اس شام گھر میں میلہ لگا ہوا تھا۔کراچی سے سبھی آ گئے ہوئے تھے۔بانیتا کور ان کے درمیان بیٹھی باتیں ہی کرتی چلی جا رہی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی ٹی وی ڈرامہ کی کسی ایکٹریس سے بات کررہے تھے۔ ظاہر ہے انہوں نے اسے اسکرین ہی پر دیکھا تھا، وہ بھی مدہم مدہم۔ آج وہ ان کے درمیان تھی۔ میں نے یہی بات کہی تو سلمان نے ہنستے ہوئے کہا
” یہ تم نے ٹھیک کہا، بانیتا کو اگر چہرے سے دیکھو تو یہ انڈین اداکار تبّو لگتی ہے، اس کے بعد گردن سے نیچے آؤ تو بے واچ والی …“ اس نے کہنا چاہا تو بانیتا کور نے خوشکوار انداز میں چیختے ہوئے کہا
” خبردار۔
! آگے کچھ بولے تو۔“
اس پر سبھی ہنس دئیے تھے۔
” کاش ہمارے ساتھ آج اروند سنگھ ، رونیت کور اور گرلین کور ہوتیں،مزہ آ جاتا۔
(جاری ہے)
“ فہیم نے کہا
” وہ کینیڈا میں ہیں، آنے میں وقت لگے گا۔ اب انہی سے گذارا کرو۔“ گیت نے ہنستے ہوئے کہا۔ اسی دوران ولید کی کال آ نے لگی۔ میں نے اسے کاٹ کر سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا
” ہمارا ایک نیادوست ہے، ولید احمد۔
اس نے آپ سب کے لئے ڈنر کا اہتمام کیا ہے ، اپنے گھر میں۔ کیا سب لوگ چلنے کے لئے تیار ہو؟“
” جمال بھائی، وہ تو اس کا چھوٹا سا گھر ہے، وہاں کوئی ایسا ہے نہیں کہ اتنے لوگوں کا بندوبست کرے گا۔ کھانا باہر ہی سے آ ئے گا تو کیوں نا کسی ہوٹل ہی میں…“ مہوش نے شرارت سے کہتے ہوئے باقی بات ادھوری چھوڑ دی۔
” نہیں، ہم ماڈل ٹاؤن کے ایک گھر میں جا رہے ہیں۔
“ میں نے بتایا
” یہ مہوش اسی لئے موٹی ہے کہ اسے کھانے کا بڑا چسکا ہے، بہت کھاتی ہے۔“ زویا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا
” لیکن تم سے زیادہ فٹ ہوں چھپکلی، کبھی دوڑ لگانا میرے ساتھ۔“
” یہ بندو بست بھی میں نے کر دیا ہے۔ چلو ، وہاں تم لوگوں کے لئے سر پرائیز ہے۔“ میں نے کہا اور باہر نکل گیا۔میں نے ولید کے نمبر ملائے اور اسے کال کر دی۔
وہ آنے ہی کے بارے میں پوچھ رہاتھا۔
ایک گھنٹے بعد ہم وہاں پہنچ گئے۔ وہ چار کنال کا ایک بڑا سا بنگلہ تھا۔ پورچ کے پاس میں دروازے پر ولید کے ساتھ کرنل صاحب کھڑے تھے۔ ان سے مل کر ہم ڈرائینگ روم میں آ گئے۔
” یہاں کیا سرپرائیز ہے؟“ مہوش نے پوچھا
” بیٹا۔! یہ ہے گیت کا پروڈکشن ہاؤس۔ نیچے بیسمنٹ میں آپ بیٹھیں گے اور اپنا کام کریں گے۔
یہاں آپ کا آفس ہوگا۔ گیت اپنے سٹاف کے ساتھ لوگوں سے ملاقات کرے گی۔ اور اوپر سب کی رہائش ہوگی۔ اور یہ سیکورٹی کے حساب سے بھی محفوظ بنایا گیا ہے۔“
” اور باہر لان، جہاں میں نے زویا کے ساتھ دوڑ لگایا کرنی ہے۔“ مہوش نے کہا تو سبھی ہنس دیئے۔
”یہ بعد میں بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن آ ج بانیتا کور ہمارے ساتھ ہے ، تو اس کے اعزاز میں ایک چھوٹی سی پارٹی میری طرف سے، آؤ ۔
“ کرنل نے کہا اور چل پڑا۔ تبھی بانیتا کور نے مجھے کاندھے سے پکڑا اور پھر گلوگیر سی آواز میں متاثر کن لہجے میں بولی
” یار، تم سب کیسے ہو ، ایک پریوار کی طرح۔ کتنا پیار ہے اور کتنی محبت، دل کرتا ہے یہیں رہ جاؤں۔“
” تو رہ جاؤ، روکا کس نے ہے؟“ میں نے کہا تو ایک دم سے وہ اپنی آ ئی پر آ گئی۔اس نے آ نکھ مارتے ہوئے کہا
” تم وعدہ کرو، تو یہیں رک جاتی ہوں۔
“
” باہر ہمارا انتظار ہو رہا ہے۔“ میں کہا اور قدم بڑھا دئیے تو وہ بڑ بڑاتے ہوئے بولی
” ڈر پوک۔“
بڑے سارے لان میں یوں اہتمام تھا جیسے کسی کی تقریب ہو۔ کینڈل لائیٹ ڈنر جیسا ماحول بنایا ہوا تھا۔ ہنسی مذاق میں ڈنر کیا۔ پھر واپس ڈرائنگ روم میںآ کر بہت ساری باتیں طے ہونے لگیں۔ وہیں سے صبح انہوں نے بانیتا کو سیر کروانے نکلنا تھا۔
سو میں ان کے پاس سے نکلا اور فارم ہاؤس کی طرف چل دیا۔
رات کا دوسرا پہر ختم ہونے کا تھا ، جب میں وہاں پہنچا۔وہاں کی خادمہ نے مجھے میرے لئے مخصوص کمرے میں پہنچا دیا۔
” کچھ لیں گے آپ؟“ اس نے پوچھا
” نہیں، لیکن اماں ؟“ میں نے کہا
” وہ تو اب سو گئیں ہوں گی اور سوہنی بی بی بھی انہی کے ساتھ ہیں۔“ خادمہ نے ہولے سے کہا
” نہیں، میں ابھی نہیں سوئی۔
تم جاؤ۔“ دروازے سوہنی کھڑی تھی۔ اس نے ہلکے سبز رنگ کا شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا اور سیاہ حجاب میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ خادمہ خاموشی سے چلی گئی۔ میں یوں کھڑا ہوگیا،جیسے اس کے ٹرانس میں آگیا ہوں۔
” آؤ۔“ میں نے ہولے سے کہا
” اماں تمہارے انتظار میں جاگ رہی ہیں۔ انکے پاس چلو، میںآ تی ہوں۔“ سوہنی نے کہا تو میں باہر کی جانب چل پڑا۔
وہ مجھے کمرے کے سامنے چھوڑ کر چلی گئی۔ میں اندر داخل ہوا تو اماں بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ میں نے جاتے ہی ان کے پاؤں چومے اور پھر ان کے ساتھ یوں لپٹ گیا جیسے کوئی سہما ہوا بچہ اپنی ماں سے لپٹ جاتا ہے۔ وہ مجھے ہو لے ہولے تھپکنے لگیں۔
” اماں، تم جاگ رہی تھی۔“ میں یونہی پوچھا
” مجھے پتہ تھا کہ تم ضرور آؤ گے۔“ انہوں نے انتہائی شفقت سے کہا
” میں تو کل بھی جانانہیں…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولیں
” بیٹا۔
! تم جس راہ پر ہو، اور جس مقام پر ہو ، تمہارا کبھی کبھی مل لینا ہی بہت ہے۔“ یہ کہہ کر انہوں بات بدلتے ہوئے کہا،” ابھی تانی کا فون آیا تھا۔ وہ لوگ پہنچ چکے ہیں ، آرام کر کے مارکیٹ سے اپنے لئے شاپنگ بھی کر آ ئے ہیں۔ سارا بہت خوش تھی اور شعیب بھی اور مراد تو بہت زیادہ ہی خوش ہے اسے ماں اور باپ مل گئے ہیں۔“
اتنے میں سوہنی چائے لے کر آ گئی۔
اس نے ٹرے بیڈ پر ہی رکھا اور بیڈ پر ہی آ لتی پالتی مارتے ہوئے بولی
” لیکن، ایک بات ہے۔ تانی یہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ بہت بدل گئی تھی۔“
” کیوں کیا ہوا؟“ میں نے پوچھا
” اسے یہاں گھر اورایک خاندان مل گیاتھا۔ وہاں جا کر وہ پھر سے اکیلی ہو جائے گی۔میں جانتی ہوں کہ سیکورٹی کے علاوہ تم لوگوں نے اس سے بڑے کام لینے ہیں۔
اس لئے وہ بھی نہیں بول سکی۔“ سوہنی نے کہا
” یہ توہے،خیر اسے چھوڑو، اپنی باتیں کرو۔“ میں نے کہا ، کیونکہ اس کی باتوں کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ ہم چائے پیتے رہے اور یونہی نور نگر کی باتیں کرتے رہے ۔میں انہیں یقین دلاتا رہا کہ بہت جلد وہ واپس نور نگر چلے جائیں گے۔ چائے پی لینے کے بعد سوہنی نے کہا
” اب اماں کو سونے دو۔“ دوسرے لفظوں میں اس نے یہی کہا کہ آؤ میں نے تم سے باتیں کرنی ہیں۔
میں اٹھ کر اپنی کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
اس رات سوہنی سے بہت باتیں ہوئیں۔مجھے لگا وہ اپنی ذات کے حصارسے نکل آئی تھی۔ اس نے پوری تفصیل سے سارے حالات کے بارے میں باتیں کیں۔ نور نگر میں اس نے لوگوں کے لئے کیا کچھ کیا۔ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ اس کے خواب کیاہیں،یہ سب اس نے مجھے بتایا۔ میں سنتا رہا اور وہ کہتی رہی۔ وہ جو بات مجھے پوچھتی وہ میں اسے بتا دیتا۔
یہاں تک کہ رات کا تیسرا پہر شروع ہوا تو اُٹھ گئی۔
میں مزید دو دن تک فارم ہاؤس پر رہا۔ اس دوران باہر رابطہ رہا۔ وہ سبھی بانیتا کور کے ساتھ سیر سپاٹے کے لئے نکل گئے ہوئے تھے۔ وہ خوش تھے۔ ولید اپنے آبائی شہر چلا گیا ہوا تھا۔اس کا خیال تھا کہ وہ جو اس کے ذہن میں ہے، وہ سب کاغذ پر اُتارے گا۔ تبھی سارے اس پر بات سکیں گے۔ تیسرے دن کی شام میں سوہنی کے گھر چلا گیا۔
اس شام میں اس گھر میں تنہا تھا۔
بہت عرصے بعد مجھے تنہائی ملی تھی اور اس تنہائی میں مجھے لگا کہ یہ تنہائی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اپنے آپ سے ملنے اور اپنے بارے میں سوچنے سے کیا کچھ سامنے آ تا ہے ۔ عقل اور دل کے درمیان بیٹھ کر ان کی بحث میں کیا کچھ ہاتھ آ تا ہے۔ یہ ایک الگ دنیا ہے۔
#…#…#