Episode 27 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 27 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

”ڈن، کرنسی کیسے لوگے ،اپنے بندے بھیجو گے یا ہم ادھر ٹھہریں۔ دوسری طرف رقم کب پہنچے گی ؟“ جنید نے تیزی سے کہا۔
”رقم کہاں سے لینی ہے ؟“ 
”ہوٹل فائن سے۔ وہاں ہمارا ایک بندہ موجود ہے ،یہاں سے نزدیک ہی ہے۔“
”اوکے آپ ان کے ساتھ چلے جائیں اور رقم دے دیں۔ رقم ملتے ہی دس منٹ بعد دوسری طرف پہنچ جائے گی۔ ادھر کا پتہ کیا ہے۔
“ 
”میں بتاتی ہوں۔“ مہوش نے کہا اور تیزی سے لیپ ٹاپ ٹاپ کھول لیا۔ ذرا سی دیر بعد اس نے پوچھا،آپکا ای میل پلیز تاکہ میں ساری معلومات آپ کو دے دوں؟“رضوی نے ای میل بتا دیا۔ مہوش نے تیزی سے لیپ ٹاپ پر کام کرتی رہی۔ پھر دو منٹ بعد بولی۔
”آپ دیکھ لیں معلومات آ پ کو مل گئیں؟“
رضوی نے اپنے لیپ ٹاپ پر نگاہ دوڑائی۔

(جاری ہے)

میل دیکھی اور کنفرم کر دی۔

وہ تینوں اٹھ گئے۔
”میں ایک گھنٹے تک ہوٹل فائن میں انتظار کر وں گا۔“ جنید نے کہا اور چل دیا باقی دونوں بھی اس کے پیچھے چل دئیے۔ مہوش نے وہاں کی ساری معلومات اپنے پاس ٹرانسفر کر لی تھیں۔
 دوسری کار میں سلمان ، فہیم اور گیت تھے۔ ان کا رخ نپئیر روڈ کی طرف تھا جہاں وہ منی ایکس چینج کا مرکزی دفتر تھا۔اس کے ساتھ ملحقہ ایک دومنزلہ عمارت تھی۔
جہاں سارا کالا دھن لیا اور دیا جاتا تھا۔وہ عمارت پوری طرح روشن تھی۔اگر گیت نے اس عمارت کی جزئیات نہ بتائی ہوتیں تو پہلی نگاہ میں یہی لگتا تھا کہ اجازت کے بغیر اس عمارت میں گھسنا ،نا ممکن تھا۔ فہیم گاڑی میں بیٹھا رہا۔ سلمان بڑے اعتماد سے نیچے اُترا اور اس نے وہ فرضی نام بتایا جو وہ کمپیوٹر سے دیکھ چکے تھے۔ضروری کارروائی اور تلاشی کے بعد انہیں اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
ان کی کار وہیں روک لی گئی تھی اس لیے وہ تینوں پیدل چلتے ہوئے اس دفتر تک جا پہنچے۔ انہیں معلوم تھا کہ اعجاز صدیقی اپنے دفتر میں ہے ، جو ساری رقم کا حساب کتاب رکھتا ہے۔ فہیم اس کا سب کچھ ہیک کر چکا تھا۔عملے کے باقی لوگ اس کے دفتر سے ملحقہ ایک ہال میں تھے۔ اس وقت وہاں صرف چار لوگ موجود تھے۔
” جی، بولیں، آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“ صدیقی نے تیزی سے اکتائے ہوئے لہجے میں یوں کہا جیسے اس کے پاس وقت نہ ہو 
”ہم یہاں سے رقم لو ٹنے آ ئے ہیں۔
رو ک سکتے ہو تو روک لو۔“ گیت نے دھیمے مگر سرد لہجے میں کہا تو صدیقی ان کی طرف یوں دیکھنے لگا کہ جیسے وہ دونوں کسی دوسرے جہان کی مخلوق ہوں۔ پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
” پاگل ہو یا کسی دوسرے جہان کی مخلوق۔ ایک منٹ سے پہلے تم پکڑے جاؤ گے۔ “ یہ کہتے ہوئے اس نے پاؤں کے نیچے لگا الارم کا بٹن دبا دیا۔ کہیں بھی کچھ نہیں ہوا تووہ ایک دم سے پریشان ہو گیا۔
”تمہارا یہاں کا سارا نظام ہم جام کر چکے ہیں۔ تم کچھ بھی کر لو، کچھ نہیں ہوگا۔ سامنے دیکھو، باہر لگے کیمرے اور تمہاری یہ اسکرین تاریک ہے، کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے ، باہر والوں کے لیے اندر سب سکون ہے۔ یہ کہتے ہوئے سلمان نے اس کی دراز میں پڑا پسٹل نکالا، اس کا میگزین دیکھا، پھر صدیقی پر فائر کرنے کے لیے سیدھا کہا۔
”تمہارا پسٹل اور اب تم ، کہو کیا کہتے ہو ؟“
”مجھے مت مارو، تم جو چاہے یہاں سے لے جا سکتے ہو، میں کوئی مزاحمت نہیں کرتا۔
“ صدیقی نے دہشت زدہ لہجے میں کہا۔
”اس دیوار گیر الماری کا نمبر بھی نہیں دو گے، جس میں کرنسی موجود ہے؟“ سلمان نے کہا۔
”یہ …یہ … لو۔“ اس نے سامنے رکھے کاغذ پر نمبر لکھ دیا۔تب سلمان نے اسے گولی مارنے کی بجائے پسٹل کا دستہ زور سے اس کے سر پر مار دیا۔ وہ پہلے ہی دہشت زدہ تھا اگلے ہی لمحے وہ ڈھیر ہو گیا۔
 گیت اور سلمان دونوں محتاط انداز میں باہر کی جانب لپکے۔
سامنے دو گارڈ پہرہ دے رہے تھے۔ دونوں کو گیت نے نشانے پر لیا تو سلمان نے پلٹ گیا۔ اس نے دیوار گیر الماری کو کھولا تو اندر سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔ اس نے پہلے میز سے اٹھائیں ہوئی کچھ چیزیں اندر پھینکیں۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ لیزر شعاعیں ختم ہوگئی ہیں یا نہیں۔ لیزر شعاعیں ختم ہو چکی تھیں۔ وہ تیزی سے نیچے پہنچا۔ ہر طرف کرنسی نوٹ کی گڈیاں اوپر سے نیچے تک لگی ہوئی تھیں۔
سلمان تیزی سے کرنسی نوٹوں کو بیگوں میں بھرنے لگا۔
اس دوران جنید ، اکبر اور مہوش وہاں پہنچ چکے تھے۔ جیسے ہی اندر سے انہیں کہا گیا کہ رقم کے تھیلے تیار ہیں۔ اسی وقت انہوں نے اپنے ہتھیار سنبھالے اور گیٹ پر جاپہنچے۔ انہیں دیکھتے ہی سیکورٹی گارڈ الرٹ ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ وہاں جا کر بات کرتے ،انہوں نے سائیلنسر لگے پسٹل سے فائر کر دئیے۔
ٹھک ٹھک کی آواز آئی اور وہاں موجود بندے زمین پر آ رہے۔ وہ تیزی سے اندر چلے گئے۔ ان کی راہ میں جو بھی آ یا، وہ انہیں ڈھیر کرتے گئے۔ یہاں تک کہ وہ صدیقی کے کمرے تک جا پہنچے۔ ہال میں موجود لوگ باہر کی صورت حال سے بالکل بے خبر تھے۔ وہ جیسے ہی ہال میں گئے تب انہیں پتہ چلا کہ باہر تو صورت حال ہی بدل چکی ہے۔ ایک بوڑھے آدمی نے فوراً اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیے ، باقیوں نے بھی اس کی تقلید کی۔
مہوش نے انہیں ایک جگہ اکٹھے ہوجانے کو کہا۔ وہ کونے میں لگ گئے۔ اس دوران وہ اپنے بیگ سے اسپرے کی بوتل نکال چکی تھی۔وہ اس نے وقفے وقفے سے دو تین بار ان پر چھڑکا تو وہ بے ہوش ہوتے چلتے گئے۔ ان کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد وہ صدیقی کے کمرے میںآ ئے۔ وہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ مہوش نے اس کے منہ پر چھڑکاؤ کر دیا۔ جنیداکبرنیچے جا چکے تھے ، جبکہ گیت اور مہوش باہر نگاہ رکھے ہوئے تھیں۔
جیسے ہی نکلنے کا راستہ صاف ہو چکا ، فہیم اپنی فور وہیل اندر لے گیا۔ ذرا سی دیر میں وہ سولہ تھیلے انہوں نے فوروہیل میں رکھے اور باہر آگئے۔ جنید اورمہوش دوسری کار میں بیٹھے اور وہ سب وہاں سے نکل پڑے۔
نپئیر روڈ سے کلفٹن تک کا راستہ زیادہ سے زیادہ آدھے یا پون گھنٹے کا تھا۔ اگر اس میں ٹریفک نہ ہو تو وہ باآسانی اتنے وقت میں پہنچ سکتے تھے۔
 
میں دیکھ رہا تھا کہ وہ وہاں سے نکلے اور چل پڑے تھے۔ دونوں گاڑیاں دو نقطوں کی صورت میں حرکت کر رہی تھیں۔ میرے بدن میں سنسنی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ یہی راستہ ان کے لیے خطرناک تھا۔ جبکہ وہ آگے پیچھے گاڑیاں دوڑاتے ہوئے آرہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ٹریفک اشارے پر رک بھی جاتے تھے۔زویا نے شاید میری توجہ بٹانے کے لیے بتایا
” ان دونوں عمارتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
سیکورٹی کے لحاظ سے۔ اگر ایک میں کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو دوسری میں فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ اسی لیے انہیں دونوں طرف جانا پڑا۔ اس وقت وہ دونوں عمارتیں فہیم کی مرضی پر ہیں۔ وہ جیسے ہی ادھریہاں پہنچیں گے۔ تب انہیںآ زاد کر دیا جائے گا،،مطلب ان کا سارا نظام معمول کے مطابق کام کرے گا ، تب انہیں پتہ چلے گا کہ کیا ہو گیا ہے۔“
اس کے بتانے پر میں نے ایک طویل سانس لی۔
سامنے اسکرین سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اب تیزی سے قریب پہنچ رہے ہیں۔تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ سب اسی کمرے میں تھے اور ساری بات بتا چکے تھے۔ 
”تو یہ مشن چند گھنٹوں میں ختم ہو گیا۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو اکبرنے تیزی سے کہا۔
”نہیں، یہ مشن اب شروع ہوا ہے۔ ایک گھنٹے بعد جب اس سے جڑے سارے لوگوں کو پتہ چلے گا، ایک ایک کرکے وہ سب ہمارے جا ل میںآ تے چلے جائیں گے۔ پھر یہاں بیٹھ کر ہم ان سے کھیلیں گے۔“
”میں رقم تہہ خانے میں پھینک آؤں، آؤ سب میری ہیلپ کرو۔“ سلمان نے کہا تو وہ سب باہر چلے گئے۔ میں زیر لب مسکرا دیا۔ ان کی سوچ وہی تھی ،جو میری تھی۔ رو ہی نے انہیں ہیرا بنا دیا تھا۔
                                              ؤ…ؤ…ؤ

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط