Last Episode - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

آخری قسط - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 سہ پہر ہو گئی تھی۔ میں نہایا تو وہی بھینی بھینی مہک پھر سے تازہ ہو گئی ۔ بھوک کا احساس ہونے کے باوجود میرا کچھ بھی کھانے کو جی نہیں چا ہ رہا تھا۔ میں لان میں چلا گیا۔ وہیں مجھے چائے دے دی گئی ۔ میرا ذہن باس میں اُلجھا ہوا تھا۔ اس کی فون کال نہیں آئی تھی ۔ اروند اور فہیم بھی اسے تلاش نہیں کر پائے تھے ۔ تھوڑا بہت اگر کامیابی لی بھی تھی توپھر بھی کنفرم نہیں کر پائے تھے۔
میرا اضطرب بڑھنے لگا۔ میں اب اروند یا فہیم کو بار بار فون کر کے تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں چائے پی رہا تھا کہ ولید کی کال آ گئی ۔ میں رسیو کرتے ہوئے کہا
 ” سوری ۔! میں دوبارہ رابطہ نہیں کر سکا، میں…
” سر ، آپ مصروف ہوں گے ، تبھی رابطہ نہیں کیا، میں اب بھی نہ کرتا اگر مجھے آپ سے ایک اہم کام نہ ہوتا۔

(جاری ہے)

“ اس نے کافی حد رک الجھے ہوئے لہجے میں کہا

” ولید ۔
! خیر تو ہے نا؟“ میں نے پوچھا
” خیر ہی ہے ، آ پ سے ملاقات ہوتی ہے تو بتاتا ہوں نا جی میں۔“ وہ اسی لہجے میں ہی بولا 
”کہاں ہو تم؟“ میں ے پوچھا 
” میں کل سے یہیں لاہور ہی میں ہوں ۔آپ کی فون کال کا انتظار کر رہا ہوں۔“ اس نے بتایا
” ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں۔“ میں نے کہا
 میں نے ایک دم ہی اس کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا۔
میں فون بند کرتے ہوئے اٹھ گیا۔ اس وقت سندیپ کور اپنے کمرے میں تھی اور بانیتا کور جاگ گئی تھی ۔ میں نے اُسے کچھ دیر باہر جانے کے لئے کہا اور کار لے کر نکل گیا۔ میرا رُخ علامہ اقبال ٹاؤن کی جانب تھا، جہاں ولید میرا انتظار کر رہا تھا۔ 
میں جس وقت میں نہر کے پل پر پہنچا اس وقت مغرب ہو چکی تھی ۔ میں نہر کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اسی وقت میرے من میں نجانے کیوں شاہ جمال کے مزار پر ملنے والے وہی سفید ریش بزرگ مجھے یاد آنے لگے۔
میں سمجھ رہا تھا کہ یہ یاد یونہی نہیں ہے۔ اس لئے جیسے میں فیروز پور روڈ پر چڑھا تو پھرچلتا چلا گیا، یہاں تک کہ بابا شاہ جمال کے مزار تک جا پہنچا۔ میں نے کار پارک کی اور اندر چلا گیا۔ میں نے دیکھا وہی بزرگ انہی قبروں کے درمیان سفید کپڑا بچھائے ہوئے بیٹھے تھے۔ میں مسکراتے ہوئے ان کے پاس چلا گیا، انہوں نے میری طرف دیکھا اور گہری سنجیدگی سے کہا 
” آؤ بیٹھو۔
میں ان کے سامنے جا بیٹھا۔
”کیا میں نے تمہیں دِیّا نہیں دکھایا تھا ، اس کے بارے بتایا نہیں ، کیاتم اُسے نہیں سمجھے ہو؟“
” حضور ، اگر میں نہیں سمجھا تو آ پ پھر سے مجھے سمجھا دیں ۔“ میں نے عاجزی سے کہا تو چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے ، پھر بولے
” پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کثرت جو ہے یہ وحدت سے ہے اور وحدت ہی سے ساری کثرت ہے ۔
ہر انسان ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔ کوئی تم سے جڑا ہے تو کیوں نہیں تم اس سے جڑ جاتے ہو۔ بس ذرا سا دھیان دو۔“
” کیسے ؟کیسے دھیان دوں بابا جی ؟“ میں نے تجسس سے پوچھا
”اچھا تمہیں پھر ایک اور بات بتاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہے پھر بولے،” تمہارے خیال میں دَیّے کی حقیقت کیا ہے؟“
” حضور آپ بہتر سمجھتے ہیں۔
“ میں دھیمے لہجے میں کہا 
”دِیّے کی حقیقت روشنی ہے۔ روشنی نہ ہو تو دِیّا بھی نظر نہیں آتا ۔میں تمہیں کھول کر ہی بیان کر دوں، دِیّے کو روشنی نے وجود دیا ہوا ہے ۔ دِیّے کو جسم سمجھ لو اور جسم میں روشنی نہ ہو تو کسی کی بھی پہچان ممکن نہیں ہے ۔ روشنی کی حقیقت سمجھ میں آ گئی تو سمجھ لو کوئی بھی تم سے چھپا ہوا نہیں ہے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
” روشنی کی حقیقت کیا ہے ؟“ میں نے بات بڑھانے کے لئے پوچھا تو بولے
”جب انسان آ نکھ کھولتا ہے تو اس کے سامنے زمان و مکاں ظاہر ہو جاتا ہے۔
دن ، رات اور دن رات کے اندر انقلابات ظاہر ہو جاتے ہیں۔اور جو حقیقی زمانہ ہے وہ اس کے اندر ہے اور یہ اس کی ایک جھلک ہے۔یہ سلسلہ روزو شب ہی ہے جس میں زندگی اور موت دیکھی جا رہی ہے ۔مطلب پیدا ہونا اور مر جانا ۔ یہ تغیرات کی نشانی ہے۔ تغیرات اور انقلابات اسی زمانہ کی مسلسل حرکت سے پیدا ہورہا ہے۔ چونکہ ذات ،تغیرات اور انقلابات سے منزہ ہے، اس لئے وہ زماں و مکاں سے بالا تر ہے۔
یہ سلسلہ و روز وشب اس کی تخلیق ہے، سمجھو کن فیکون کا تسلسل ہے۔ ازل کے ساز سے ایک نغمہ نکل رہا ہے یعنی زمانہ ذات کی تخلیقی فعالیت کا مظہر ہے اور بقید زمان و مکان میں عالمِ وجود میں چلی آ رہی ہیں۔ زمانہ بلاشبہ کائنات میں سب سے بڑا کھرا کھوٹے کا پرکھنے ولا ہے، چنانچہ جو افراد اور معاملات ناقص ہوتے ہیں۔زمانہ انہیں فراموش کر دیتا ہے۔
سلسلہ روز و شب کی اصل حقیقت یا اصل زمانہ جس میں نہ دن ہے نہ رات محض حال ہی حال ہے ، نہ ماضی ہے اور نہ مستقبل۔ یہ زمان ِ خالص ایک رُو ہے، جس میں مسلسل حرکت ہے۔ زمانہ زندگی ہے اور زندگی زمانہ ہے۔ اگر زمانے کی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہتے ہو تو دل میں غوطہ لگاؤ ، عشق اختیار کرو کہ عشق اصل حیات ہے اور زمانے کی دستبرد سے بالا تر ہے۔عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام… “
” عشق کازماں کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے؟“ میں نے سمجھنے کے لئے پوچھا
” عشق ،مومن کے اعمال میں رنگِ دوام پیدا کر دیتا ہے۔
کیونکہ عشق اصل حیات ہے۔ اس پر فنا طاری نہیں ہوتی۔ اگرچہ زمانہ تیز تر، تند اور انتہائی رفتار رکھتا ہے۔ لیکن عشق اس سے بھی بڑھ کر سبک رفتار ہے۔ اس لئے وہ زمانے پر غالب آ جاتا ہے اور اس کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عشق بڑی کامیابی سے زمانے کا مقابلہ کرتا ہے۔ زمانہ ہر شے کو فنا کر دیتا ہے مگر عشق کو فنا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ۔ زمانہ عشق کے سامنے بے بس ہے۔
“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
” اب بابا جی یہ بھی فرما دیں کہ روشنی اور عشق میں کیا تعلق ہے۔“ میں نے پوچھا 
” وحدت کی روشنی عشق ہے۔دِیّے کی مثال سے اس کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح ظاہری روشنی کے بغیر کچھ بھی دیکھنا نا ممکن ہے۔ اسی طرح عشق کی باطنی روشنی کے بغیر کسی بھی شے کی حقیقت کو دیکھنا اور جاننا ممکن نہیں ہے۔اور جان لو کہ روشنی روشنی ہی سے حاصل ہوتی ہے ۔
“انہوں نے خود لطف لیتے ہوئے کہا تو میں نے تجسس سے پوچھا
” بابا جی یہ کیسے ، اس بات کو کھولیں؟“
 میرے پوچھنے پر وہ بے ساختہ بولے
” اتباع… اتباع ِمحبوب۔“ یہ کہہ کر وہ ہلکا سا مسکرائے پھر جھوم کر بولے،” اللہ کا رنگ کیا ہے، صبغت اللہ۔ اللہ کا رنگ ، اتباع ہی سے چڑھتا ہے ۔ یہ رنگ وہیں سے ملتا ہے۔ اب سنو۔! یہ کیسے چڑھتا ہے۔
” حضور فرمائیں۔“ میں نے شوق سے کہا
” قطرہ آب نیساں جو صدف کی آ غوش میں چھپ جاتا ہے۔جب اس قطرہ کو خلوت نصیب ہوتی ہے، پردہ میں چلا جاتا ہے خِلوت میں گوہر بن کر جلوت یعنی عالم ظاہر میں ظہور پا جاتا ہے۔جب پانی کی بوند خودی کا حرف یاد کر لیتی ہے، اس میں خودی کی روشنی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اپنے بے حقیقت وجود کو موتی بنا لیتی ہے۔
” واہ ، سبحان اللہ۔“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔اور وہ جذب میں کہہ رہے تھے۔
” عشق و مستی سے، سچی بے خودی سے ،جسم و جان، موت و حیات، مکان و زمان سے گذر کر ،دل میں ڈوب کر، خلوت میں،حق سے محکم ہو کر، اپنی خودی کو پا کر پھر کائنات میں ظاہر ہو کر ،اپنے جان وجسم کو تسخیر کرکے کائنات کو مسخر کر لو۔“
”عشق کی اس منزل ِخودی تک فوری طور پر رسائی کیسے ممکن ہے۔
“ میں نے تیزی سے پوچھا
 ” خودی ایک آ نکھ سے اپنی خلوت کا مشاہدہ کرتی ہے اور دوسری آ نکھ سے جلوت یعنی کائنات کا تماشہ کرتی ہے ۔ اگر ایک بند ہو جائے تو گناہ ہے اگر دونوں آ نکھوں سے دیکھتی ہے توعین راہِ سلوک ہے ، یہی طریقِ قلندر ہے ۔“
” کیسے باباجی،“ میں انتہائی تجسس سے پوچھا
” وہی… جیسے دِیّے کو روشن ہونے کے لئے اپنے وجود یعنی تیل کو جلانا پڑتا ہے ویسے ہی قلندر اپنے محبوب سے عشق کی آگ میں جلتاہے تو خودی کی روشنی حاصل کرتا ہے۔
یہ وہی روشنی ہے جو رَبّ تعالی نے اپنے محبوب کو دی اور انہوں پوری کائنات میں تقسیم فرما دی ۔ سن لو۔! خودی کیا ہے ، غلامیِ محبوب ﷺ اور عشق رسول ﷺ ہے۔“ انہوں نے کہا اور جذب سے شعر پڑھنے لگے۔
مقامِ مصطفی دَر دلِ مسلماں است
آ بروئے ما از نامِ مصطفی است
موت و حیات نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
پسند رُوح و بدن کی ہے وَا نمود اس کو
کہ نہایتِ مومن ہے خودی کی عریانی
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کی پیچھے نہ حد سامنے
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
زمین و آسمانوں و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
” واہ۔
! قلندر لاہور ی نے خودی کو کیسے بیان کیا۔“ میں نے جذب میں کہا
” بس اتنا سمجھ لو ، اَنّا ، جب حضرت ِاقبال کے ہاتھوں میں آئی تو خودی بنی۔“
 یہ کہہ کر انہوں نے آ نکھیں بند کر لیں۔ پھر اٹھے ، سفید کپڑا سمیٹا اور ایک جانب چل دئیے ۔
میں نے غور کیا ، میرے سامنے سب کچھ کھل گیا تھا۔ مجھے لگا کہ میں ہاتھ بڑھاؤں گا اور خودی کا جوہر میرے ہاتھ میں ہوگا۔
مجھے خود پر رشک اور اپنے دشمنوں پر پیار آ رہا تھا۔ جن کی کوششوں سے آج میں اس عالی قدر راز تک رسائی حاصل کر گیا تھا۔
میں اٹھا اور چل پڑا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں یہ کائنات تسخیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ میرے سامنے ایک نئی دنیا طلوع ہو رہی تھی۔
                                                            انشا اللہ ۔باقی آ ئندہ

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط