پنجاب میں اور خاص طور پر سکھوں میں شادی بیاہ پر ایک خاص رسم ہوتی ہے ، جسے ” جاگو“ کہا جاتا ہے۔ اس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ساری رات جاگتے ہیں۔ ایک لڑکی اپنے سر پر گاگر ، مٹکا یا اس سے ملتا جلتا برتن سجا کر رکھتی ہے باقی لڑکیاں اس کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔ پھر لڑکوں کے ساتھ پورے گاؤں میں پھرتے ہیں۔ جگہ جگہ ٹھہر کر گیت، ماہیئے اور ٹپّے گاتی ہیں۔
رات بھر جاری رہنے والے اس شغل میلے میں رشتے ناطوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس رات اوگی پنڈ میں ایسی ہی ایک ”جاگو “تھی۔ جسپال سنگھ، ہر پریت کور اور انو جیت سنگھ تینوں پنڈ میں موجود تھے۔ ان کے ہونے سے لڑکے لڑکیوں میں بڑا جوش بھر گیا تھا۔ ہندو کمیونٹی کے بہت سارے لڑکے لڑکیاں بھی اس میں شامل ہو گئی تھیں۔ شادی والا گھر اتنے امیر نہیں تھے۔
(جاری ہے)
ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنے امیر لوگ ان کے بیاہ میںآ ئیں گے اور ہر پریت چپکے سے ان کی ساری مدد کر دے گی۔ وہ بہت ممنون تھے۔ اس لئے انہیں بڑی اہمیت دے تھے۔ ” جاگو“ نکل کر دو تین گلیاں پار کر آ ئی تھی۔
وہ اوگی پنڈ کا ایک چوک تھا۔ ارد گرد کے گھروں کی چھتوں پر لوگ چڑھے اس جاگو کو دیکھ رہے تھے۔ بہت سارے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر انہیں دیکھنے کے لئے وہیں موجود تھے۔
گیتوں کے ساتھ باتو ں کا شور تھا۔ ایسے میں ایک گلی کی طرف سے ہوٹربجنے کی آواز آنے لگی اور اگلے چند منٹوں میں ایک کھلی جیپ میں چند پولیس والے وہاں آ کر رک گئے۔ ان کے ساتھ کچھ اور گاڑیاں بھی تھیں۔کھلی جیپ میں سے ایک سنگھ انسپکٹر باہر آگیا۔ اسے دیکھ کر سارے لوگ خاموش ہو چکے تھے۔ اس لئے وہ اونچی آواز میں بولا
” جسپال سنگھ ڈھلوں، آگے آؤ۔
“
اس پر جسپال نے ہر پریت اور انو جیت کو سکون سے رہنے کا کہا اور آگے بڑھ گیا۔
” کیا بات ہے انسپکٹر…“ یہ کہہ کر اس کے سینے پر لگے بیج کو دیکھنے لگا جہاں اس کا نام لکھا ہوا تھا۔
” تمہیں ہمارے ساتھ تھانے جانا ہو گا۔“ اس نے بڑے بارعب لہجے میں کہا
” کیوں؟“
” یہ تو تمہیں وہیں جا کر بتائیں گے، چلو۔“ اس نے آ گے بڑھ کر اس کی کلائی پکڑنے کی کوشش کی تو جسپال اسے طرح دیتے ہوئے بولا
” تم مجھے ایسے نہیں لے جاسکتے ہو۔
تم جاؤ ، میں خود آ جاؤں گا ، وہ بھی صبح، اب نہیں۔“
” یہ تم غلط کررہے ہو، ہم تمہیں لینے آ ئیں ہیں۔“ انسپکٹر نے رُعب سے کہا
” میں بحث نہیں چاہتا انسپکٹر، جاؤ ، صبح آؤں گا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے دیکھا، پولیس کے لوگ آ ہستہ آ ہستہ اس کے گرد گھیرا ڈال رہے تھے۔ اُسے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ اُسے لے جانے کے لئے ہی آ ئے ہیں۔
” تمہیں پروٹوکول کے ساتھ لے جانا ہے، چپ چاپ لے جانا ہوتا تو گھر سے اٹھا لیتا، میری بات سمجھ رہے ہو نا؟“ اس بار انسپکٹر نے ڈھکے چھپے انداز میں یہ بات کہہ دی کہ وہ اسے ذلیل کر کے لے جانا چاہتا ہے۔
” میں تمہاری بات نہ صرف سمجھ گیا ہوں بلکہ اس کا جواب بھی میں نے سوچ لیا ہے۔ تم جو چاہو سو کرو، میں تو صبح ہی آ ؤں گا۔اب لے جانا ہے تو تمہاری مرضی۔“ جسپال نے اس کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
” پکڑ لو اسے۔“ جیسے ہی انسپکٹر نے حکم دیا، پولیس کے لوگ آ گے بڑھے، اسی لمحے جاگو میں موجود سارے لوگ آ گے بڑھ آئے۔ ہر پریت ان سب سے آ گے تھی۔
” تم اسے ہماری مرضی کے بغیر نہیں لے جاسکتے ہو۔ گولی چلانی ہے تو چلاؤ،اگر اسے لے گئے تو ہم بھی اس کے ساتھ ہی تھانے جائیں گے۔“ ہر پریت نے زور دار انداز میں کہا۔ انسپکٹر گھبرا گیا۔ پھر سب کی طرف دیکھ کر ایک دم سے بولا
” کوئی گاؤں کا بڑا اس کی ضمانت دے گا کہ یہ صبح آ جائے گا تھانے؟“
” میں کسی کی ضمانت نہیں دوں گا۔اب تم جاؤ اور جا کر آرام کرو۔
“ جسپال نے کہا
” تم اپنے لئے بہت ساری مشکلات بڑھا رہے ہو جسپال؟“ انسپکٹر نے غصے میں کہا
” میں پیدا ہی مشکلات میں ہوا ہوں۔ میرے جتنی مشکلات تجھے آ جائیں تو تم ویسی ہی مر جاؤ، اب جاؤ۔“ اس بار جسپال نے بھی غصے میں کہا تو وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا اور تیزی سے پلٹ کر واپس چلا گیا۔ اس کے ساتھ آئی ہوئی نفری بھی واپس چلی گئی ۔
ایک دم سے خاموشی ٹوٹ گئی۔ لوگ باتیں کرنے لگے، جن کی کسی کو سمجھ نہیںآ رہی تھی۔ سمجھ تو جسپال کو بھی نہیں آ رہی تھی کہ یہ آخر ہوا کیاہے؟
” بھول جاؤ کہ کوئی یہاں آیا تھا۔ تم لوگ انجوائے کرو۔“ انوجیت سنگھ نے سب کو کہاتو پھر سے وہ سب گیت گانے لگے مگر وہ پہلے والا جوش ختم ہو چکا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ تینوں ان لوگوں سے الگ ہو کر گلی کی نکڑ پر آ گئے تو ہرپریت نے تشویش سے پوچھا
” یہ کیا تھا جسپال؟“
” اس وقت تو مجھے نہیں پتہ ،لیکن پتہ چل جائے گا۔
“ وہ دھیرے سے بولا پھر ہرپریت کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا،” تم انجوائے کرو، ہم یہیں ہیں، کہیں نہیں جا رہے ۔ ڈونٹ وری۔“
” میں اب کیا انجوائے کروں گی، تم چلو گھر ، وہیں جا کر کسی سے بات کرتے ہیں۔“ وہ بھرائے ہوئے سے لہجے میں بولی
” کسی سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ابھی آدھے گھنٹے میں معاملہ صاف ہو جائے گا۔ تم جاؤ سب میں، پریشان نہ ہو میں دیکھ لیتا ہوں سب۔
“ جسپال نے اسے کہا اور اپنا سیل فون نکال لیا۔ پھر انوجیت کی طرف دیکھ کر بولا،” یار، تمہاری سمجھ میں کچھ آتا ہے؟“
” ہاں ، میری سمجھ میں آرہا ہے۔بس کنفرم کرنے کی دیر ہے۔“ اس نے سوچتے ہوئے کہا
” بات کیا ہے؟“ جسپال نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا
”بظاہر تو بات کوئی بھی نہیں ہے، اس وقت بھی میں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی،لیکن اب سوچ رہا ہوں ، وہ بات ٹھیک ہی لگتی ہے۔
“ اسی نے پھر اسی لہجے ہی میں کہا تو جسپال نے کہا
” چلو وہی بات بتا دو، کچھ تو آئیڈیا ہو۔“
” چند دن پہلے میرے ہی ایک سنگھی دوست نے مجھے کہا تھا کہ یہ جو سردار ویر سنگھ کے دونوں منہ بولے بیٹے ہیں ناجوگندرسنگھ اور سریندر سنگھ، یہ ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ اپنے باپ سے باہر باہر ہی کوئی کھچڑی پکا رہے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ کیسی کھچڑی ہے ، اور کس کے خلاف ہے۔ چونکہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، اس لئے میں نے تفصیلات نہیں پوچھیں۔“ انوجیت نے بتایا