Episode 119 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 119 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

دو گھنٹے سے زیادہ وقت گذر گیا تھا۔ جسپال اپنے کمرے میں بیڈ پر پڑا، یہی سوچے چلا جا رہا تھا کہ اب تک بلدیو سنگھ کا فون نہیںآ یا اور نہ ہی نوتن کور نے اطلاع دی ۔ وہ یہی سوچے چلا جا رہا تھا کہ انہوں نے مجھے باندھ کر رکھ دیا ہے۔ اگر میں وہاں ہوتا تو اب تک بہت کچھ کر چکا ہوتا۔ اُسے خود پر قابو پانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ تبھی اس نے نوتن کور کو کال کر دی۔
اس کی آواز سنتے ہی بولا
” اب تک کیا…؟“
” گجندر سنگھ سے بات چل رہی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی دے دی جائے اور وہ لڑکی لے لی جائے۔“
” اور جو ا س کا بھائی قتل ہو گیا، وہ کس کھاتے میں جائے گا ،ان کی جو گاؤں میں بے عزتی ہوئی، وہ کدھر جائے گی۔ نہیں کوئی ایسا …“ جسپال نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا توتوتن نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” تم سنو گے۔

(جاری ہے)

“ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کو رکی اور پھر کہتی چلی گئی ۔” بلدیو سنگھ بالکل نہیں مان رہا ہے ۔ وہ اسی بات پڑ اَڑا ہوا ہے کہ لڑکی کو لو اور سیدھے تھانے چلے جاؤ، وہاں جا کر اپنے جرائم کا اعتراف کرو، جیسے ہی تم یہ کرو گے ، لڑکی گھر بھیج دی جائے گی ۔ اگر پھر بھی نہیں مانے تو وہ لڑکی لینے خود اس کے ہاں آ رہے ہیں۔ جتنی سیکورٹی لگانی ہے لگا لے۔“
” تو پھر میری ضرورت ہو گی ، میں آ رہا ہوں۔
“ جسپال نے تیزی سے کہا
” لڑکی ، ہم نے بازیاب کر لی ہے۔ وہ بھی ہمارے پاس ہے۔“ اس نے بتایاتو جسپال بولا
” پھر وہ لڑکی کیسے لائے گا۔ یہ عجیب بات کی؟“ 
”دراصل اس نے لڑکی جہاں رکھی ہوئی تھی، وہیں پر ان کے بندے قابو کئے ہوئے ہیں۔ اُسے یہی پتہ ہے کہ لڑکی اس کے قبضے میں ہے۔ گجندر اب تک اپنے گھر سے نہیں نکلا۔معاملہ کچھ دوسرا ہے، وہ میں صبح آ کر بتاتی ہوں۔
وہ لڑکی نہ لائے تو اچھا ہے ، اس کی بیٹی بھی تو ہمارے پاس ہے۔ بلدیو سنگھ صرف اس سے قتل کا اعتراف کرانا چاہتا ہے۔ “ نوتن کور نے کہا
” اوکے ،لڑکی مل گئی۔یہی بڑی بات ہے۔ اب مجھے کچھ سکون ہوا ہے۔اب میں سونے لگا ہوں ، صبح ہی ملاقات ہو گی۔“ اس نے کہا اور فون بند کر کے بیڈ پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر وہ یہی معاملہ سوچتا رہا ، پھر اس کی آ نکھ گئی۔
صبح جب اس کی آ نکھ کھلی تو دن چڑھ آ یا تھا۔ وہ جلدی سے فریش ہو کر تیار ہوا اور نیچے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ اسے ہر پریت تیار ملی ۔ دونوں نے ناشتہ کیا اور تو وہ نکودر جانے کے لئے تیار ہو گیا ۔ جسپال لاشعوری طور پر نوتن کور کا انتظار کر رہا تھا جو ابھی تک وہاں نہ پہنچ پائی تھی۔ ہرپریت کو الوداع کہہ کر اس نے پورچ میں جا کر فون کیا۔ رابطہ ہوتے ہی اس نے نوتن کور سے پوچھا
” ابھی تک پہنچی کیوں نہیں ہو؟“
” بس یہاں معاملہ قریب ترین پہنچنے والا ہے ۔
“ اس نے تیزی سے بتایا
” مگر مجھے تو یہاں کے لوگوں کے ساتھ اے سی پی کے پاس آ نا ہے ۔ اور میں آ رہا ہوں ۔“ وہ بولا
” لوگوں کے ساتھ ہی آ رہے ہو نا تو آ جاؤ ، یہ تو بہت اچھا ہے۔ یہی تو انتظار ہے۔ باقی باتیں یہاں آ ؤ گے تو ہو جائیں گیں۔“ نوتن نے کہا
” اوکے ۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ اگلے آ دھے گھنٹے کے اندر اس نے سردا ر بلبیر سنگھ پینچ کو اپنے ساتھ لیا اور پنچائت گھر آ گیا۔
وہاں نکودر کے لئے جانے والے لوگ جمع ہو چکے تھے۔ وہ انہیں لیتے ہوئے نکودر کے لئے چل پڑے۔
پنجاب کا یہ المیہ ایک ثقافت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ انصاف کے لئے بھی ان لوگوں کو ”بڑ ے لوگوں“ کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔عوام ان بیورو کریٹس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جو کہنے کو عوام کے خادم ہیں۔ اور یہی عوام کے خادم خواص کی خدمت میں دن رات صرف کرکے عوام ہی کو محکوم بنائے ہوئے ہیں۔
یہ صرف اور صرف تعلیم کی کمی کے باعث ہے ۔ جو انہیں یہ شعور ہی نہیں دیتی کہ وہ ایک ہو جائیں اور ان خواص اور بیورو کریٹس کو اپنا خادم بنا لیں۔ اس طرح قافلے بنا بنا انصاف کی بھیک مانگنے نہ جانا پڑے ۔
 وہ نکودر شہر میں اے سی پی آفس کے سامنے جا رکے ۔ جسپال کا دماغ اس وقت بہت ٹھنڈا تھا۔ وہ پر سکون تھا۔ اسے ان مراحل سے بھی اُلجھن نہیں ہوئی، جو اس عوام کے خادم تک پہنچنے کے رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوتا ہے ۔
تین لوگوں کا اذن باریابی ملا کہ وہ اندر آ کر بات کریں ۔ جسپال ، بلبیر سنگھ اور لڑکی کا باپ اندر چلے گئے ۔ اے سی پی اپنی کرسی پر براجمان تھا۔ اس نے تینوں کو دیکھا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گئے تو بلبیر سنگھ نے اپنا مدعا بیان کیا۔ اور اوگی کے تھانیدار کے بارے میں بتا دیا کہ وہ تعاون کرنے کی بجائے بہانے بنا رہا ہے۔ ساری بات سننے کے بعد اس نے کہا
” میں دیکھتا ہوں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
میں بلواتا ہوں اس تھانیدار کو۔ “ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کو رُکا اور پھر بولا،” اور کوئی حکم ہے میرے لئے۔“ 
ان آ خری لفظوں کے کہنے کا مطلب اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں تھاکہ اب تم لوگ جا سکتے ہو۔ تبھی جسپال نے سکون سے پوچھا
” یہ آ پ کا دیکھنا ، کتنے دنوں تک چلے گا؟“ اس کے لہجے میں کچھ ایساتھا کہ اے سی پی نے بڑے غور سے اس کی طرف دیکھا۔
یوں جیسے اس کی بد تمیزی پر اسے غصہ آ گیا ہو۔ پھر بھی اس نے نرم لہجے میں کہا
” کیا کہہ سکتے ہیں، ہمارے پاس کو ئی ایسا چمتکار تو ہے نہیں کہ ایک دم سے ڈھونڈ نکالیں۔ کرتے ہیں اس پر کام۔ آپ دھیرج رکھیں۔“ 
” دیکھیں، یہ ہمارے علاقے کے لوگ ہیں۔ ان کا مسئلہ دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ہونا چاہئے ۔ “ جسپال نے کافی حد تک سخت لہجے میں کہا
” یہ آپ جیسے عوامی نمائندوں کو ہر جگہ اپنے نمبر بنانے کی کیوں پڑی رہتی ہے ۔
کہا نا دیکھتے ہیں، تو دیکھتے ہیں۔ اب تم لوگ جاؤ۔“ اس نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا تو لڑکی کا باپ پہلے ہی اُٹھ گیا۔ بلبیر سنگھ پینچ اُٹھا اور پھر جسپال اُٹھ گیا۔ اسے اے سی پی کی سرد مہری بہت بری لگی تھی ۔ وہ باہر آ گئے ۔
 تبھی سامنے کافی ساری کاریں آ کر رکیں۔ اس میں سے کئی سارے لوگ باہر آ ئے ۔ ان کے درمیان ایک لمبے قد کا آدمی نمایاں تھا۔
جسپال کو اس کا چہرہ کافی حد تک جانا پہچانا لگا تھا ۔وہ ایک جتھے کی صورت میں آئے ۔ ان کے آگے ایک بندہ سامنے کھڑے لوگوں کی جانب بڑھا اور ان سے پوچھا
” یہ اوگی سے کون لوگ یہاں آ ئے ہیں؟“
” ہم ہیں۔“ ایک شخص نے جواب دیا تو وہی شخص بولا
” سردار گجندر سنگھ جی آ ئے ہیں۔ انہیں معلوم ہوا ہے کہ تم لوگ وہاں سے آئے ہو یہاں ، تو یہ تم لوگوں کی سہاتا (ہمدردی) میں آ گئے ہیں۔
اتنی دیر تک وہ ان کے قریب آ گئے ۔ سردار دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے ان کے قریب آ گیا اور آتے ہی زور دار انداز میں فتح بلائی 
” ست سری اکال ۔“ لوگوں نے اس کی فتح کاجواب دیا۔ تو وہ بولا،” مجھے بہت دکھ ہوا ہے ، میں نے ساری جانکاری لے لی ہے ۔ اور آؤ کرتے ہیں اے سی پی سے ذرابات۔“ اس نے سب کو لے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہاتو لوگوں نے جسپال کی طرف دیکھا ۔
تب بلبیر سنگھ بولا
” ہم ان کے پاس سے ہو آ ئے ہیں۔“
” کیاکہتا ہے وہ ؟“ اس نے پوچھا
” وہی دلاسہ دیا کہ کرتے ہیں کچھ؟“ بلبیرسنگھ نے جواب دیا تو بہت دھونس سے بولا
” میں کرتاہوں بات ۔“ یہ کہہ کر اس نے قدم بڑھائے ہی تھے کہ جسپال نے سرد سے لہجے میں کہا
” گجندر سنگھ۔! اس اے سی پی کو یہاں بلاؤ ۔“
اس کا بولنا گجندر ہی کو نہیں وہاں ہر بندے نے محسوس کیا۔
تبھی اس نے چونک کر پوچھا
” کون ہو تم؟“ 
” جو کہا ہے وہ کرو۔“ 
جسپال نے اسی لہجے میں کہا تو ایک لمحہ کے لئے اس نے سوچا پھر بولا
” ہم اندر جا کر بات کر تے ہیں۔ آؤ تم بھی آؤ ؟“ اس نے کہا تو جسپال نے ضدی لہجے کہا
” اُسے یہاں بلاؤ۔“ 
” اے تمہیں سمجھ نہیں آتی کہ سردار جی کیا کہہ رہے ہیں۔“ اس کے ایک مصاحب نے تیزی سے کہا تو جسپال نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے دور جانے کو کہا۔
وہ چند لمحے کھڑا رہا، پھر پیچھے ہٹ گیا۔ تب وہ گجندر سنگھ کے پاس آ یا اور دھیمی سی آواز میں کہا
” تم وہی کرو، جس کے کرنے کے لئے تمہیں بھیجا گیا ہے ۔ اب میں آ گیا ہوں یہاں، تمہاری بیٹی بھی بچ جائے گی ۔جسپال سنگھ ہے میرا نام ۔“ اس نے کہا ہی تھا کہ گجندر سنگھ نے متحوش نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا ۔ چند لمحے اُسے سمجھ ہی نہیںآ ئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ، پھراپنے لوگوں کی طرف دیکھ کر بولا
” اس اے سی پی کو ادھر ہی بلاؤ ، سب کے سامنے بات ہو گی۔“ یہ کہہ کر اس نے جسپال کا ہاتھ تھاما اور ایک جانب لے جا کر بولا،” تم کیاجانتے ہو کہ میں یہاں کیا کرنے آ یا ہوں۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط