میرے سامنے پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں کے ان لوگوں کے نمبر تھے،جو وہ نام نہاد امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی چلانے والوں کے بڑے تھے۔ بلاشبہ وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے۔ میں نے ان میں سے آٹھ شہروں کے لوگوں کے نام چنے۔ میں نے سب سے پہلے جانی بھائی سے رابطہ کیا۔میں نے جب اس سے مدد چاہی تو وہ ایک دم سے پر جوش ہو گیا ۔ وہ میرے ساتھ رابطے میں رہا ۔
ممبئی کے دو لوگوں کے بارے جانی بھائی کو کہہ دیا، اس نے ایک گینگ بنا کر مجھے اس کا نمبر دے دیا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعداسی مناسبت سے مجھے روہی سے ان لوگوں کے نمبر ملنے لگے جو مقامی طور پر ان کا وہاں مقابلہ کر سکتے تھے۔ جیسے جیسے مجھے ان لوگوں کے نمبر ملتے گئے ، میں ان سے رابطہ کرتا گیا۔
پوری رات یہی سلسلہ چلتا رہا۔
(جاری ہے)
جسپال کو پتہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں ، اس لیے اس نے ہر پریت اور انوجیت کو اپنے ساتھ مصروف رکھا اور پھر اسے ہرپریت کو بھی منانا تھا۔
اس لیے مجھے کسی نے بھی ڈسٹرب نہیں کیا ۔ رات کے آخری پہر جب میں نے اپنے طور پر سارے انتظام کر لیے اور ان لوگوں کے ذمے کام لگا دئیے تو مطمئن ہو گیا۔ لیکن نیند میری آنکھوں سے اب بھی کوسوں دور تھی۔ میں رات بھر ان کے ساتھ رابطے میں رہا۔
اگلی صبح ، ابھی سورج نہیں نکلا تھا۔ میں نے اُوگی کی روشن صبح کا مزہ لیا۔ سب کے ساتھ ناشتہ کیا اور پھر سے کمرے میں آگیا۔
میں نے ایک بار پھر سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ سب نے ان آٹھوں کے بارے میں بتا دیا کہ وہ کون ہیں اور ان کے معمولات کیا ہیں، وہ کس وقت اپنے آفس جاتے ہیں۔ میں نے ان سب کو شوٹ کر دینے کا کہا تھا اور انہوں نے اسی مناسبت سے اپنا اپنا خیال دیا۔ دن کے دس اور گیارہ کے درمیان یہ کام ہونا تھا۔سبھی نے گھر، آفس کے پاس یا راستے ہی کا پلان کیا تھا اور میں اس پر مطمئن تھا۔
دس بجے کے بعد مجھے سب سے پہلے چندی گڑھ ہی سے پروفیسر کے لوگوں نے بتایا کہ یہاں وہ بندہ پار کر دیا گیا ہے ، جس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔پھر آدھے گھنٹے کے اندر اندر آٹھوں جگہوں سے یہ خبر مل گئی ۔ سب نے کامیابی سے وہ مشن پورا کر دیا تھا۔ تبھی میں نے روہی کی مدد سے ممبئی شہر کے علاقے دادرمیں موجود اس بندے کا نمبر ملایا جن سے ان سب کے رابطے تھے۔
تھوڑی دیر بعد رابطہ ہوتے ہی میں نے کہا۔
”ہیلو ، پریم ناتھ ! کیسے ہو ؟“
”کون ہو تم، اپنا تعارف کراؤ، اور کہاں سے بات کر رہے ہو ۔“ اس کاک لہجہ حقارت بھرا تھا
”اس خطے پر حکومت کرنے کا خواب تم لوگ دیکھ رہے ہو اور پوچھ مجھ سے رہے ہو کہ میں کہاں سے بات کر رہا ہوں، میں نے تم جیسے احمق لوگ نہیں دیکھے؟“ میں نے انتہائی طنز سے کہا۔
”کون ہو تم اور کیاچاہتے ہو؟“ اس بار اس کے لہجے میں کافی حد تک تجسس تھا۔
”اتنی جلدی بھی کیا ہے ، ابھی تو صرف آٹھ لوگ کام آئے ہیں، یہ توشروعات ہے۔“ میں نے طنزیہ کہا۔
”کیا کہہ رہے ہو تم؟“ وہ وحشت سے بولا۔
”صرف میری سنو پیادے، چاہتا میں یہ ہوں کہ اپنے بڑوں سے میری بات کراؤ ، یا اپنے جیسے اس پیادے کو میرے حوالے کرو ، جو اپنا تعارف آزاد نام سے کرواتا ہے ۔
“ میں نے نفرت سے کہا۔
”اوہ! تم وہی تو نہیں ہو ،جو اس کے جزیرے سے بھاگ گئے تھے۔ ہم خود تیری تلاش میں ہیں۔“ وہ تیزی سے بولا۔
”تو پھر آؤ ، ملیں‘ کہاں ملنا ہے ؟“ میں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
”اس کا مطلب ہے تمہیں اپنی جان پیاری نہیں؟“ اس نے غصے میں کہا
”بالکل بھی نہیں پیاری، میں نے اپنا تعارف آٹھ لوگوں سے کروا دیا ہے،امید ہے کہ ان کے بارے میں اطلاعات مل گئیں ہوں گئی ،اپنے بڑوں سے بات کر کے مجھے بتاؤ ، کہاں ملنا ہے یا اپنا سیٹ اپ ختم کرکے ، برصغیر پر حکومت کرنے کا خواب پھر خواب ہی رہنے دینا ہے۔
“ میں نے کہا۔
”دیکھو ، ہم تمہیں اپنا حصہ بنانا چاہ رہے ہیں اور تم دشمنی کر رہے ہو ، تم شاید جانتے نہیں، ہم شام سے پہلے تمہارا اور تمہارے ساتھ جڑے لوگوں کا اس دنیا سے خاتمہ کر دیں گے ۔“ اس نے پھر سے کہا۔
”چلو پھر میں شام کے بعد تمہارے ساتھ رابطہ کرتا ہوں، اپنے باقی لوگوں کو الرٹ کردو ۔“ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
فی الحال مجھے بس اتنا ہی کرنا تھا۔
ان کے سارے سیٹ اپ کی چولیں ہل گئی تھیں۔انتقاماً وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ میں نے سرمد کو نور نگر کے بارے میں کہا تواس نے وہاں کی سیکورٹی کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتا دیا ۔ وہاں ہر طرح سے خیریت تھی۔ کسی بھی ناگہانی صورت حال کے لیے نپٹنے کا پورا انتظام تھا۔ میں مطمئن ہو گیا۔
جانی بھائی کی بات کافی حد درست تھی اور وہ لوگ جو برصغیر پر حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے،انہوں نے یہ خواب ایسے ہی نہیں دیکھ لیا تھا۔
اس سارے خطے پر جو لوگ حکومت کر رہے ہیں یا طاقت جن کے ہاتھوں میں ہے ، وہ زیادہ تر موروثی ہیں۔ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ، ان کے جو بڑے لیڈر ہیں، ان میں زیادہ تر موروثی خاندان ہیں یا پھر ان کے پروردہ لوگ ۔ یہ سب نفرت کی سیاست کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کچلنے اور نیست و نابود کر دینے کے سوا انہیں بات ہی کوئی نہیں آتی ۔ لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے انہیں کچھ ہوا ہو ، ہاں مگر ان میں چند ایسی مثالیں ہیں، جنہیں بیرونی طاقتوں نے مقامی لوگوں کے تعاون سے ختم کیا۔
یہ بات کو سمجھنے کی واضح دلیل ہے کہ اس موروثی سیاست کو مضبوط سے مضبوط تر کیوں کیا جا رہا ہے؟ کوئی طاقت ایسی ہے ، جو انہیں سہارا دیئے ہوئے ہے تاکہ ان کے ایجنڈے پر کام ہوتا رہے۔ دوسری طرف سارے خطے میں عوام کے وہی مسائل ہیں، غربت، بیماری ، بے روزگاری ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، کرپشن ایسے ناسور اب تک قوموں کے بدن پر سے بہہ رہے ہیں۔
حکمرانوں اور عوام کے درمیان جو طبقہ ہے ، وہ زیادہ ظالم ہے ۔ وہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان اپنا مفاد رکھ کر دونوں کو اندھا کیے ہوئے ہے ۔ ذات پات، قوم پرستی ، فرقہ واریت ، مذہبی جنونیت ، عصبیّت، ان سب کو پروان کون چڑھا رہا ہے ؟
ایسے میں بیرونی طاقتیں ، اپنا اثر و رسو خ انہی لوگوں پر استعمال کرتی ہیں جو طاقت ور ہوتے ہیں۔ انہی کے ساتھ مل کر اپنے منصوبے پورے کرتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعے بات سمجھی جا سکتی ہے کہ سن چوہتر میں اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں اسلامی دنیا کے لیے جو پلان ترتیب دیا گیا تھا۔ بینکنگ سے لے کر نیوز ایجنسی تک، کاروباری معاملات سے لے کر کرنسی تک کو طے کر لیا گیا تھا۔ مگر کچھ بھی نہ ہو پایا،سب کچھ کاغذوں میں رُل گیا اور حالات ہی بدل گئے۔ وہ پلان آج یورپی یونین کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے ۔
یہ سب کیسے ہوا ؟ اس سوال کو لے کر چلیں تو بہت سارے معاملات سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔یہ خطہ میدان کارزار بنا ہوا ہے،یہاں کی نسلیں اپنوں ہی کے تسلط میں ہیں، نفرت کی سیاست نے دماغوں کو ماؤف کر کے رکھا ہوا ہے اور سب سے زیادہ خون یہیں بہہ رہا ہے ؟یہیں سب سے زیادہ آلہ کار بھی پیدا ہو رہے ہیں۔جو اپنی طاقت کے لیے انسانیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ میر جعفر اور میر صادق تو آج کے منافقین کے سامنے بونے لگتے ہیں۔
ء…ء…ء