Episode 117 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 117 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

میں ، بانیتا کور اور اشفاق چوہدری، بہت دیر تک اسی موضوع پر سوچتے رہے کہ باس یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ میں اس کی نگاہوں کے سامنے ہوں۔ اور یہ دعوی کسی حد تک تسلیم بھی کیا جا سکتا تھا کہ اس نے دو بار مجھ پر حملہ کیا اور دونوں بار محض خوش قسمتی کے ساتھ رب کی رضا کے باعث بچ گیا تھا۔ پہلی بار ریستوران میں اس نے حملہ کروایا، اسے کیسے پتہ تھا کہ میں کہاں ہوں۔
وہاں مجھے ایک شک تھا کہ جو لوگ حملہ کرنے والے تھے، انہیں میرے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ مطلب انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہوا تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی ٹریک پر چلتے ہوئے سیدھے ہمارے سر پر آن پہنچے۔ 
دوسری بار بھی ایسا ہوا تھا۔ میں نے ٹاؤن میں جو گھر لیا تھا، اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔اس کے لئے میں بہت راز داری برتی تھی لیکن اس نے وہاں بھی حملہ کروا دیا۔

(جاری ہے)

یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ، جب وہاں کوئی بھی نہیں تھا، کیا اس نے اسی تاک میں وہاں حملہ کیا کہ وہاں کوئی نہیں تھا، صرف ہمیں خوف زدہ کرنے کے لئے، یا پھر اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہاں پر کوئی نہیں ہے، اور سب خوش قسمتی سے بچ گئے؟ باس میرے لئے ایک معمہ بنتا چلا جا رہا تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ وہ خود مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا رہا تھا یا قسمت مجھ پر مہربان تھی؟ میں یہی فیصلہ نہیں کر پایا تھا۔
یہ ساری باتیں ہمارے درمیان زیر بحث آ چکی تھیں، لیکن کوئی سرا پتہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اشفاق چوہدری نے کہا
” یہ سمجھنے سمجھانے کی باتیں تو چلتی رہیں گیں، ان دونوں کا کیا کرنا ہے ، میری بہت زیادہ توجہ ان کی طرف رہتی ہے۔“
”کیا تم نے ان کی کوئی ایسی سر گرمی دیکھی ہے یا معمول سے ہٹ کچھ ہوا ہے، جس کی وجہ سے تمہیں کوئی شک محسوس ہوا ہے؟“ میں نے پوچھا
”ان دونوں کو کچھ اجنبیوں کے ساتھ ملتے ہوئے دیکھا گیاہے۔
وہ ایسے لوگ تھے ، جو نہ تو اس علاقے کے ہیں اور نہ ہی دوبارہ دیکھے گئے ہیں۔صاف ظاہر ہے وہ باہر کے لوگ تھے۔“ اشفاق چوہدری نے تفصیل سے بتایا
”اس کے بعد انہوں نے کچھ کیا، کوئی مشکوک …“ میں نے کہنا چاہا تو وہ تیزی سے بولا
” نہیں ، انہوں نے کچھ نہیں کیا، ان کا ایک اپنا معمول ہے اور وہ اس طرح اپنے دن گذار رہے ہیں۔ تانی جب تھی ، وہ سیکورٹی کی لگامیں کھینچے رکھتی تھی ، علاقے میں کوئی پرندہ بھی سر مارتا تھا تو اس بارے بھی پوچھ تاچھ کرتی تھی ۔
وہ با خبر رہتی تھی ۔ مجھے علاقے میں پھرنا پڑتا ہے ۔ اس طرف زیادہ دھیان نہیں رکھ پاتا۔“
” تم چاہتے کیا ہو ۔ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا؟“ میں نے اس کی بات سننا چاہی۔
” میں چاہتا ہوں کہ یہ خطرناک لوگ ہیں،دشمن پھر دشمن ہوتا ہے ، اس کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں چلتا کرو یا ان کے بارے میں جو فیصلہ ہے کرنا،وہ کرو، کیونکہ دو دن سے ان کے پاس ایک شخص آ یاہوا ہے ۔
پوچھنے پرپتہ چلا ہے کہ وہ اس کا بیٹا ہے ۔ وہ کب آیا ، کہاں سے آیا، اس بارے وہ مطمئن نہیں کر سکا۔میں نے جب سے اس کو دیکھا ہے ، وہ میرے دماغ کو کھٹک رہا ہے۔“ اس نے اپنا خیال واضح کر دیا۔
” تو ابھی چلو ، ان کے پاس چلتے ہیں۔“ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا ۔ مجھے یہی خیال آیا تھا کہ اس کا ایک ہی بیٹا اس سے دور تھا جوممبئی میں رہتا تھا۔ اگر وہی ہے تو اُسے ممبئی میں تلاش نہیں کرنا پڑا، وہ یہیں آ گیا ہے۔
میں اُسے فوری طور پر ملنا چاہتا تھا۔ کبھی میں نے پلان کیا تھا کہ اسے ممبئی میں سے تلا ش کیا جائے۔ اب وہ ویسے ہی یہیں آ گیا تھا ۔
” چلو۔“ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا اور اُٹھ گیا۔
” بانیتا ۔! اگر تم چاہو تو آرام کرو۔“ میں نے کہا تو وہ بنا کوئی بات کئے اٹھ کر باہر چل دی۔ اُسے میرا یوں کہنا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ پورچ میں کھڑی کار کی پچھلی نشست پر جا بیٹھی تھی۔
اُسے مزید کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا ۔ سو میں خاموشی سے پسنجر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اشفاق چوہدری نے اسٹیرنگ سنبھالا اور چل دیا۔
ہم مسافر شاہ کے تھڑے کے پاس پہنچے تو اس کے ساتھ بنے ہوئی کمروں میں گھپ اندھیرا تھا۔ کسی کمرے میں کوئی ذرا سی بھی روشنی نہیں تھا۔اماوس کی اس رات میں بس تارے چمک رہے تھے۔ تھڑے کے ارد گردصرف وہی منظر دکھائی دے رہا تھا، جہاں ہیڈ لائیٹس کی روشنی پڑ رہی تھی۔
ان کمروں کے پاس کار جا رکی۔کار رُکتے ہی ایک نوجوان جوگی کمرے سے باہر آیا۔ اسے شاید ہم دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس لئے پوری طرح سامنے آ گیا۔ میں دروازہ کھول کر باہر آیا اور اونچی آواز میں کہا 
”رام لعل کو بلاؤ۔“
وہ میری آواز سن کر چونکا اور پھر مجھے پہچان کرٹھٹک گیا ۔ پھر فوراً اندر کمرے کی طرف چلا گیا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ، جوگی رام لعل باہر آ گیا اور سیدھا میری جانب بڑھا۔
اس نے دونوں ہاتھ میری طرف بڑھائے ہوئے تھے ۔ اس سے پہلے کہ وہ میرے قریب آ تا ، میرے اور جوگی رال لعل کے درمیان بانیتا کور آ گئی ۔
” ہو گیا۔“ بانیتا کور نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے دور رکھتے ہوئے تیزی سے کہا تو وہ رُک گیا۔ اس نے اپنی چندھیائی آ نکھوں سے ہماری جانب دیکھا اور بولا
” مہاراج۔! اس سمے، کہیں ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی؟“ 
” اوہ نہیں رام لعل،ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
“ میں نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا تو وہ جلدی سے بولا
” آئیں آ جائیں اندر۔“ وہ اندر کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تو بانیتا کور اندر کی جانب بڑ ھ گئی۔ اشفاق چوہدری اس کے پیچھے بڑھا ،پھر رام لعل اور میں اندر کمرے میں چلے گئے۔ 
اندر فرش پر دری بچھی ہوئی تھی ۔ اس کے اوپر دیواروں کے ساتھ تین بستر لگے ہوئے تھے ۔ ایک دیوار کے ساتھ لگے بستر پر ایک سنجیدہ سا جوان بیٹھا ہوا تھا۔
جو مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہوگیا۔ باقی دو بستر خالی تھے ۔ میں ایک بستر پر بیٹھ گیا تو وہ جوان میری جانب بڑھ آ یا ۔ اس نے ہاتھ ملایا ۔ 
” یہ میرا بیٹا ہے جی سندر لعل ۔ ممبئی میں رہتا ہے ، مجھے ملنے کے لئے آ یا ہوا ہے۔“
” یہی ہے وہ ،جو زہر بارے اتھارٹی رکھتا ہے ؟“ میں نے پوچھا تو وہ ذرا سا مسکرا دیا
” جی، یہی ہے ۔“ رام لعل نے کہا
” یہاں کیسے آ یا، قانونی طریقے سے یا غیر قانونی؟ ‘ ‘
” قانونی لوگوں نے غیر قانونی طور پر بھیجا ہے ۔
“ رام لعل کی بجائے وہ بولا
”کیسے؟“ میں نے سکون سے پوچھا
” انہی لوگوں نے، جنہوں نے میرے باپو کو یہاں بھیجا ہوا ہے۔“
” تمہیں ہی کیوں بھیجا؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا
”کچھ عرصہ سے یہاں کے بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں ملی۔وہ مجھ تک پہنچے، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں یہاں آؤں اور پتہ کروں کہ بات کیا ہے۔ کیونکہ انہیں یہ تو معلوم ہے کہ باپو زندہ ہیں اور آزاد زندگی گزار رہے ہیں، لیکن وجہ کیا بنی کہ وہ جو معلومات درکار تھیں وہ نہیں مل رہی ہیں۔
“ سندر لعل نے بڑے اعتماد سے کہا
” اب تم رام لعل کو لینے آئے ہو؟“ میں نے پوچھا
” یہ تو باپو کی مرضی ہے ، یہ کیا چاہتے ہیں۔“ اس نے جوگی کی طرف دیکھ کر کہاتو میں نے اس سے پوچھا
” ہاں بولو رام لعل ، کیا چاہتے ہو؟“
” میں سچی اور دل کی بات بتاؤں تو وہ یہ ہے کہ میں یہیں رہنا چاہتا ہوں، اسی جگہ، میں کہیں نہیں جانا چاہتا۔
نہ واپس اپنے گاؤں مناسکر اور نہ کہیں دوسری جگہ۔ میرا پریوار جاتا ہے تو جائے۔ میں آپ کی سیوا کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ بھی پورے دل سے۔“ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے بڑی لجالت سے کہا
” او ر وہ ملنگ، کیا بنا اس کا ، نشہ چھوڑا کہ نہیں اس نے ؟“ میں نے جان بوجھ کر اُس کے بارے میں پوچھا
” بس ایک ہفتہ لگا اُسے خود پر قابو پانے میں۔اب ٹھیک ہے ، روزانہ صبح تھڑے پر جھاڑو لگاتا ہے۔
اور اسی طرح شام کو بھی وہ اپنی ڈیوٹی دیتا ہے جو آپ اس کے ذمے لگا گئے ہیں۔“ وہ اسی لہجے میں بولا، ہاتھ اس کے جڑے رہے۔
” دیکھو بھئی رام لعل، مجھے یا میرے کسی بندے کو تم سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔اور اس دوران میرا سلوک بھی تم نے دیکھ لیا، تمہیں تنگ نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ تم یہاں رہنا چاہتے ہو ، اب پتہ نہیں تم رہ پاتے ہو یا نہیں۔
یہ الگ بحث ہے ،لیکن اگر تم واپس جاتے ہو تو وہ لوگ ساری زندگی تمہیں مشکوک سمجھتے رہیں گے۔ وہ تم پر یقین نہیں کریں گے ، کیا کہتے ہو؟“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا
” یہ تو ہے ، وہ مجھے مشکوک ہی سمجھیں گے۔“ جوگی نے جواب دیا تو سندر لعل نے تیزی سے بولا
” نہیں باپو جی ، میں ان سے بات کر کے آیا ہوں، وہ بھی جانتے ہیں کہ آپ مجبوری میں کہیں پھنسے ہوئے ہیں ۔
وہ توکوئی بھی کہانی انہیں سنا دی جاسکتی ہے۔ میں تب سے یہی پوچھ رہا ہوں ، اور ابھی یہ مہاراج آ بھی گئے ہیں ، ان کے سامنے بھی پوچھتا ہوں کہ یہاں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟“
” دیکھ بیٹا۔! میں ساری زندگی اس دشت کی سیاحی میں رہا ہوں، صحرا کی خاک چھانی ہے ، ہر طرح کے بندے سے ملا ہوں، لیکن جو شانتی یہاں ہے ،مجھے کہیں سے نہیں ملی۔ یہاں کہیں زیادہ گیان ہے، جو میں نے نہیں دیکھا، پر نہیں عمر کتنی ہے ۔
تم آ گئے ہو، اپنے سارے پریوار کو لے جاؤ۔ میں شانتی سے یہاں مرنا چاہتا ہوں۔“ رام لعل نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
” اس بار تو چلو نا، پھر چاہے ادھر آ جانا۔ میں نے وہاں وعدہ کیا ہے۔“ اس کے بیٹے نے کہا تب میں نے پوچھا
” جن لوگوں نے تمہیں یہاں بھیجا ہے ، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ تم یہاں پکڑے جا سکتے ہو؟“
” مجھے یہ کہانی سنانے کو کہی گئی ہے کہ میں اندورن سندھ سے یہاں آ یا ہوں۔ وہی جو کہانی باپو سناتے ہیں۔ یہ تو باپو جی نے مجھے یہاں کے بارے میں بتا دیا ورنہ تو میں یہی کہانی سنانے والا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آپ سے بات کروں کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط