میں نے بانیتا کور کے ساتھ بڑے سکون سے ناشتہ کر کے فہیم کو فون کیا۔ میں نے یہاں آتے ہی اس اجنبی”باس“ کا نمبر اُسے دے دیا تھا کہ جس نے مجھے دھمکی لگائی تھی۔ یہ سب اسی کے لوگ تھے۔ وہ چاروں تو مر گئے۔ پولیس انہیں اٹھا کر لے گئی تھی ۔ باقی دو ادھر پڑے ہوئے تھے ۔ میڈیا پر بہت کچھ ہوتا رہا تھا۔ جسے میں نے تھوڑا بہت سنا، پھر دھیان ہی نہیں دیا۔
فہیم سے کہا تھا کہ وہ پتہ کرے یہ کس کا نمبر ہے ؟ لیکن باوجود رات گذر جانے کے وہ ابھی تک بتا نہیں پایا تھا۔ دوسری بیل پر اس نے کال رسیو کر تے ہوئے اس نے مایوسی سے کہا
” ابھی تک اس کے بارے میں پتہ نہیں چلا، میں نے اروند اور رونیت سے بھی مدد لی ، مگر پتہ نہیں چلا۔ “
” کہیں ان کے پاس تو وہی کچھ نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے؟“ میں نے پوچھا
” دنیا بہت آ گے چلی گئی ہوئی ہے ۔
(جاری ہے)
اگر یہ ٹیکنا لوجی ہمارے پاس ہے تو کسی دوسرے کے پاس بھی ہو سکتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تو ہے اس کا توڑ بھی مل سکتا ہے، میں نے سلمان سے بات کی ہے ، وہ بھی مصروف ہے، اس نے رابطہ نہیں کیا۔ اروند بھی اسی تلاش میں ہے۔“ اس نے مجھے پوری تفصیل بتا دی۔
” اب اسے تلاش تو کرنا ہے ، کیسے ہوگا، یہ تو وہی جانتے ہیں نا جو اس کے ماہر ہیں۔“ میں نے کہا
” مجھے امید ہے ، ہم کچھ نہ کچھ کر لیں گے ۔
“ وہ اعتماد سے بولا تو میں نے اس سے کہا
” اوکے ، میں انتظار کر رہاہوں۔“
میں نے سیل فون بند کرکے جیب میں رکھا اور اٹھ گیا۔ پھر مختصر انداز میں بانیتا کور کو بتایا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی ۔ پھر اس کمرے کی طرف چل پڑے جہاں ان دونوں کا رکھا ہوا تھا۔اس وقت مینیجر سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں اُسے بعد میں بھی دیکھ سکتا تھا۔ مجھے ان دو بندوں سے دلچسپی تھی۔
وہ دونوں فرش پر بندھے ہوئے چت پڑے تھے۔ میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ ان کی آ نکھوں میں ویسی ہی نفرت تھی جو میں نے رات کے وقت دیکھی تھی۔ جس نے بانیتا کور سے مار کھائی تھی، وہ ذرا بھی نادم نہیں تھا۔ جبکہ دوسرا میری جانب یوں دیکھ رہا تھا کہ جیسے میں اسی سے بات کروں گا۔ میں نے باری باری دونوں کو دیکھا اور کہا
” دیکھو بھئی، تمہار ے باس نے مجھ سے تو رابطہ نہیں کیا اب تک، اگر تم لوگوں کو کوئی طریقہ آتا ہو تو بتاؤ؟“میرے اس سوال پر ان میں سے کوئی بھی نہیں بولا تو میں نے پھر سے اپنا سوال دہرا دیا۔
” اوئے بولو۔“ بانیتا کورنے ان کے پاس آ کر پوچھا
” چلو یہ بتا دو، کہ وہ کون ہے کہاں ہے ، میں خود مل لیتا ہوں جا کر؟“ میں نے پوچھا
” ہمیں اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ وہ یہاں اس ملک میں ہے یا کہیں دسرے ملک میں موجود ہے۔ ہمیں تو حکم ملتا ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہیں۔“ دوسرے نے دھیمے لہجے میں جواب دیا
” کیسے ملتا ہے حکم؟“ میں نے پوچھا
” فون پر ، وہ بھی ہمارے لیڈر کو ملتا تھا، وہ ہمیں ساری تفصیل بتاتا تھا۔
“ اس نے اسی لہجے میں جواب دیا
” کون تھا لیڈر؟“ میں نے سوال کیا
” وہ شاید مر گیا ہے ۔ وہ ان چاروں میں سے ایک تھا جو اوپر تم دونوں کے پاس گئے تھے۔“دوسرے نے کہا ہی تھا اور میں مزید کہنے لگا تھا کہ میرا سیل فون بج گیا۔ میں اسکرین پر دیکھا تو ایک دم سے مسکرا دیا، پھر کال رسیو کرتے ہوئے اسپیکر آن کر دیا، اس کی ہیلو کمرے میں گونج گئی تو میں نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا
”بھئی واہ، ابھی تمہارے بندوں کے ساتھ ، تمہارا ہی ذکر کر رہا تھا۔
میں ان سے پوچھ رہا تھا کہاں گیا وہ چوہا، کس بل میں ہے، دھمکی دے کر غائب ہو گیا ہے۔“
میرے کہنے پر وہ مجھ سے بھی اونچا قہقہ لگا تے ہوئے بولا
”میں کہیں بھی نہیں ہوں اور تمہارے بالکل قریب ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی تمہیں ابھی کچھ نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ بہت لمبا کھیل کھیلنا چاہتا ہوں جمال، تو ابھی سے مجھے تلاش کرنے لگ گئے ہو۔
ابھی تو میں نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا۔“
” جھوٹ بولتے ہو تم،اگر تم اتنے ہی طاقتور ہو تو میرے سامنے آؤ، پھر چاہئے جتنی مرضی لمبی اننگز چلے،میں کھیلوں گا۔ ورنہ میں نے تمہیں تلاش کر لیا تو تمہارا کھیل ختم کر دوں گا۔“ میں نے بڑے تحمل سے کہا
” نہیں ایسے نہیں جمال… جب میں کھیلنے کا کہہ رہا ہو ں تو آؤ… کھیلو۔ جیت ہار کے بغیر کھیل کیسے ختم ہو سکتا ہے ۔
اورہاں … اگر میں ہار گیا تو خود اپنا آپ تیرے حوالے کر دوں گا،اور… اگر جیت گیا تو تجھے مرنا ہوگا۔“ اس نے طنزیہ انداز میں کہا
” تم کھیلنا چاہتے ہو تو کھیلو، میں تجھ تک پہنچ جاؤں گا ، پھر فیصلہ میں کروں گا۔اور ہاں دھوکے سے اور چھپ کر وار مرد نہیں کرتا۔“ میں نے اس سے تضحیک آ میز لہجے میں کہا تو وہ قہقہ لگا تے ہوئے بولا
”یہ فلسفے چھوڑو اور آج کی حقیقت والی بات کرو۔
“
” اب ملے ہیں تو باتیں ہوتی رہیں گیں۔خیر ہمت ہے تو اپنے دو بندے لے جاؤ، میرے پاس بندھے ہوئے پڑ ے ہیں۔بے چاروں نے بہت مار کھائی ہے ۔ وہی بندے جنہیں تو نے میرے لئے بھیجا تھا ۔تاکہ وہ مجھے پکڑ کر تیرے پاس لے آ ئیں ،بے چارے۔“ میں نے افسوس ناک انداز میں کہا
” او چھوڑو جمال، ایسے کیڑے مکوڑے پتہ نہیں کتنے روزانہ کاکروچ کی طرح مرتے ہیں، دو بلٹ ان کے دماغ میں اُتارو،وہ بھی میری طرف سے، کیونکہ ایسے لوگوں کی مجھے کوئی ضرورت نہیں، وعدہ رہا کہ ان کے مرنے کے عوض میں تمہارے چار بندوں کی جان بخش دوں گا۔
“ یہ کہہ کر اس نے قہقہ لگا دیا۔
” چلو انتظار کرو میرا۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔میں نے فون واپس جیب میں رکھتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ فطری طور پر ان کے چہرے مایوسانہ حد تک مسخ ہو گئے تھے۔
” تمہارا باس بہت چا لاک ہے، کہہ رہا تھا کہ تم لوگوں کو مار دوں۔ اس کی بات مانوں گا تو بھی اسی کا فائدہ اور زندہ چھوڑوں گا تو بھی وہی فائدے میں رہے گا، کیسا؟“ میں نے ہنستے ہوئے کہا
” جو تمہارا دل چاہئے۔
“ دوسرا مردہ لہجے میں بولا اور اس نے اپنا سر زمین سے لگا دیا ۔ وہ مایوس ہو چکا تھا۔ میں اٹھا اور بانیتا کو باہر جانے کا اشارہ کر کے چل دیا۔ سامنے ہی طارق نذیر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اُسے کچھ چھپاتے اور تھوڑا بتاتے ہوئے کہا
”میرا خیال ہے انہیں کسی جیل میں رکھوا دیا جائے۔ بعد میں دیکھیں گے۔“
” اور وہ منیجر، اس کا کیا کرنا ہے؟“ اس نے پوچھا
” وہ اگر آ ج کوئی بات بتاتا ہے تو ٹھیک، ورنہ اسے بھی ان کی طرح جیل میں رکھوا دو۔
اور یہ پتہ کرو کہ اس کا بیٹا واقعی ہی اغوا ہو اتھا یا یہ جھوٹ بول رہا ہے۔“ میں نے کہا تو وہ تیزی سے بولا
” میں نے پتہ کیا تھا۔ وہ اغوا تو ہوا تھا، او ر اب بھی …“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے رُکا، پھر بولا،” نہیں، میں پھر سے دیکھتا ہوں ۔ “
” گڈ بوائے، اچھی طرح دیکھنا، مجھے کچھ اور ہی دکھائی دے رہا ہے فی الحال۔“ میں نے کہا اور بانیتا کور کے ساتھ باہر کی جانب چل پڑا۔
میں ٹاؤن والے نئے گھر میں جب پہنچا تو وہاں سکوت تھا۔ وہ باس میرے ذہن پر سوار ہو گیاتھا۔ وہ مجھے جانتا بھی تھا، میرے قریب بھی تھا، میری انتہائی احتیاط کے باوجود مجھ تک پہنچ گیا تھا۔ یہ تجسس ہی بہت زیادہ تھا کہ وہ کون تھا؟ اس پر وہ میرے اتنے قریب تھا کہ میرے بارے میں جان لیتا تھا۔ یہ کیسے؟
اس وقت بانیتا کورنیچے فہیم اور مہوش کے پاس چلی گئی تھی۔
باقی سب بھی ہیں موجود تھے۔ میں کمرے میں تنہا تھا۔میں اس باس کے بارے جتنا بھی سوچتا، میرا ذہن اسی قدر بکھرجاتا۔ میں اس بارے میں سب سے بات کرنا چاہتا تھا، مگر اس وقت وہ سارے ہی باس کا نمبر اور اس کی لوکیشن تلاش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔پھر اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ جس طرح مجھے کارخانے کے مالک زوہیب کے بارے میں پتہ چلا تھا، ویسی ہی توجہ لگا کر دیکھوں ۔
میں نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور بیڈ سے نیچے قالین پر آ بیٹھا۔ میں نے پوری توجہ یہ سوچنے پر لگا دی کہ وہ کون ہے اور میرے بارے میں کیسے جان لیتا ہے۔ چند لمحوں ہی میں میرے دماغ سے ساری سوچیں ہٹ گئیں ۔ میں نے خود کو خلا میں محسوس کیا۔ میری بند آ نکھوں کے سامنے بننے والے دائرے ختم ہو گئی اور وہاں پر اس طرح رنگ پھیلنے لگے، جیسے کئی لوگ ان رنگوں کو اُڑا رہے ہوں۔
وہ لوگ تو دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن مختلف رنگ اُڑتے اور فضا میں جا کر ایک دوسے میں گڈ مڈ ہو جاتے۔وہ رنگ مختلف بادلوں کی صورت اختیار کر جاتے۔جب کبھی وہ بادل ہٹتے تو ان میں سے مجھے ایک شہر کا منظر نظر آتا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں فضا میں ہوں یا ہوائی جہاز میں بیٹھا نیچے کسی شہر کا منظر دیکھ رہاہوں۔ پھر میں فضا میں قلا بازیاں کھاتا ہوا نیچے آ نے لگا۔
یہاں تک کہ میں ایک سڑک پر جا گرا۔ میرے ارد گرد بہت سارے لوگ آ جا رہے تھے۔ ہر بندے کا اپنا رنگ تھا۔ میں نے اپنے رنگ پر غور کیا تو میرا رنگ بھی مختلف تھا۔ مجھے وہ نیلا اور ارغوانی کا ملا جلا لگا۔ وہ مجھے دھواں کی صورت دکھائی دے رہا تھا۔ جو اوپر کی جانب اٹھ جاتا تھا۔ میں جس بندے کو بھی دیکھتا، وہ بھی دھویں کی مانند تھا۔ وہ دھواں بھی اوپر کی جانب اٹھ رہا تھا۔
اچانک وہ منظر ہٹ گیا۔ ایک معمول کی زندگی میرے سامنے تھی۔ اور پھر وہ منظر بھی ہٹ گیا۔ میں اپنے آ پ میں آ گیا۔ دروازے میں گیت کھڑی حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو وہ بولی
” یہ کیا ہو رہاہے ،تم ایسے قالین پر کیاکر رہے ہو؟“
” میں بہت تھک گیا تھا، یہ جسم کو سکون دینے کی ایک مشق ہے، و ہ کررہا تھا۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر سکون سے کہا توکچھ نہ سمجھتے ہوئے اندر آ گئی۔
میں اُٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔وہ مجھے ان سب کی کوششوں کے بارے میں بتاتی رہی اور میرا ذہن ان مناظر کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا، جو میں کچھ لمحے پہلے دیکھ چکا تھا۔ وہ سب کیا تھا، مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔میں نے ان مناظر کو سمجھنا کچھ دیر کے لئے موقوف کیا اور گیت کی بات سمجھنے لگا
” میں نہیں سمجھتی کہ اب میں اس جگہ پر اپنا پروڈکیشن ہاؤس چلا پاؤں گی۔
وہ جگہ اب غیر محفوظ ہو گئی ہے۔“ اس نے کہا
” تو کیا خیال ہے تمہارا؟“ میں نے پوچھا
” میں واپس کراچی چلی جاتی ہوں۔ وہیں پر کام کر تی ہوں۔“ ا س نے اپنا خیال بتایا
” تو اس کا مطلب ہے ، باقی کچھ لوگ بھی تمہارے ساتھ جائیں گے۔“ میں نے پوچھا
” ظاہر ہے، مجھے ان کو اپنے ساتھ لے کر جانا ہے۔ ان کے بغیر تو کام نہیں چلے گا ، لیکن سارے تو نہیں جائیں گے ۔ہاں جنید اور علی نوازکو تم اپنے پاس رکھ لو ۔“اس نے مشورہ دیا
” نہیں، تم انہیں بھی لے جاؤ۔اپنا سیٹ اپ بنا لو ۔ پھر اس کے بعد دیکھیں گے کیا ہوتا ہے ، اس وقت پتہ نہیں کیا صورت حال ہوگی۔“ میں نے کہا