”تم ایک گھٹیا چیونٹی سے بھی زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، یہ خواب تو ہو سکتا ہے لیکن تیرے جیسے کمزور لوگ یہ خواب دیکھنے کی اوقات بھی نہیں رکھتے۔ میں چاہے مر جاؤں ،لیکن شام ہونے سے پہلے تیرا خون کسی سڑک پر بہہ جائے گا۔کیا تجھے یاد نہیں تمہیں تنکے کی طرح اٹھا لیا گیا تھا۔ایک تنکا طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اب چاہے مجھے مار دو۔“
”نیچے جاکر سڑک پر ماروں گا، اٹھو۔
“ میں نے اس کا کالر پکڑ کر اٹھانا چاہا تو وہ کمانڈو نوجوان حرکت میں آ گئے۔ انہوں نے مجھے کور کیا ہوا تھا۔میر ہاتھ ڈیوڈ ریبنز کے دائیں کاندھے کے اوپر گردن کے پاس تھا۔ وہ بالکل میرے سامنے تھے۔ان باتوں کے دوران میں پسٹل کو اس پوزیشن میں لے آیا تھا کہ ایک نوجوان کے چہرے کا نشانہ لے سکوں۔ جیسے ہی انہوں نے حرکت کی میں نے فائیرکردیا۔
(جاری ہے)
گولی اس کی ناک او رآنکھوں کے درمیان لگی تھی اس کی تیز چیخ کمرے میں گونج گئی۔
میں نیچے بیٹھ گیا۔ دوسرے نوجوان نے اس تذبذب میں گولی نہ چلائی کہ کہیں ڈیوڈ ریبنز کو نہ لگ جائے۔ یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ میں نے اس پر بھی فائر جھونک دیا۔وہ تڑپ کر دیوار کے ساتھ جالگا۔ اسی لمحے دروازے کے باہر کاریڈور میں تیز فائرنگ ہونے لگی۔ ڈیوڈ ریبنز کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔ وہ ہذیانی انداز میں بکواس کرنے لگا۔
”تم … تم ایسا نہیں کر سکتے … میں تمہاری قوم سے بدلہ لوں گا۔
ایک کے بدلے سو مریں گے۔ “
میں نے اسے گردن سے پکڑ کر دروازے میں دے مارا۔ میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنا چاہا، مگر وہ کسی میکنیزم سے بند تھا۔میں اس دروازے پر فائرنگ کر کے گولیاں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ڈیوڈ کو کالر سے پکڑ کر اٹھایا تو وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولا۔
”اگر تم مجھے نہ مارو تو میں تمہیں جانے کا محفوظ راستہ دے سکتا ہوں۔
“
”بولو…“ میں نے تیزی سے کہا تووہ جیب سے کارڈنکال کر مجھے دیتے ہوئے بولا۔
”اسے دروازے پر لگاؤ۔“
میں نے کارڈ پکڑا اور دورازے پر لگایا۔ دروازہ تو کھل گیا، لیکن سامنے کا منظر کسی میدان کار زار سے کم نہیں تھا۔ تین لاشیں کاریڈور میں تھیں۔ اسی لمحے بانیتا کور ایک کمرے سے نکل کر باہر آئی اور مجھے دیکھ کر تیزی سے بولی۔
”نکلو، پولیس آ رہی ہے۔“ میں نے ایک نگاہ ڈیوڈ کو دیکھا اور آگے کی جانب بڑھا۔ میں جیسے ہی بانیتا کور کے پاس پہنچا، اس نے پسٹل سیدھا کیا اور ڈیوڈ پر فائر کر دیا۔ میں نے دیکھا فائر اس کے چہرے پر لگا تھا۔
”باقی لوگ …؟“ میں نے آگے کی جانب بڑھتے ہوئے پوچھا تو میرا ہاتھ پکڑ کر بھاگتے ہوئے بولی۔
”وہ نکل چکے ہیں۔ان بے غیرتوں نے پولیس کو اطلاع دے دی تھی۔
یہاں پورا ایک کنٹرول روم تھا۔ نکل، میں نے بم رکھا ہے وہاں۔“
ہم سیڑھیوں ہی میں تھے کہ اوپر ایک دھماکا ہوا۔ ہم انتہائی تیزی سے نیچے پہنچے ہی تھے کہ سامنے کھڑے ایک نوجوان نے بلڈنگ کی پچھلی طرف سے نکلنے کا اشارہ کیا۔ ہم وہاں سے نکلے تو سامنے ایک چھوٹی سی دیوار تھی۔ ہم نے وہ پار کی تو دوسری جانب ایک مصروف سڑک تھی۔ ہم نے اپنے ہتھیار چھپا لیے لیکن اس طرح رکھے کہ جیسے ہی ضرورت پڑے انہیں استعمال کر لیا جائے۔
وہاں ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ ہم تینوں نے بالکل نارمل حالت میں وہاں سے چلتے ہوئے سڑک پار کی۔ وہ ڈیسائی روڈ کا آف لنک روڈ تھا۔ اس کے سامنے ایک گلی تھی۔ جانی بھائی سے ہمارا مسلسل رابطہ تھا۔اس نے ہمیں بتایا کہ اس کے چار لڑکے بری طرح زخمی ہیں، جنہیں ٹریٹمنٹ کے لیے اسپتال کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔یہ اس نے اچھا کیا تھا کہ لڑکوں کی صورت میں اپنی شناخت نہیں چھوڑی، ورنہ اس کے لیے بہت مشکل ہو جاتی۔
ہم نے محتاط انداز میں کچھ ہی فاصلہ پیدل طے کیا اورجیسے ہی اس گلی کی طرف بڑھے بائیں جانب سے ایک سیاہ فور وہیل کچھ فاصلے پر تیزی سے آ رکی۔ اس کے رکتے ہی فطری طور پر ہم تینوں کی ادھر نگاہ گئی۔ اس میں سے ایک دم دو لوگ نکلے اور گنیں سیدھی کر لیں۔ان کی گنوں کا رخ اپنی طرف دیکھ کر بلاشبہ ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ ہمارا شکار کرنے آن پہنچے تھے۔
لاشعوری طور پر ہم نے بھی ہتھیار نکال لیے۔
گلی کے پاس پرسکون ماحول میں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ یہاں اگر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا تو بہت سارے بے گناہ لوگ مارے جا سکتے تھے۔ میں نے بانیتا کور کی جانب دیکھا۔ ہمارے پاس فیصلے کے لیے لمحے سے بھی کم وقت تھا۔ اس نے وہاں سے نکل جانے کو ترجیح دی۔ہم پوری قوت سے بھاگ کر گلی میں داخل ہوگئے۔
اس کے ساتھ ہی فائرنگ سے فضا تڑتڑا اٹھی۔
ہم اس گلی سے نکل جانا چاہتے تھے۔ گلی بند بھی ہو سکتی تھی یا دوسری طرف سے دشمن کے لوگوں سے آمنا سامنا ہو سکتا تھا۔ ہمارے پیچھے مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی۔ میں نے بھاگتے ہوئے جانی بھائی کے لڑکے سے کہا کہ وہ گلی سے نکلتے ہی مخالف سمت میں نکل جائے۔ وہ سمجھ گیا۔ ہم جیسے ہی گلی سے نکلے، وہ ایک جانب مڑا اور لوگوں میں غائب ہو گیا۔
ہم نے ٹریفک کے بہاؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے روڈ پار کرنے کی کوشش کی۔
فائرنگ رُکی ہوئی تھی۔ ہم نے روڈ پار کیا اور دوسری طرف جا کر دیکھا، چند لوگ ہمارے پیچھے تھے۔میں جلد از جلد اس چوہے بلّی کے کھیل کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مجھے چند منٹ چاہئے تھے غائب ہو نے کے لیے ، وہ ہمیں نگاہوں میں رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ٹھہرنے کے باعث مزید فورسز آ کر ہمیں دبوچ سکتی تھیں۔
میں سڑک کنارے درخت کی آڑ میں ہو گیا۔ میرے سامنے چار لوگ تھے جو تیزی سے روڈ پار کرنے کی کوشش میں تھے۔ مجھے فقط چار فائر کرنے کا وقت لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔
”نکلو بانیتا!“ میں نے بے ساختہ کہا اور روڈ کی دوسری جانب ایک گلی میں گھس گیا۔ گلی کی دوسری جانب ریلوے ٹریک تھا۔ جس کے پار جھونپڑیوں کی ایک پوری بستی آ باد تھی۔
”کہاں ہو ، یہ فائر …“جانی بھائی نے پوچھا تو میں نے لوکیشن بتا دی۔
” دیکھ برج کس طرف ہے۔“ اس نے پوچھا تو میں نے برج دیکھ کر اسے بتایا تو وہ بولا۔
”چل بڑو ٹریک پار کر کے بھاگ، برج کے نیچے پہنچ۔“
ہم دونوں نے ٹریک پار کیا برج کی طرف بھاگنے لگے، جو تقریباً آدھے کلومیڑ کے فاصلے پر تھا۔ اس طرف برج کے نیچے چند لڑکے بیٹھے ہوئے تھے ، جو ایک دم سے کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ہم ان کے پاس پہنچے تو ایک نے کہا۔
”ہم جانی بھائی کا دوست ہے ، چل ہمارے ساتھ۔“
وہ ہمیں لیتا ہوا اس جھونپڑ پٹی کی جانب چل دیا۔ اس کے ساتھ دوسرے لڑکے بھی تھے۔ وہ ہمیں ٹین اور لکڑی سے بنے ایک چھوٹے سے گھر میں لے گیا۔ جہاں ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک جانب گنیش دیوتا کی مورتی کے سامنے دیّا جل رہا تھا۔ جب تک ہماری سانس بحال ہوئیں وہ پانی کی بوتلیں لے آیا۔
”ادھر کا پانی آپ لوگ ہجم نائیں کر سکت ہے ، یہ پیور واٹر پئو۔“
”کب نکلیں گے یہاں سے ؟“ بانیتا نے پوچھا تو جانی بھائی کی آواز آئی
”ابھی آپ آرام کرو،اکھّا ممبئی میں تم لوگن کی تلاش کے لیے فورسز لگ گیا ہے۔“
”وہ ہمیں اسی علاقے میں ڈھونڈیں گے جانی بھائی؟“ میں نے کہا۔
” لیکن اس طرح نکلنا بھی خطرناک ہے ،ذرا ویٹ۔
“ اس نے تیزی سے جواب دیا
”آج جس شے نے ہمیں بچایا ہے نا ،وہ ہمارے درمیان رابطہ تھا، ورنہ ہم کب کے دھر لیے گئے ہوتے۔“ بانیتا کور نے سکون سے تبصرہ کیا
”وہ سالا گرباج بچ گیا۔“ میں نے دُکھ سے کہا۔
”نہیں بڑو ، وہ سب سے پہلے مرا ہے ، وہ کاریڈور میں تھا ، جب ہم نے حملہ کیا۔“جانی بھائی نے کہا ، پھر لمحہ بعد بانیتا کہنے لگی
”اس بلڈنگ میں آٹھ اپارٹمنٹ تھے ، یہ سارے انہی لوگوں کے پاس تھے۔
ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان پر اس طرح حملہ ہو سکتا ہے، پورا کنٹرول روم تھا، تیری باتوں سے پتہ چلا… “
”اب نکلنا ہے۔“ میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”کہا نا تھوڑا ویٹ۔“جانی بھائی نے کہا اور اُس طرف سے خاموشی ہو گئی۔چند لمحے انتظار کے بعدبانیتا کور مجھے تفصیلات بتا نے لگی جبکہ میں ڈیوڈ ریبنز سے ہونے والی باتیں یاد کر رہا تھا۔
اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کی باتیں مجھے کھائے جا رہی تھیں۔
ساری رات جاگتے رہنے کے باوجود اس وقت بھی نیند میری آ نکھوں میں نہیں تھی۔ میں یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ہم جتنا وقت یہاں رہے، اتنا ہی خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ہم فورسز کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے تو شاید انہیں ہمارا سر اپتہ نہ ملتا،لیکن ہم ان کی ناک کے نیچے سے ہی نکلے تھے اور اس علاقے میں موجود تھے۔ گذرتے لمحات کے ساتھ اسی علاقے پر ان کا فوکس ہو جانا تھا اور ہمارے لیے نکلنا بہت مشکل ہو جانا تھا۔ اس وقت میرے اندر بے چینی پورے عروج پر تھی۔
ؤ…ؤ…ؤ