” کیا ہوا تجھے ؟“
” کچھ نہیں، اب جو چاہو کرو، میرا بدن حاضر ہے۔“ سندیپ نے میری طرف یوں دیکھ کر کہا جیسے اس نے اپنا آپ مجھے سونپ دیا ہو۔بانیتا کور نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس سے پھر پوچھا لیکن میری سمجھ میں سندر لعل کی بات گونج گئی تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ یہ مہک صنف نازک کو پاگل کر دینے والی ہے۔ کیا سندیپ اس قدر پاگل ہو گئی ہے؟ بانیتا کور بھی تو صنف نازک سے تعلق رکھتی ہے، اس کچھ کیوں نہیں ہوا؟میں نے بانیتا کور کو اشارہ کیا، وہ باہر نکل گئی ۔
میں اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے محبت پاش نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بولی
” کوئی اتنی جلدی مجھ تک نہیں پہنچ سکتا، میرا اپنا ہی کوئی مجھے پہچان سکتا ہے ۔“
” میں تو تمہارا اپنا نہیں ہوں، تم نے کیسے جان لیا کہ میں تمہارا اپنا ہوں۔
(جاری ہے)
“ میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
”یہ مہک دنیا میں کوئی دوسرا نہیں لگا سکتا۔
یہ صرف ہمارے ہی لوگ لگاتے ہیں۔“ اس نے کہا تو میں سندر لعل اور جسپال سنگھ کی باتیں میرے دماغ میں گھوم گئیں۔ میں نے اُسی لمحے پینترا بدلتے ہوئے کہا
” تو پھر یہ بہت بڑی کمزوری ہوئی۔ کیا اتنا اثر لیتے ہو تم لوگ؟ کیا باقی لڑکیاں بھی اسی طرح مدہوش ہو جاتی ہیں؟ “
” نہیں،ایسا نہیں ہے ، شاید دوسری ایسی مدہوش نہ ہوتی ہوں لیکن میں ہو جاتی ہوں۔
یہ مہک میرے تن بدن میں رچ چکی ہے۔ وہ بھی ایسی ہی مہک لگاتا ہے۔ جس نے مجھے اک نئے جہان سے آشنا کیا۔ یہی مہک میرا بدن مہکا دیتی ہے، آ گ لگ جاتی ہے مجھے، آؤ اب دیر مت کرو، مجھے جھنجھوڑ ڈالو …“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے بدن پر پہنی ہوئی مختصر سی شرٹ زور سے پکڑ کر پھاڑ دی۔ وہ پورے سینے سے بر ہنہ ہو گئی۔ میں نے اس کی آ نکھوں میں دیکھا اور نرمی سے کہا
” ابھی وقت نہیں، “ پھر باہر کی جانب اشارہ کرکے کہا،” میں اُسے بھیج دوں، اتنے میں تم فریش ہو جاؤ۔
پھر بیڈ روم میں چلتے ہیں۔“
میرے یوں کہنے پر وہ ایک دم سے مان گئی۔ وہ اٹھی اور کسی ربورٹ کی طرح باتھ روم کی جانب چل دی ۔ اس نے دروازہ کھلا رہنے دیا۔اتنے میں بانیتا کور نے جھانک کر دیکھا تو میں نے اشارے سے اُسے بلایا اور اس کی جانب اشارہ کر کے چپ چاپ نکل گیا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اُسے کیا کرنا ہے ۔
تقریباً آ دھے گھنٹے بعد وہ پورا لباس پہنے آ گئی ۔
وہ کافی حد تک ہوش میں تھی۔ میں نے اُسے خود سے پرے رکھا۔ میں نے وہاں موجود لوگوں کو کچھ کھانے کے لئے کہا تھا ، وہ کافی کچھ پھل، بسکٹ اور کیک کے ساتھ چائے دے گئے۔ ہم ڈائنگ ٹیبل کے اطراف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے میری جانب دیکھا اور شرمندہ سے انداز میں کہا
” سوری، میں پاگل ہو گئی تھی۔“
” دیکھو۔! ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں، بلکہ تمہارے دوست ہیں۔
ہم تمہیں قطعاً نقصان نہیں پہنچانے والے بلکہ ہم تو بچن کور کے …“
” بچن کور، تم جانتے ہو اُسے ؟“ اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا
” ہاں، میں جانتا ہوں اور اسی کے کہنے پر یہاں آئے ہیں، اور اب تمہیں واپس لے کر جانا ہے ، تم غلط ہاتھوں میں پھنس چکی ہو ، یہی تمہیں بتانا تھا، ٹھہرو،میں تمہاری بچن کور سے بات کراتا ہوں۔“ میں نے کہا اور سیل فون پر نوتن کور کے نمبر ملائے۔
کچھ ہی دیر بعد رابطہ ہوگیا۔ وہ ہمارے ہی انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
” ہیلو۔! کیا ہوا ، وہ ٹھیک تو ہے۔“
” اب قدرے نارمل ہے۔ بچن کور سے بات کرنا چاہتی ہے۔“ میں نے کہا تو وہ بولی
” یہ ساتھ ہی بیٹھی ہے۔“ اس نے کہا تو بلاشبہ اس نے فون بشن کی جانب بڑھا دیا۔ تبھی اس نے ہیلو کہا تو میں نے فون سندیپ کور کی جانب بڑھا دیا۔ وہ کچھ دیر باتیں کرتی رہیں۔
یہاں تک کہ سندیپ کور رونے لگی۔ آخر میں اس نے یہی کہا
” ٹھیک ہے جیسے تم کہو، میں وہی کروں گی۔“ یہ کہہ کر اس نے فون میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے اس سے بات کرکے فون بند کردیا۔ اس نے مجھے یہی بتایا کہ ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں ہیں۔ میں نے فون جیب میں رکھا اور اُسے کھانے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کھانے لگی اور اس دوران روتی رہی ۔
میں نے اُسے رونے دیا۔ پھر یکلخت بولی
” پوچھیں، کیا پوچھنا ہے آپ لوگوں نے ؟“
” کچھ بھی نہیں۔ تم کھانا کھاؤ بس ۔“
وہ سکون سے کھانے لگی۔ پھر خود ہی بتانے لگی۔
” میں امرتسر سے ہوں ۔ اور وہیں سے آئی ہوں۔ مجھے بتاؤ تمہارا وہ انسٹیٹیوٹ کہاں ہے امرتسر میں؟“ بانیتا کور نے پوچھا تو وہ بتانے لگی۔سندیپ کور ہر وہ بات بتاتی چلی گئی جو بھی اس سے پوچھا گیا۔
میں نے پہلی بار کسی کو ایسے دیکھا تھا ، جس نے اتنی نفرت دکھائی اور پھر اس قدر تابعداری سے سب کچھ بتائے چلی جا رہی تھی۔ اس وقت صبح کے آثار واضح ہونے لگے تھے ۔ جب بانیتا کور اُسے ایک کمرے میں چھوڑ آئی ۔
میں اس وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس پر اعتبار کروں یا نہ کروں اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ خوشبو نے مجھے چکرا کے رکھ دیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ان کا آ پس میں ضرور کوئی تعلق ہے۔
اور وہ باس بھی اس سے کہیں الگ نہیں تھا۔ یہ راز کب کھلے گا، مجھ اسی کا انتظار تھا۔ میں جلد از جلد باس تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔ میں سویا نہیں، بلکہ میں نے سب سے پہلے اروند سے رابطہ کیا۔ اُسے ایسے ہی ادارے کے بارے میں بتایا۔ اروند نے اسی وقت کراچی سے فہیم کو آن لائن لے لیا۔وہ سبھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔میں نے تھوڑی سی نیند لینے کے بارے میں کہا اور اپنے کمرے میں آ کر سونے کی کوشش کرنے لگا، لیکن مجھے نیند نہیں آئی ۔
میں بیڈ پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ مجھے سندر لعل کے خط کا خیال آیا۔ میں اٹھا اور اپنے سامان کی طرف گیا۔ وہاں سے وہ پیکٹ لیا جس میں دوائیاں اور لفافہ تھا۔ میں نے لفافہ کھولا۔ اس میں دو پرچے تھے۔ ایک پر فارمولے کی زبان تھی اور دوسرے میں ان دونوں دوائیوں کے بارے میں درج تھا۔وہ دوا جو پہلی دوائی کا اثر توڑنے والی تھی۔ سندیپ کور کے بالکل ٹھیک تھی۔
میں نے درج ہدایات کے مطابق وہ دوا لی اور سندیپ کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ ایک گلاس پانی میں ایک قطرہ دینا تھا۔ وہ سونے کی کوشش میں تھی ۔ میں وہ پانی اُسے دے کر پینے کو کہا۔ وہ پانی پی گئی ۔ میں وہاں سے آ گیا۔ سونے سے پہلے میں اس سیف ہاؤس کے ہیڈ کو الرٹ کر دیا۔ میں چاہتا تھا کہ تھوڑی دیر نیند لے لوں۔
#…#…#