جسپال اس وقت واپس اوگی کی جانب چل پڑا تھا ، جب باقی سب میں سے آ دھے جالندھر کی جانب چلے گئے اور آ دھے واپس نکودر چلے گئے ۔ نوتن کور کو فارم ہاؤس پر ہی رہنے کو کہا گیا۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ دن تک اس انسٹیٹیوٹ کے بارے میں جانکاری حاصل کریں گے ، پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ ہوگا کہ کیا کرنا ہے ۔اس دوران الیکشن مہم میں کسی کو بھی ضرورت پڑتی ہے تو اس میں مدد کی جائے گی۔
جسپال کو مہم تیز کرنے کے بارے میں کہہ دیا گیا تھا۔ اسی لئے وہ اوگی پنڈ کی طرف چل پڑا تھا۔
جسپال اس وقت اوگی پنڈ سے تھوڑی ہی فاصلے پر تھا جب اُسے ہر پریت کی کال ملی ۔
” وہ کہاں ہے؟“ اس نے اُلجھے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا۔ لیکن لہجہ کسی پریشانی کی چغلی کھا رہاتھا۔
” خیریت تو ہے نا پریتو؟“ اس نے خوشگوار انداز میں کہا، جس پر وہ قدرے گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی
” اوگی تھانے سے پولیس آ ئی ہے ، ان کے ساتھ نکودر کی بھی پولیس ہے۔
(جاری ہے)
ان کا کہنا ہے کہ وہ تمہیں گرفتار کرنے آئے ہیں۔ اور…“ اس کے ساتھ ہی ہرپریت کی آواز آنا بند ہو گئی لیکن فون کال نہیں کٹی تھی، اگلے ہی لمحے کسی بھاری آواز والے نے طنزیہ انداز میں کہا
” اور اگر تم نہیں آ ئے تو ظاہر ہے ہمیں یہیں سے کسی کو لے کر جانا ہوگا۔تم کب تک پہنچ رہے ہو۔“
” دیکھو۔! گھر کی کسی عورت سے بد تمیزی نہ ہو۔ اور تم لوگ گھر سے باہر نکل کر میرا انتظار کرو، میں دس منٹ تک پہنچ رہا ہوں۔
میں گھر کے قریب ہی ہوں۔“
” ارے، تم بھاگ کیوں نہیں جاتے ، ہم تمہیں ہار پہنانے نہیں ، گرفتار کرنے آئے ہیں، اور ادھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔دس منٹ ہی ہیں تمہارے پاس ۔“ یہ کہہ کر فون بند کر دیا گیا۔
جسپال نے وقت دیکھا اور سب سے پہلے نوتن کور کو فون کر کے انتہائی اختصار سے ساری بات بتادی، پھر فون بند کرکے انوجیت سے رابطہ کیا، اس نے فون رسیو کیا تو پتہ چلا کہ ُاسے ابھی پتہ چلا ہے اور وہ گھر کی طرف آ رہا ہے ۔
جسپال نے بلبیر سنگھ پینچ کو فون کرنے کا کہا اور فون بند کر کے جیب میں رکھنے کی بجائے ڈیش بورڈ میں رکھ دیا۔ پھراس نے اپنی پنڈلی کے ساتھ رکھا ہوا پسٹل نکال کر وہیں رکھ دیا ۔ وہ انتہائی تیز رفتاری سے گھر کی جانب چل پڑا تھا۔
اس نے دور ہی دیکھ لیا۔ اس کے گھر کے سامنے کافی ساری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ جسپال کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ یونہی نہیں آ ئے ہیں ، بلکہ کوئی پکا کاغذ لے کر ہی آئے ہوں گے ۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ اس لئے اس نے کار لے جا کر گیٹ پر روک دی۔ پھر بڑے سکون سے اتر کر اندر چل دیا۔ راستے میں جا بجا پولیس والے کھڑے تھے۔ تبھی پورچ میں وہی اے سی پی دکھائی دیا۔ جسپال چلتا ہوا اس کے پاس جا ٹھہرا ۔
”ویل کم ، جسپال سنگھ ویل کم، دیکھو ، میں تمہیں تمہارے گھر پر ہی تمہیں ویل کم کہہ رہا ہوں۔ خیر۔! میں تمہیں گجندر سنگھ کے قتل کے جرم میں گرفتار کرنے آ یا ہو۔
تمہیں کوئی اعتراض ہے؟“
” بالکل بھی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک ذمہ دار آ فیسر ہیں، بنا کسی گیدڑ چھٹی کے آ پ نہیں آئے ہوں گے۔ دکھائیں گے مجھے وہ گیدڑ چھٹی؟“ جسپال نے کہا تو اے سی پی نے مسکراتے ہوئے ایک کاغذ اس کی جانب بڑھا دیا۔اور طنزیہ لہجے میں کہا
” یہ لو۔“
جسپال نے ایک نگاہ اسے دیکھا۔ اسے شک میں گرفتار کیا جا رہا تھا۔
اس نے وہ کاغذ اپنی جیب میں رکھا اور اسے کہا
” میں نے کہا تھا کہ گھر سے باہر رہنا، مگر تم پھر بھی اندر آ کر بیٹھ گئے۔ کس کی اجازت سے؟“
” بہت ہوگئی اخلاقی گفتگو، اب چلو۔“ پھر اپنے کسی ماتحت کی طرف دیکھ کر کہا،” گرفتار کر لو اسے؟“
اگلے ہی لمحے ایک پولیس مین آ گے بڑھا اور اس کے ہتھ کڑی لگا دی گئی ۔ جسپال نے دیکھا ، دروازے کی اوٹ میں سے ہر پریت اسے دیکھ رہی تھی۔
اس نے آنکھوں ہی آ نکھوں میں اُسے سمجھایا اور پلٹ پڑا۔ انہی لمحات میں انوجیت کی کار اندر داخل ہوئی۔وہ جلدی سے باہر نکلا اور تیزی سے بولا
” یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ لوگوں کو خبر نہیں کہ …“
تبھی اے سی پی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” تم اگر الیکشن میں امیداوار ہو تو صرف امیداور ہی رہو ، قانون کے راستے میں مت آ ؤ ۔ ہم نے اسے ہر قیمت پر لے کر جانا ہے سمجھے ، اس لئے خاموش ہو جاؤ۔
“
” تم غلط کر رہے ہو ، میں جانتا ہوں…“
” تم کچھ بھی نہیں جانتے ہو۔ پرے ہٹ جاؤ۔“ اے سی پی نے حقارت سے کہا تو جسپال نے سرد لہجے میں کہا
” اے سی پی، اپنی بکواس بند رکھو، اور کتے کی طرح بھونکنا بند کرو۔ “
اس پر اے سی پی نے حیرت اور غصے سے اس کی طرف دیکھ کر کچھ کہنا چاہا تو وہ بولا،” شٹ اپ ۔!جب میں تیرے ساتھ جا رہا ہوں تو جا رہا ہوں، کسی بھول میں مت رہنا کہ تم مجھے گرفتار کر کے لے جا رہے ہو۔
میں چاہوں تو اب بھی تیرے ساتھ جانے سے انکار کر سکتا ہوں ۔جانا ہے یا ادھر ہی رہنا ہے۔“
غصے میں اے سی پی سے بولا نہیں گیا۔ اس نے گھور کر دیکھا اور اپنے لوگوں کا اشارہ کیا۔ وہ اُسے لے کر چل دئیے۔جسپال چلتا ہوا پولیس وین میں جا بیٹھا۔ اس کے بیٹھتے ہی وین چل دی۔
#…#…#