ہر مندر صاحب سے پلٹ کر وہ رتن دیپ سنگھ کی حویلی واپس نہیں گئے بلکہ انہوں نے وہیں سے جالندھر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ فیصلہ انہوں نے پرکرما کے پاس بیٹھ کر کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک لائین آف ایکشن ترتیب دے لیں۔ وہ مختلف گاڑیوں میں بانیتا کور کے فارم ہاؤس میں آن ٹھہرے جہاں ان کے لئے دوپہر کا کھانا تیار تھا۔ راستے میں آتے ہوئے ان کے درمیان بہت ساری باتیں ہوتی رہیں تھیں ۔
وہاں پہنچ کر کھانے کے بعد وہ بیٹھ گئے۔
” ساتھیو۔! یوں تو میرے ذہن میں بہت سارے پلان ہیں، لیکن سب سے پہلا کام جو میرے ذہن میں ہے ، وہ ایک صحافی اٹھانا ہے ۔ اس کے اخبار دیکھو، اس میں کتنا زہر بھرا ہوتا ہے ، ان سنگھوں کے بارے میں جو دھرم کے لئے اپنا سب کچھ قربان کئے بیٹھے ہیں۔ وہ اخبار انہیں دہشت گرد لکھتا ہے، ایسا میں پہلی بار نہیں کر رہا ہوں بلکہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈر نے بھی ایک کو مارا تھا، وہ سنگھوں کے خلاف حکومت کو بھڑکانے سے باز ہی نہیںآ تا تھا ۔
(جاری ہے)
آگ لگائی ہوئی تھی اس نے ۔“ بلدیو سنگھ نے کہا
” کر نا کیاہے ؟“ وکرم سنگھ نے پوچھا
” وہ اخبار تو ساری زندگی، سنگھوں کے خلاف نہیں لکھے گا ، لیکن اس کے ساتھ دوسروں کو بھی عقل آ جائے کہ ایسا کام نہیں کرنا۔ اور اب تو نیوز چینل کا زمانہ ہے، انہیں بھی قابو کرنا ہے ۔ یہیں سے انہیں میسج دینا ہے۔“ بلدیو سنگھ نے کہا
” پلان کیا ہے؟“ سرجیت سنگھ نے پوچھا
” وہ ابھی طے کرتے ہیں، لیکن ایک بات یاد رہے، ہمیشہ کے لئے، رازداری سب سے پہلے ہے، ہماری طرف کوئی شک کی نگاہ سے بھی نہ دیکھے۔
اس لئے کوئی بھی پلان بنانے سے پہلے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے ۔“ بلدیو نے کہا
” رابطہ ہی ہوگا ، جس کے دوران ہی کوئی دوسرا ہم میں دخل اندازی کر کے ہمارے بارے معلوم کر سکتا ہے۔ سو اسے مضبوط بنا لیں۔“ جسپال نے کہا
” وہ میری ذمہ داری ہے ۔“ نوتن کور بولی
” تو ٹھیک ہے ، وہ اخبار یہیں کا ہے، اس کا مالک بھی یہیں رہتا ہے اسی شہر میں۔
اب میں بتاتا ہوں کہ کرنا کیا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے سامنے ایک پیپر رکھا اور انہیں تفصیل بتانے لگا۔
اخبار کا مالک ارجن کمارایک مشہور آدمی تھا۔ اس نے اخبار کمپنی بنا کر ہندی اور انگریزی اخبار نکال رہا تھا۔اور ان دنوں وہ نیوز چینل بنانے کی پوری تگ و دو میں تھا۔وہ صرف ایک صحافی نہیں تھا ، بلکہ اس کی تمام تر توانائی، پنجاب میں ہندو کی مضبوط کرنے اور سکھوں کی ہر طرح سے مزاحمت کرنے میں لگائی ہوئی تھی۔
اس کا براہ راست حکومتی اداروں سے تعلق تھا۔ خفیہ والوں کے لئے وہ بہت بڑا سہارا اور اس کا ذریعہ تھا۔ جس سے وہ اس پورے علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
۱۹۸۴ء میں وہ ایک معمولی سا صحافی تھا، جسے کوئی اخبار نوکری نہیں دے رہا تھا۔ وہ کچھ عرصہ چندی گڑھ میں وقت گذارنے کے بعد واپس جالندھر آ گیا اور یہاں ایک نامہ نگار کی حیثیت سے اس نے اپنا کام شروع کیا۔
۱۹۸۴ء کے سانحہ کے بعد اس نے سکھوں کے خلاف بہت زیادہ رپورٹنگ کی ۔ اس وقت خفیہ والوں کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی۔ وہ ان کی ضرورت بنتا چلا گیا۔ جس کے ساتھ ہی اس پر نواز شات کی بارش ہونے لگی اور وہ اخبارات کا مالک بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے تعلقات کے دائرے میں وسعت آنا شروع ہو گئی اور اس نے دوسرے کئی کاروبار شروع کر لئے۔
ارجن کمار جالندھر کے ایک پوش علاقے میں رہتا تھا۔
اس کے گھر سے اس کے آفس کی بلڈنگ کا فاصلہ ڈیڑھ کلو میٹر کے لگ بھگ تھا۔ اس کے گھر پر کافی سیکورٹی تھی۔ وہ اپنی شاندار بی ایم ڈبلیو کارمیں نکلتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ گھر سے نکلتا اور اپنے آفس تک جاتا، وہ وہاں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے گزارتا اور پھر کسی نہ کسی پارٹی میں چلا جاتا، یا کوئی ملاقات ہوتی وہاں چلا جاتا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر ہی رہتا۔
اس نے اپنے گھر میں ہی ایک آ فس بنایا ہوا تھا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اپنے اخبارات پر نگاہ رکھتا تھا۔ صحافتی حلقوں میں وہ ایک کامیاب شخص مانا جاتا تھا۔
بلدیو سنگھ نے اسی راستے میں اسے پکڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس نے ارجن کمار کے بارے میں پورا ہوم ورک کیا ہوا تھا۔ وہ جب گھر سے نکلتا ، تو اس کے ساتھ دو کاریں گارڈز کی ہوتی تھیں۔ جو اس کی کار کے آگے اور پیچھے رہتی تھیں۔
اور اس کی کار میں ڈرائیور کے علاوہ ایک پرسنل سیکریٹری ہوتی۔
بلدیو سنگھ نے سب کچھ بتانے کے بعد اس نے پیپر پر دو جگہوں پر نشان لگا دئیے۔ پھر بولا
” یہ وہ دو جگہیں ہیں ، جہاں اسے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں ہمیں اپنی قسمت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہاں پر دو اشارے ہیں۔ اگر یہ بند ہوئے تو ہم اپنا کام کر سکتے ہیں، ورنہ ہمیں اس وقت تک …“
” مجھے پانچ منٹ دو، میں بتاتا ہوں۔
“ جسپال نے کہا اور اس نے رونیت کورکو فون ملا دیا۔ چند لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔ ایک منٹ تو ان کے حال احوال میں گزر گیا، پھر جسپال نے پوچھا،” کیا جا لندھر میں اشاروں کا سسٹم کمپیوٹرائیزڈ ہے۔“
” ہاں، میرے پاس پورے پنجاب کا ڈیٹا ہے۔“ وہ بولی تو جسپال نے پوچھا
” اگر ایک خاص وقت پر کسی اشارے کو بند کرنا ہو تو کر سکتی ہو؟“
” کیوں نہیں، بس یہ بتا دو کہ کس وقت اور کون سا کرنا ہے ، تم جتنا وقت کہو گے میں روک دوں گی۔
“ اس نے عام سے لہجے میں کہا تو جسپال نے اسے وہی دو مخصوص اشارے بتا کر کہا
” میں دوبارہ تم سے رابطہ کرتا ہوں، تم الرٹ رہنا۔ میں وقت تمہیں بتادوں گا۔ اس وقت تک تم ایک بار چیک کر لو۔“
” ٹھیک ہے۔ میں سب دیکھ کر تمہیں بتاتی ہوں۔“ رونیت نے کہا تو ان کے درمیان رابطہ ختم ہو گیا
” لو جی ، ان اشاروں کی فکر نہ کریں، جب چاہیں اور جتنی دیر چاہیں، بند ہو سکتے ہیں۔
“ جسپال نے کہا تو بلدیو سنگھ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہی نہیں اس کی آنکھوں سے بھی خوشی چھلکنے لگی۔
” تو ٹھیک ہے ، باقی تم سمجھ چکے ہو، اگلا کام سرجیت سنگھ کر ے گا۔“ اس نے کہا اور پیپر کو آگ دکھا دی۔ سہ پہر ہو چکی تھی جب وہ سب فارم ہاؤس سے اپنی اپنی گاڑیاں وہاں چھوڑ کر، وہاں موجود دو چوری کی کاروں میں نکلے ۔ بلدیو سنگھ کے پاس اس کی اپنی ہی گاڑی تھی۔
صرف نوتن کور وہیں رہ گئی۔
جس وقت بلدیو سنگھ نے انہیں یہ اطلاع دی کہ وہ گھر سے نکل چکا ہے تو سبھی الرٹ ہو گئے۔ وہ اس کے تعاقب میں چلا آ رہا تھا۔ تاکہ اگر کہیں بھی وہ اِدھر ُادھر ہو تو دوسروں کو پتہ چل جائے۔ وہ اپنی گاڑی میں اکیلا تھا اور انہیں ہر لمحہ بتا رہا تھا کہ ارجن کمار اور اس کے گارڈز کی گاڑیاں کہاں کہاں سے گزر رہی ہیں۔ایک کار میں جسپال سنگھ اور بچن کور تھے اور دوسری میں وکرم سنگھ کے ساتھ کرن کور تھی۔
اس وقت جسپال سنگھ نے پگڑی اور نقلی داڑھی مونچھیں لگائیں ہو ئی تھیں۔ اس نے سب کے سامنے آ نا تھا۔ اگر سگنل پر کوئی سی سی کیمرہ بھی ہوتا تو بعد میں اسے نہیں پہچان سکتا تھا۔
جیسے ہی اطلاع ملی کہ وہ اشارے کے قریب ہے، جسپال نے رونیت کو الرٹ کر دیا۔ وہ اس کے ساتھ رابطے میں تھی۔ جسپال نے ان تینوں کاروں کو دیکھااور اس نے ان کے ساتھ اپنی کار لگا دی۔
پلان یہ تھا کہ وہ ارجن کمار اور گارڈز کے درمیان اپنی کار لانے کی کوشش کرے گا۔ وکرم سنگھ اگلے گارڈز اور ارجن کمار کے درمیان آ ئیں گے۔ جان بوجھ کر دونوں گاڑیاں ارجن کمار کی کار سے ٹکرائیں گیں۔ جیسے ہی کاریں ٹکرائیں گیں، اشارہ کھل جائے گا۔ ہر کسی کو اپنی گاڑی سنبھالنے کی فکر ہو جائے گی اور ایسے میں وہ ارجن کمار کی گاڑی میں پچھلی طرف اور اگلی طرف نیچے بم لگا دیں گے ۔
یہ سارا ایکشن ایک منٹ سے بھی کم وقت کا تھا۔ اچانک اشارہ بند ہو گیا۔ گاڑیاں رُکنے لگیں تو جسپال نے اپنی کار گارڈز اور ارجن کمار والی کار کے درمیان لگائی توکار ٹیڑھی ہو کر کھڑی ہوگئی ۔ جسپال سنگھ غصے میں نکلا۔ اس نے اپنی کار دیکھی ۔ لیکن اس دوران نجانے کب بچن کور نے اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی اپنے پاؤں باہر نکالے ، اس نے بم اپنے پاؤں پر رکھا۔
اس کے اوپر طاقتور مقناطیس لگا ہوا تھا۔ ذرا سے پاؤں اوپر اٹھائے تو وہ بم گاڑی کی پچھلی طرف لگ گیا۔ اس سارے عمل میں پندرہ سیکنڈ سے بھی کم وقت لگا تھا ۔ ٹریفک کا شور کان پھاڑ رہا تھا۔ جسپال نے اپنی کار دیکھی ، اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔ وہ واپس اپنی کار میںآ بیٹھا، تبھی اشارہ کھل گیا۔ لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کے ساتھ چل پڑے۔ جسپال سنگھ بھی چل پڑا۔
اس نے اسی مصروف شاہرا پر ایک مارکیٹ کے سامنے اپنی کار پارک کی ۔ بچن کور کو ساتھ لیا اور کچھ فاصلہ پیدل طے کرنے کے بعد وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر چل دئیے۔ اس کا بلدیو سنگھ کے ساتھ مکمل رابطہ تھا۔ وکرم سنگھ کے ساتھ کرن کور بم لگانے میں ناکام رہے تھے۔ یہی اس پلان کی مضبوطی تھی کہ دونوں لگ جائیں تو بہت اچھا، لیکن اگر ان میں سے ایک بھی لگ جائے تو ان کا کام ہو جانا تھا۔
اب انہیں صرف فارم ہاؤس نہیں جانا تھا۔ بلکہ ان کاروں سے جان چھڑا کر ڈھلہ روڈ پر موجود ایک ریستوران میں اکھٹے ہونا تھا۔ بلدیو سنگھ سب سے پہلے وہاں پہنچ چکا تھا۔ اس کے بعد جسپال اور بچن کور اور وکرم سنگھ کے ساتھ کرن کور آ گئی۔ ان کے گٹ اپ ختم ہو چکے تھے۔ وہ ایک ٹیبل پر بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ اور سامنے ٹی وی اسکرین پر بم بلاسٹ کی روداد دکھانے کے ساتھ سا تھ تفصیل بتائی جا رہی تھی۔
وہ بم اس کے دفتر کے بالکل قریب پھٹا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی سیکریٹری اور ڈرائیور بھی ختم ہو گئے تھے۔ پچھلے گارڈز کی گاڑی کو بھی نقصان ہوا ۔ اس کے گارڈز زخمی ہوگئے تھے۔ ٹی وی اسکرین پر یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ یہ قتل کس نے کیا۔ مختلف قیا س آ رائیاں کی جا رہی تھی کہ اسکرین پر بریکنگ نیوز آ گئی ۔ کسی ہندو دہشت گرد تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔