ جیت جائیں گے۔
اور مجھے سو فیصد امید ہے کہ ہم جیت بھی جائیں گے۔ لیکن، اس کے بعد ہوگا کیا؟ پورے علاقے میں جہاں صرف چند لوگ ہمارے دوست ہوں گے، وہاں اس سے کہیں زیادہ دشمن پیدا ہو جائیں گے۔ ایک خوشامدی ٹولہ بن جائے گا جو ہمیں گھیرے میں لے لے گا۔ اگر ان کے کام ہوتے رہے تو وہ دوست دکھائی دیں گے اور اگر کام نہ ہوئے تو یہی لوگ سازش کریں گے۔ منافقت کریں گے اور دشمنوں کا ساتھ دیں گے، ان پر اعتماد کیا ہی نہیں جاسکتا ، ہم ہر طرح کے لوگوں کی نگاہوں میں آ جائیں گے۔
وہ سکون وہ اطمینان ، جو تھوڑا بہت ہمیں میسر ہے ، وہ بھی نہیں رہے گا۔“ وہ یوں کہتی چلی گئی ، جیسے وہ پھٹ پڑی ہو۔
” کیا چاہتی ہو تم؟“ جسپال نے نرمی سے پوچھا
” یہ سب چھوڑو، میں انوجیت کو تو یہ نہیں کہہ سکتی، تمہیں تو کہہ سکتی ہوں۔“ وہ پھر یوں بولی جیسے اسے سمجھ نہ آرہی ہو کہ وہ آخر کہنا کیا چاہتی ہے۔ جسپال نے اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑا اور پھر اسے قریب کر لیا۔
وہ ساری کی ساری اس کی طرف ہو گئی۔ جسپال نے اس کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا
” پریتو۔! سچ بتانا ، بات کیا ہے ؟“
وہ اس کے چہرے پر دیکھتی رہی ، جیسے بہت کچھ کہنا چاہ رہی ہو پھر کچھ لمحوں بعد بولی
” جسپال۔! ہم کب تک بھاگتے دوڑتے رہیں گے، کالج لائف میں اک جوش تھا، عقل نہیں تھی، بہت کچھ کیا کیونکہ ہمیں لگتا تھا کہ اب کچھ دن ہی ہیں ، جب ہم اپنی قوم کو آزاد کرالیں گے، لیکن اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ اب ناممکن ہے ، آزادی ہم سے بہت دور ہوگئی ہے ، ہم لڑتے ہوئے مر جائیں گے اور شاید اگلی نسل ایسا کچھ کر پائے۔
“ اس کے لہجے میں مایوسی تیر رہی تھی۔
” پھر کیا کرنا چاہئے ہمیں؟“ اس نے پوچھا
” یہی کہ زندگی کو زندگی سمجھ لیں اور جو ہو رہا ہے اسے قبول کر لیں۔خود سے ایسا کچھ نہ کریں جو زندگی کو ختم کرنے والا ہو ، سکون بھی تو چاہئے نازندگی میں۔“ اس نے اپنی آ نکھوں میں اُمید کے نجانے کتنے دیّے جلائے کہا تو جسپال آہستہ سے بولا
” پریتو۔
! جیسا تو چاہئے گئی نا ، ویسا ہی ہوگا۔ ہم ابھی اور اسی وقت الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن اس سے ہوگا کیا؟ ہم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ ہم بہت آگے نکل آ ئے ہیں، بہت ساری جگہوں پر یہ طے کر لیا گیاہے، اب واپسی ناممکن ہے ۔“ جسپال نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا
” لیکن ابھی تو اتنی مشکل نہیں ہے ، بعد میں تو…“ اس نے کہنا چاہا تو جسپال اس کے ہاتھ کو دبا کر بولا
” زندگی یہ نہیں ہے جو تم چاہ رہی ہو۔
زندگی کا مقصد کچھ دوسرا ہے۔ میں ابھی تمہیں بتانے والا نہیں بلکہ تمہیں دکھاؤں گا زندگی ہوتی کیا ہے۔ اور آزادی ایک دن میں نہیں مل جاتی۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ہم نے آزادی کی اس وقت قدر نہیں کی جب وہ ہمارے سامنے دھری ہوئی تھی۔ اگر ایک بار آزادی چھن جائے تو پھر بہت دیر بعد ملتی ہے ۔ اب یہ آزادی بہت وقت بعد ملے گی اور بڑاخون بہانا پڑے گا۔
ہم جس سے آزدی مانگ رہے ہیں وہ کمینہ دشمن ہے۔ اور آخری بات، تم اتنی مایوس کیوں ہو گئی ہو، کب سے تم نے عقل کی باتیں سوچنا شروع کر دی ہیں؟“ اس نے بڑے پیار سے کہا
” مجھے ڈر لگتا ہے جسپال ، ہماری قربانی ہمارا لہو کہیں رائیگاں نہ چلاجائے۔“ وہ دکھ سے بولی
” ہمیشہ وہ لہو رائیگاں جاتا ہے ، جس میں انسانیت سے محبت نہ ہو۔ ہم کسی کو نیچا دکھانے یااپنی انا کے لئے نہیں لڑرہے ہیں، ہمیں طاقت سے بھی غرض نہیں لیکن ۔
! اگر کوئی ہماری حرمت کو نقصان پہنچائے گا تو اس کے لئے معافی نہیں ہے ۔ بتاؤ کیا ہونی چاہئے معافی؟“ اس بار جسپال بات کرتے ہوئے کافی حد تک جذباتی ہو گیا۔ اس پر وہ سوچتے ہوئے بولی
” تم ٹھیک کہتے ہو۔“
” پریتو ، میں سمجھتا ہوں کہ تم اکیلی ہوتی ہو اور اوٹ پٹانگ سوچتی رہتی ہو۔ خیر،اب تم مجھے ایک اچھی سی چائے پلاؤ، پھر میں تمہیں ایک مزیدار بات بتاتا ہوں۔
“ جسپال نے یونہی کہہ دیا تو وہ اُٹھ کر باہر چلی گئی۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ ٹرے لئے واپس آ گئی۔
” وہ جُوتی لے کر آ رہی تھی۔ اب سناؤ مزیدار بات۔“ اس نے ٹرے اپنے سامنے بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا
” مزیداربات یہ ہے کہ بانیتا کور اس وقت جمال کے پاس لاہور میں ہے۔“ اس نے ایک دم سے کہا
” ارے واہ، وہ کیسے؟“ وہ کافی حد تک حیرت ملے جوش سے بولی
” بس چلی گئی اس کے پاس ۔
“ جسپال نے کہا
” کاش ہم بھی وہاں جاتے ۔“ ہر پریت نے آہ بھرتے ہوئے کہا تو جسپال بولا
” بس یہ الیکشن سے فارغ ہو جائیں، پھر شری ننکانہ صاحب چلیں گے درشن کے لئے۔“اس نے کہا اور چائے بناتی ہر پریت کے چہرے پر پھیلتے رنگوں کو دیکھنے لگا۔ تبھی اس نے موضوع بدل دیا۔ وہ الیکشن بارے بتانے لگی۔ یونہی ارد گرد کے گاؤں جانے کی باتیں۔