”ہم کوئی بھی ہیں، تم اپنا کام کرو، ہمیں مار دو، ہماری بوٹی بوٹی کرو، دکھاؤ اپنی درندگی۔مادر…“ اس نے انتہائی نفرت سے مجھے گالی دی۔ ایک دم سے میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ اندر سے ایک لہر اٹھی لیکن جس طرح یہ لہر اٹھی تھی۔ اسی طرح میں نے اس پرخود قابو پا لیا۔
” میں یہ جانتا ہوں کہ تم دونوں مجرم نہیں ہو۔ اور نہ وہ تھے ، جو تم لوگوں کے ساتھی تھے۔
تھے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔چونکہ اب وہ مر چکے ہیں،اس لئے میں چاہتا ہوں ان کی آخری رسومات ان کے مذہب کے مطابق ادا کر دی جائیں۔ باقی تم لوگوں سے باتیں تو میں بعد میں بھی کر لوں گا۔“ میں نے انتہائی تحمل سے کہا تومیرے یوں کہنے پر ایک نے سر اٹھا کر اسی نفرت آ میز لہجے میں کہا
” وہ نہیں رہا تو کوئی بات نہیں، اب اس کا جسم ہے ، چاہے جلا دو یا دفنا دو۔
(جاری ہے)
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
” یہ توپکی بات ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ وہ جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہیں ، میں…“ میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ دوسرا اُکتائے ہوئے انداز میں بولا
” جو مرضی کرو۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔“
” لیکن ہمیں تو ہے۔“ میری پشت سے بانیتا کور کی آواز آ ئی۔ انہوں نے سامنے کھڑی بانیتا کور کو دیکھا پھر استہزایہ انداز میں مسکرا دئیے۔
میرے لئے یہ کافی حیرت والی بات تھی کہ یہ لوگ اتنے نڈر ہیں ۔ لیکن دل نہیں مان رہا تھا کہ یہ نڈر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی غیرت مند آدمی بچوں اور عورتوں کو یرغمال نہیں بناتا۔میں نے دیکھا وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے یوں کھڑی تھی ، جیسے ابھی ان پر برس پڑے گی۔
” تو کرتے رہو، ہم سے کیا پوچھ رہے ہو۔“ پہلے نے بھی اسی طرح اکتائے ہوئے انداز میں کہا جیسے ہم ان کے آرام میں خلل ڈال رہے ہوں۔
” تم لوگوں سے تو بہت کچھ پوچھنا ہے ، دیکھو، ہم کتنے اچھے ہیں کہ تم دونوں سے یہ پوچھ رہے کہ کیسے بتاؤ گے، آرام سے یا ذلیل ہوکر۔“ بانیتا کور نے دانت پیستے ہوئے کہا تو دونوں نے سر اٹھا کر دیکھا
” بندھے ہوئے…“ دوسرے نے کہنا چاہا تو وہ آگے بڑھی اور اس نے قریب کھڑے ایک بندے کو اشارہ کرتے ہوئے کہا
” اُسے کھول دو۔“
وہ بندہ آ گے بڑھا اور اس نے دوسرے کو کھول دیا۔
وہ آزاد ہوتے ہی کھڑا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ وہ بانیتا کور سے زیادہ بھاری ہے ۔ مگر میں بھی اس کا اعتماد دیکھنا چاہتا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے ۔ اس نے سامنے کھڑے اس بندے کو وار کرنے کی دعوت دی ۔ وہ سرعت سے آ گے بڑھا۔ اور اس نے جھکائی دے کر پوری قوت سے مکا اس کے منہ پر مارا مگر اس کی کوشش رائیگاں گئی ۔ بانیتا کور نے اس کی کلائی پر ہاتھ مارا اورتووہ بے ساختہ آگے جھک گیا، بانیتا نے اس کی گردن پر زور دار کلائی رسید کی،جس سے وہ اپنی ہی جونک میں لڑکھڑاتا ہوا آگے دیوار کی جڑ میں جا گرا۔
بانیتا کور نے اسے اٹھنے نہیں دیا ، پوری قوت سے پاؤں کی ٹھوکر اس کے سر پر دے ماری اس کا سر دیوار سے لگا۔ وہ چکرا گیا۔ وہ رُکی نہیں، اس نے اس کا سر پکڑا اوردوبارہ اسے دیوار پر دے مارا۔ خون کا فوارا اس کے سر سے نکل پڑا۔ بانیتا کور نے اسے کالر سے پکڑا اور گھسیٹ کر کمرے کے درمیان میں لے آ ئی۔ پھر اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ چند ثانئے میں وہ ادھ موا ہو گیا تو وہ ایک طرف ہو کر بولی۔
” اب اسے کھول دو، اور اس پر ٹھنڈا پانی ڈال دو۔“
” ٹھہرو۔“ میں نے کہا اور پھر بندھے ہوئے کی طرف دیکھ کر پوچھا،” کیا خیال ہے؟“
وہ چند ثانئے سوچتا رہا پھر اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا
” پوچھو، کیاپوچھناہے۔“
بانیتا کور ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔
” کون لوگ ہو تم؟“
میرے یوں پوچھنے پر وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا
” ہم بھارتی ہیں اور اپنے مشن پر ہیں۔
“
” ہمارے پیچھے کیوں تھے؟“
” تم دونوں کو اغوا کر کے لے جانا تھا؟“ وہ بولا
” کہاں؟“ میں نے پوچھا
” وہیں، جہاں ہمارا باس کہتا۔ اس سے زیادہ ہمیں کچھ پتہ نہیں۔“ وہ بولا
” کب سے یہاں ہو؟“ میں نے پوچھا
” دو سال ہو گئے ہیں۔“ اس نے کہا
” میرے پیچھے ہی کیوں؟“
” کہا نا باس نے حکم دیا ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ تم ہی الطاف گجر کو پکڑ کر لائے ہو۔
تم ہمارا نیٹ ورک تباہ کر دینا چاہتے ہو۔“ وہ نفرت سے بولا تو میں چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر مسکرا کر بولا
” جو کچھ تم کہہ رہے ہو ، کیا اس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ یقین جانو، تمہیں جانے دوں گا۔ کیونکہ تم ایک مقصد کے لئے لڑ رہے ہو۔ تم کوئی مجرم نہیں ہو ۔“ میں نے کہا تو اس نے پہلی بار نرم انداز میں میری طرف دیکھا، پھر مایوسی سے بولا
” میں ایسا نہیں کر سکتا۔
مجھے پتہ نہیں ، میرا باس کہاں ہے، مجھے بس میرے ساتھی سے حکم ملا اور میں اس کے ساتھ چل دیا۔“
” ٹھیک ہے پڑے رہو، جب تجھے اپنے باس سے رابطہ کرنے کا طریقہ معلوم ہوجائے بتا دینا۔“ میں نے کہا اور باہر چل دیا۔ دوسرا بے ہوش ہو چکا تھا۔ قریب کھڑے بندے نے اسے دوبارہ باندھ دیا تھا۔
#…#…#