جسپال اور رونیت نے پیتل کا وہ گڑوا میز پر رکھ دیا، جس کا منہ سرخ کپڑے سے بندھا ہوا تھا۔ اس میں پروفیسر کی راکھ اور ان جلے ناخن تھے ، جسے وہ ”پھول یا استھیاں “ کہتے ہیں۔ میز کی دوسری طرف پروفیسر کی بیوی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ اگرچہ ایک عورت ہونے کے ناتے رونیت کور اس کا دُکھ سمجھ سکتی تھی لیکن اسے یہ حیرت ضرور تھی اس کی آنکھ سے ایک قطرہ بھی آنسو کا نہیں بہا تھا۔
وہ چند لمحے ”استھیاں“ والے گڑوے کو دیکھتی رہی، پھر ہولے سے بولی۔
”رونیت پتر! اسے اسٹڈی روم میں رکھ آؤ۔پھر آ کر میری بات سنو۔“
”جی بہتر۔ “ رونیت کور نے فرمانبرداری سے کہا اور برتن اٹھا کر اسٹڈی روم کی جانب چلی گئی۔ پروفیسر کی بیوی اٹھی اور وہ بھی اندر کی جانب چلی گئی۔
(جاری ہے)
جسپال وہاں اکیلا رہ گیا۔ وہ خود پروفیسر کی بیوی کے رویے پر حیران تھا۔
اس وقت اس کی حیرت مزید بڑھ گئی جب اس نے ناشتے کی ٹرے لا کر میز پر رکھ دی۔ اتنے میں رونیت کور بھی واپس آ گئی تھی۔ اس نے بھی حیرت سے دیکھا۔ پروفیسر کی بیوی نے ناشتہ رکھا، فریج میں سے پانی کی بوتل نکال کر رکھی ، پھر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”آؤ ، پترو، پرشادے شکھ لو، تم لوگوں نے رات کا کچھ نہیں کھایا۔“
”ابھی دل نہیں کر رہا ، میں بعد …“ رونیت نے کہنا چاہا تو وہ بولی۔
”کب تک پتر ، کب تک کچھ نہیں کھاؤ گی۔ آؤ ، ناشتہ کرو، پھر کچھ دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔“ اس نے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ تینوں ناشتہ کرنے لگے۔اس وقت وہ ناشتہ کرکے چائے پی رہے تھے کہ ابھیت سنگھ، گرلین کور ، اور دوسرے جو سات تھے، وہیں آگئے۔ ا ن سے چند لمحے بعد سندو بھی آ گیا۔ سب خاموش تھے لیکن ان کی آنکھیں بتا رہیں تھیں کہ ان میں سے شعلے اٹھ رہے ہیں۔
تبھی پروفیسر کی بیوی استھیوں والا برتن لے کر آئی ، اس نے وہ درمیان میں پڑی ہوئی میز پر رکھا اور پھر ایک طرف صوفے پر بیٹھ کر سب کی طرف دیکھا۔ سب کی آنکھیں اشک بار تھیں، سوائے جسپال کے۔ وہ ان سب کو دیکھ رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ ان کی پروفیسر کے ساتھ جذباتی وابستگی کس حد تک ہے۔چند لمحے یونہی خاموشی میں گذر گئے ، تبھی پروفیسر کی بیوی نے اپنے پَلّو سے بندھا ہوا ایک کاغذ نکالا اور رونیت کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
”یہ پڑھ کر سب کو سنا دے پتر۔ یہ خط مجھے انہوں نے دو دن پہلے دیا تھا اور ساری بات سمجھا دی تھی۔“
رونیت کور نے وہ خط پکڑ کر کھولا اور پڑھنے لگی۔ وہ سب یوں متوجہ ہوگئے جیسے گرنتھ صاحب کی کوئی ”بانی“پڑھی جانے والی ہو۔
”میرے بیٹوں اور بیٹیوں۔مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میراآخری وقت آ گیا ہے۔ مجھے اگر کسی نے گولی نہ ماری تو میں ان دھمکیوں کے دباؤ میں مر جاؤں گا جو مجھے دی جارہی ہیں۔
میرا یہ خط تم لوگوں کو اس وقت ملے گا جب میں نہیں ہوں گا۔ مجھے یہ یقین ہے کہ میرے انتم سنسکار کے بعد تم لوگوں کو جس پر ذرا سا بھی شک ہوا ، تم اسے مار دو گے یا خود مر جاؤ گے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ تم لوگوں کے پاس دو راستے ہیں۔ نمبر ایک۔خاموشی سے چپ چاپ اپنی دنیا میں کھو جاؤ۔ یہ بھول جانا کہ کسی پروفیسر نے تم لوگوں کو پالا پوسا اور پروان چڑھایا تھا۔
اپنی زندگی جیو۔ نمبر دو۔ انتقام لو ، لیکن وہ ذاتی نہ ہو ، ہم نے دھرم کے نام پر اپنی زندگی وقف کی ہے۔ اور دھرم ہی کے لیے کام کرنا ہے۔تم لوگ جتھا بنا کردھرم کے لیے ایک جُٹ کام کرو گے،تو سمجھو میری آتما شانت رہے گی۔میں سمجھوں کا میرا مشن آگے بڑھا ہے۔ اپنا ایک لیڈر چن کر اس کی تابعداری کسی گرو کی مانند کرنا۔ اسی میں تم لوگوں کی فتح ہے۔
ان دو راستوں کے علاوہ اگر کوئی اور بات کسی کے ذہن میں ہے تو وہ میری استھیوں کو ہاتھ بھی نہ لگائے۔آگے جو کچھ کرنا ہے وہ تمہارا لیڈر یا گرو تمہیں بتا دے گا۔ واہگرو جی کا خالصہ ، واہ گرو جی کی فتح۔“ ایک دم سے خاموشی چھا گئی تھی۔ کتنی دیر تک کوئی نہیں بولا۔آخر رونیت کور ہی نے کہا۔
”بولو، کیا کہتے ہو ،میں نے تو دوسرا راستہ چن لیا ہے۔
جسے پہلا راستہ پسند ہے،وہ ابھی جا سکتا ہے ،اس پر کوئی گلہ نہیں ہوگا۔“
”دھرم کو کون چھوڑ سکتا ہے رونیت۔ ہمارا جینا مرنا اسی کے لیے ہے۔“ ابھیت نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا اور اپنا ہاتھ استھیوں والے گڑوے پر رکھ دیا۔ اگلے چند لمحوں میں سبھی نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ایک طرح سے حلف دے دیا۔ ”قسم ہے مجھے اپنے گرو کی جو بھی اب ہمارا گرو ہوگا، اس کا حکم ہم پر فرض ہے۔
“
سبھی نے اس کے ساتھ اونچی آواز میں دہرا دیا۔ وہ قسم دے کر اپنی اپنی جگہ پر جا بیٹھے توچند لمحے بعد پروفیسر کی بیوی نے کہا۔
”پتر!یہ استھیاں اب تم لوگوں کے حوالے جب وقت ملے تو اسے فتح گڑھ صاحب لے جا کر جل پروا کر دینا۔ “
”نہیں آپ ہمارے ساتھ جائیں گی۔“ رونیت نے تیزی سے کہا۔
”وہ تم جب جاؤ اور ہوسکے تو مجھے بھی لے جانا۔
“ یہ کہہ کر وہ ان کے درمیان سے اٹھ کر اندر چلی گئی۔
”دیکھو۔ اب ہم نے اپنا لیڈر چننا ہے ، یہ کیسے ہوگا، اگر گرو جی کوئی اشارہ دے جاتے تو…“ ابھیت نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ تبھی اب تک خاموش بیٹھا ہوا ہرپال بولا۔
”ایک حل تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر بندہ اس شوٹر کو تلاش کرے جس نے پروفیسر پر گو لی چلائی، جو پہلے تلاش کر لے گا ، وہی لیڈر۔
“
”یہ ٹھیک نہیں، اس کا مطلب ہے ہر بندہ لیڈر بننے کی خواہش لے کر نکلے گا۔ ایسا نہیں۔ میرے خیال میں ہر بندہ ایک کاغذ لے اور اس پر اپنے سوا اس کا نام لکھے، جسے وہ لیڈر مان سکتا ہے۔ جسے زیادہ مانیں گے ، وہی لیڈر ہوگا۔“ ابھیت سنگھ نے گہری سنجیدگی سے کہا تو سبھی مان گئے۔ رونیت کاغذ لے آئی۔ کچھ دیر بعد جب چھ لوگوں کی طرف سے جسپال کا نام آیا تو وہ چونک گیا۔
”ہم تمہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں۔“ہرپال نے کہا۔
”وجہ۔ میں تو تم لوگوں کے درمیان…“ اس نے کہنا چاہا تو ابھیت بولا۔
”کم از کم میں اپنے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ میں نے تم میں وہ دیکھا ہے،جو کم از کم ہم میں نہیں۔“
”تمہیں ماننا ہو گا۔“رونیت نے کہا۔
”یہ بحث نہیں ہے، میں ایک جگہ ٹھہر نہیں سکتا۔ لیڈر تو وہ ہو جو ایک جگہ ٹھہر کر تم لوگوں کی لیڈ کر سکے۔
اگر میں کہوں کہ سندیپ کو لیڈر بنا لو تو یہ بہتر رہے گا۔“ جسپال نے کہا تو سندو بولا۔
”میں کیسے ، میں تو…“
”فی الحال تو یہ ذمہ داری لو، پھر بعد میں دیکھیں گے۔“ جسپال نے کہا تو ابھیت سنگھ نے اسی وقت استھیوں والے گڑوے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں قسم کھاتا ہوں کہ میں تمہارا وفادار رہوں گا اور سکھ دھرم کے لیے جان بھی دینی پڑی تو دوں گا۔
“
اس کے بعد سبھی نے یہی عمل دہرایا تو سندو کے لیے مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہ رہی۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا۔ پھر بڑے ہی گھمبیر لہجے میں بولا۔
”تو پھر سنو۔ ہم آج ہی چندی گڑھ چھوڑ دیں گے ، مگر ہمارے کان اور آنکھیں اِدھر ہی رہیں گے۔ کرتار پور صاحب میں استھیاں جل پروا (راکھ پانی کی نذر ) کرنے کے بعد ہمارا ٹھکانہ کون سا ہوگا، یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔
فوراً نکلنے کی تیاری کی جائے۔ “ یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ سب باہر جانے لگے۔
جسپال رونیت کور کے اپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ رونیت کور تیزی سے سامان کے نام پر اپنے کپڑے اور لیپ ٹاپ کے ساتھ کچھ دیگر الیکٹرونکس کی چیزیں اٹھا رہی تھی۔ وہ بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ وہ تیار ہوچکی تو جسپال نے پوچھا۔
”چلیں۔“
”اوکے۔“رونیت نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ چند لمحے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے رہے ، تبھی رونیت ایک دم سے پلٹ گئی۔ اس نے بیگ اٹھایا، اور جسپال کے ساتھ باہر نکل گئی۔ پروفیسر کی بیوی اس کے انتظار میں تھی۔
کرتار پور تک کوئی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا جس سے انہیں شک ہو کہ دشمن ان کے پیچھے ہے۔ وہ چار گاڑیوں میں کرتار پور صاحب کے گرو دوارے جا پہنچے۔ انہوں نے پہلے جا کر ماتھا ٹیکا اور پھر پروفیسر کی استھیاں قریب بہتے ہوئے دریائے ستلج میں بہادیں۔
جل پروا، رسم کے بعد سندیپ عرف سندو نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”اب ہم واپس چندی گڑھ نہیں جائیں گے۔ ہمارا ٹھکانہ اب جالندھر ہوگا۔ یہاں سے ہر بندہ اکیلا اکیلا نکلے گا اور مختلف وقت میں جالندھر پہنچے گا۔اگر اس وقت دشمن ہماری تاک میں ہے تو اسے لگے کہ ہم جالندھر میں گم ہو گئے ہیں ، یا یہیں سے کہیں دوسری طرف نکل گئے ہیں۔ سمجھو جالندھر ہی میں دشمن کی نگاہوں سے اوجھل ہوناہے۔
کہاں ملنا ہے ، یہ میں تمہیں ایس ایم ایس کر دوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔
رونیت کار چلا رہی تھی۔جسپال پچھلی نشست پر اور پروفیسر کی بیوی اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔وہ تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔اس کی سندو سے بات ہو چکی تھی اور جالندھر بالکل نزدیک آ گیا۔ تبھی اس نے ایک دم سے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔
”رونیت، میں جس مقصد کے لیے چندی گڑھ گیا تھا، وہ تو ہو چکا۔
وقت آ گیاہے کہ مجھے اب جانا ہوگا۔“
اس پر رونیت کور نے شدت حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تیزی سے کہا۔
” تم اکیلے کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے ؟ ہم تمہیں اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ اپنا لیڈر مان رہے ہیں ، اب جبکہ وقت آ گیا ہے تو ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہو ؟ تم نہیں جا سکتے۔“
”میں تم لوگوں سے الگ نہیں ہو رہا ہوں،بلکہ جہاں کہیں بھی ہوں گا تم لوگوں سے جڑا رہوں گا ، ایسی ہی توقع میں تم لوگوں سے بھی رکھوں گا۔
اب مجھے یہاں سے جانا ہوگا۔“ اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
”میں تمہیں روک نہیں سکتی لیکن اگر تم ہمارے ساتھ رہو تو یہ زیادہ اچھا ہوگا۔“ وہ بے بسی سے بولی۔
”تم مجھے اپنے قریب ہی پاؤ گی۔“ جسپال نے کہا تو وہ کچھ دیر خامو ش رہنے کے بعد بولی۔
”تمہیں یہ بات اب سندو کو بتانا چاہئے۔“
”اوکے۔ “ میں نے کہا اور سندو کو فون ملا دیا۔
ؤ…ؤ…ؤ