جسپال کے ساتھ سارے لوگ سہ پہر کے قریب گوا پہنچ گئے۔سندو نے وہاں اپنی طرز کے بندے تلا ش کر لیے تھے۔ اس نے روڈ کے ذریعے جانے کو اسی لیے ترجیح دی تھی کہ اس دوران وہ گوا میں مدد کے لیے لوگ تلاش کر سکے۔فرنینڈس ایک چھوٹا گینگ چلاتا تھا۔ اس کا زیادہ کام منشیات کی فروخت تھا، اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر ملکی لوگوں کو لوٹ بھی لیا کرتا تھا۔ سمندر کے ذریعے اسلحہ لانے لے جانے کا ماہر تھا۔
سندو کو کام کا آدمی مل گیا تھا۔جس وقت وہ گوا پہنچے انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ رامیش پانڈے کس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔عالمی چِین والا وہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ انہوں نے وہیں کمرے لیے اور رامیش پانڈے کے بارے اپنے کام کی ابتدا کر دی۔ رات گئے تک وہ پوری طرح تیار ہو کر پلان بنا چکے تھے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور رامیش پانڈے سے نپٹنے کے بعد وہاں سے نکلنا کیسے ہے ۔
(جاری ہے)
سورج نکل آیا تھا۔ہوٹل کی کھڑکی سے ساحل سمندر کا منظر بہت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔بہت سارے لوگ اس وقت ساحل پر تھے ۔جسپال نے رامیش پانڈے کو پہلی بار اسی صبح ساحل سمندر پر دیکھا ۔ وہ ادھیڑ عمر ،فربہ مائل اور ناٹے قد کا تھا۔ اگرچہ اس نے اسے تصویروں میں دیکھ لیا تھا لیکن اس وقت ذرا مختلف لگا۔ اس کے ساتھ اس کی موٹی اور گورے رنگ کی بیوی ، دو لڑکپن عمر کی بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا تھا۔
ان سے ذرا فاصلے پر چند سیکورٹی گارڈ ٹہل رہے تھے۔ ان کا انداز واک کرنے والا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ سیکورٹی کا کوئی اور دائرہ بھی ہو ،لیکن فی الحال سامنے پانچ چھ بندے ہی دکھائی دے رہے تھے۔
اس وقت جسپال ہوٹل کے ایک ایسے کمرے میں تھا جہاں سے ساحل سمندر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کسی اور جوڑے کا کمرہ تھا جو اس وقت بے ہوشی کی حالت میں بیڈکے نیچے پڑے ہوئے تھے۔
وہ اس کمر ے کی کھڑکی میں کھڑا دور بین سے رامیش پانڈے اور اس کی فیملی کو دیکھ رہا تھا۔ رونیت کور اس کے پاس کھڑی تھی۔سندو، ابھیت اور فرنینڈس کے لوگ ساحل سمندر پر اسی کے قریب ہی تھے۔ تبھی جسپال نے رامیش پانڈے کو روہی کی مدد سے فون کال ملائی۔ جس کا ریکارڈ کہیں نہیں ہوتا تھا۔ رامیش نے حیرت سے بجتے ہوئے فون کی اسکرین کو دیکھا، پھر کان سے لگا کر ہیلو کہا۔
اسپیکرآن تھا ۔ جسپال نے فون رونیت کور کو تھماتے ہوئے کہا۔
”رامیش پانڈے، میں جانتا ہوں کہ تم کون ہو اور میں تجھے مارنا بھی نہیں چاہتا، صرف چند سوال کا جواب نہیں، تصدیق چاہتا ہوں۔“
رامیش سمجھ دار بندہ تھا۔ اس نے فوری ری ایکٹ نہیں کیا ، بلکہ بڑے تحمل سے بولا۔
”تم کون ہو ، کیا یہ نہیں جانتے کہ مجھے دھمکی دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے ۔
“
اس پر جسپال نے اُسے جواب نہیں دیا بلکہ سائلینسر لگی گن کو سیدھا کیا ، ٹیلی اسکوپ سے اس کے بیٹے کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بڑے سے رنگین بال کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ کمرے میں ہلکی سی آواز گونجی لیکن وہاں ساحل پر ایک دم سے اُن کے درمیان خوف پھیل گیا۔ اس کے گارڈ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ایک دم سے الرٹ ہو گئے۔ تب جسپال نے سرد لہجے میں کہا۔
”میری بات کا جواب نہ دینے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سب کو یہیں مار سکتا ہوں۔ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا تو بتاؤ ، کس کا نشانہ لوں۔“
”اس کی کیا گارنٹی ہے کہ تو جواب لینے کے بعد ہمیں کچھ کہے گا نہیں ؟“ اس نے بڑے تحمل سے کہا۔
”تم گارنٹی مانگنے کی پوزیشن میں نہیں ہو۔ تماشا بننا چاہتے ہو تو بولو، تیرے گارڈ بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔
میرے پاس تم لوگوں سے زیادہ گولیاں ہیں۔ بولو کیا کہتے ہو ۔“ جسپال نے بے پروا لہجے میں کہا۔
”پوچھو۔ کیا پوچھتے ہو؟“ ا س نے سیکورٹی والوں کو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا۔
”پریم ناتھ تمہارا گینگ چلا رہا ہے یا کسی دوسرے کا؟“ جسپال نے پوچھا۔
”اوہ تو یہ تم ہو ۔“ اس نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔ پھر بولا،”وہ کسی دوسرے کا گینگ چلا رہاہے۔
“
”تمہارا اس میں کیا کردار ہے؟“ جسپال نے پوچھا۔
”اپنا مفاد لے کر انہیں کھیلنے کا موقع دے رہاہوں۔ وہ جو کھیل کھیل رہی ہیں ، اسے دیکھ رہا ہوں۔“ اس نے سکون سے گول مول جوب دیا
”اس دوسرے بندے کے بارے میں بتاؤ، کون ہے وہ ؟“ جسپال نے پوچھا۔
”میری اس سے صرف دو بار ملاقات ہوئی ہے ۔ میں نہیں جانتا وہ کون ہے ، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ وہ کسی عالمی گینگ کا ایک حصہ ہے ۔
“ رامیش بولا ۔ اس دوران ایک سیکورٹی والا وہاں سے ہٹنے کی کوشش میں پیچھے ہٹا اور ان سے الگ ہو کر جیب سے فون نکالا ہی تھا کہ جسپال نے اس پر فائر کر دیا۔ وہ گھوم کر ساحل پر جا پڑا۔
”یہ باقی لوگوں کے لیے کافی ہے نا۔ “ جسپال نے کہا اس وقت رامیش پانڈے کے چہرے پر تشویش لہرائی ۔ اس نے اپنے لوگوں کو مارواڑی زبان میں کچھ کہا تو جسپال بولا،”وقت کم ہے رامیش ، اس کا رابطہ نمبر دو۔
“
”ابھی دیتا ہوں۔“ اس نے کہا اور فون سے نمبر دیکھا، اور پھر بتا دیا۔ جسپال کو معلوم تھا کہ یہ نمبر نوٹ ہو گیا ہوگا۔ تبھی اس نے کہا۔
”ایک منٹ یہیں رکو، میں نمبر کی تصدیق کر لوں ، اگر غلط ہوا تو …“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ جسپال نے دیکھا کہ وہ وہیں کھڑا تھا اس کے چہرے پر تشویش تھی ۔ اسی لمحے روہی سے تصدیق ہو گئی کہ نمبر چل رہا ہے اور وہ ممبئی کا ہے ۔
جسپال نے گن وہیں رکھی۔ فون سے رامیش کا نمبر ڈیلیٹ کیا۔ دونوں سکون سے باہر نکل گئے۔
جس وقت وہ اپنے کمرے میں پہنچے۔ اس وقت تک ہوٹل میں بھگدڑ نہیں مچی تھی ۔ کسی نے ان پر شک نہیں کیا۔ ان کے پاس کمرے میں رکھنے کو کچھ نہیں تھا۔ ان کا سامان دو گھنٹے پہلے جا چکا تھا۔ کمرے سے انہوں نے وہ سامان لیا جس سے یہ ظاہر ہوکہ وہ ساحل پر سن باتھ لینے جا رہے ہیں۔
ان کی گاڑیاں فرنینڈس کے ایک گیراج میں تھیں۔ جو شہر سے باہر جانے والے راستے پر تھا۔ جسپال اور رونیت ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے یوں لابی میں آئے جیسے وہ ایک دوسرے میں گم ہوں اور ابھی ساحل پر جا کر ایک دوسرے میں مزید گم ہو جائیں گے ۔ یہ تو سچ تھا کہ وہ ہوٹل سے گم ہونے کے لیے ہی وہاں سے نکلے تھے۔ وہ ساحل کے ایک خاص مقام پر آ گئے۔
تبھی انہیں اطلاع ملی کہ رامیش ، اس کی فیملی گارڈز سمیت ابھی تک ویسے ہی کھڑے ہیں لیکن خفیہ ایجنسیاں حرکت میں آ گئی ہیں۔
یہی چند منٹ ان کے لیے بہت اہم تھے۔ اگر وہ نمبر غلط ہوتا تو وہیں رامیش کو گولی مار دی جاتی۔ اس کے لیے سندو تیار بیٹھا تھا۔ پھر انہوں نے فرار ہو کر اکیلے اکیلے مختلف جگہوں پر پہنچنا تھا لیکن اسی وقت روہی سے کال آگئی ۔
وہ نمبر درست تھا اور اس شخص کے بارے میں پتہ چل گیا تھا۔ وہ لوگ فوراً واپس ممبئی پہنچ جائیں۔
گوا سے نکلنے کے لیے ان کے پاس وقت انتہائی کم تھا۔اگر وہ زیادہ دیر کرتے تو وہ یہاں پھنس بھی سکتے تھے۔ ہر طرف ناکہ بندی کی اطلاعات آ رہی تھیں۔ انہیں لگا جیسے انہوں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیاہو ۔
ء…ء…ء