” میں تو تھی ان پڑھ، جیسے سمجھ میں آیا زندگی گذارتی رہی، انتقام کی آگ میں سلگتی رہی، وہ پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ سمجھو، وہ اگر چراغ کی طرح خود جل رہی ہے نا تو اس نے کئی دوسرے چراغ بھی روشن کر دئیے ہیں۔“اماں نے کہا تو میں سمجھ گیا۔ وجود اور روح کے درمیان جان موجود ہوتی ہے ، تبھی زندگی چلتی ہے۔ اب روح کون ہے یا وجود کون ، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
میں اٹھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔
سہ پہر تک باتیں چلتی رہیں۔ نور نگر کے بارے میں ہر ایک کے بارے میں تانی، سارا اور اس کے بیٹے کے بارے میں۔ وہاں کی سیکورٹی کے بارے میں چھاکے نے بتایا تو میں مطمئن ہو گیا۔میں نے اپنے بارے میں بتایا۔ سہ پہر کے بعد اماں نور نگر جانے کو تیار ہوگئیں تو میں نے حیرت سے پوچھا۔
(جاری ہے)
” اماں اتنی جلدی کیوں؟“
” بیٹا، وہاں میری زیادہ ضرورت ہے۔
میری مامتا سے زیادہ،تجھے پیغام دینا ضروری تھا۔ میں نے تجھے رَبّ کے حوالے کیا ہے ، اب وہی تیرا رکھوالا ہے ۔“ یہ کہہ کر انہوں نے میرا ماتھا چوما اور جانے کے لیے بڑھ گئیں۔ میں پورچ تک ان کے ساتھ گیا۔ وہ کار میں بیٹھیں اور چل دیں۔ ایک بار تو میرا دل عجیب سا ہوا ، پھر مجھے اطمینان سا آتا چلاگیا۔
میں واپس آ کر ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہی تھا کہ گیت کی کال آ گئی ۔
” تم کدھر ہو؟“
” میں لاہور میں ہوں۔ “ میں نے جواب دیا
” یہاں بات بہت آگے تک بڑھ گئی ہے ۔ سیٹھ نیلا اور اس کے پس پردہ باس ایک طرف ہیں اور اس کے مخالفین ایک طرف کھل کر سامنے آگئے ہیں۔“ اس نے پرجوش لہجے میں کہا۔
” مطلب وہی کچھ جو تم لوگ چاہ رہے تھے؟“ میں نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
” اس سے بھی آ گے، تمام تر ڈیٹا حکومتی اداروں اور سیٹھ نیلا کے مخالفین کو دے دیا ہے۔
اب بس چھاپے ہی پڑنے ہیں لیکن اس سے ایک بہت ہی اہم بات سامنے آئی ہے ۔“اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے بتایا
” وہ کیا؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
” سیٹھ نیلا کا جو پس پردہ باس ہے ، وہ اس وقت دوبئی میں ہے ۔ اس کا صرف یہی بزنس نہیں ہے ۔ وہ اسلحہ اور منشیات کے دھندے میں بھی ملوث ہے ۔ کراچی کے کچھ علاقے اس نے اپنی سلطنت بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن ‘جو بات ہمیں معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ چند غیر ملکی ایجنسیوں کے لوگ موجود ہیں، جنہیں یہ یہاں کے مقامی لوگوں کے ذریعے تحفظ دے رہا ہے۔
“اس نے بتایا
” ظاہر ہے وہ لوگ جرائم پیشہ لوگ ہوں گے۔ خیر، یہ بتاؤ یہ بات کہاں سے اور کیسے معلوم ہوئی؟“ میں نے پوچھا تو وہ تیزی سے بولی۔
” فہیم کے جدید آلات بہت کار آمد ہیں۔ وہ اس باس کی اور مخالفین کی باتیں مسلسل سن رہا ہے ۔ مخالفین نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر وہ باس کوئی نقصان کرے گا تو پھر اس کے لوگ بھی غیر ملکی ایجنٹوں کو اٹھا لیں گے۔
“
” یہ معلوم ہوا کہ وہ ایجنٹ کون ہیں اور وہ کیا کارروائی کر رہے ہیں ؟“ میں نے پوچھا۔
” نہیں، ابھی یہ پتہ نہیں چلا۔“ گیت نے بتایا
” تو پھر تم لوگوں نے کسی ایجنٹ کو اٹھایا ہے ابھی تک؟“ میں تیزی سے پوچھا۔
”تمہیں ہی بتانا تھا، ہمارا تو ارادہ ہے ۔“ اس نے سوالیہ انداز میں کہا۔
” ہاں دیکھو تو سہی وہ کون لوگ ہیں۔
“ میں نے کہا۔
” ابھی فہیم اور مہوش لاہور پہنچ رہے ہیں۔ باقی باتیں وہ بتائیں گے۔ “ اس نے کہا پھر الوداعی کلمات کے ساتھ فون بند کردیا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ پہنچ گئے ۔ انہیں وہی ڈرائیور چھوڑ کے گیا تھا جو مجھے یہاں لایا تھا۔ وہ آتے ہی ایک کمرے میں گھس گئے ۔ بظاہر وہ ایک ایسے لڑکے کا کمرہ تھاجسے کمپیوٹر کا جنون ہوتا ہے ۔ اس دوران فہیم نے مجھے سمجھا دیا کہ کراچی میں ہونے والی کارروائی میں ہم یہاں بیٹھ کر بھی آڈیو اور وڈیو آلات کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں۔
جب تک دارا چائے بنا کر لایا۔ انہوں نے اس کمرے کو کنٹرول روم کی صورت دے دی ۔ ہم وہیں چائے پیتے ہوئے باقی لوگوں کے رابطے میںآ گئے۔ سامنے اسکرین پر زویا، گیت، سلمان، جنیداوراکبر علی دکھائی دے رہے تھے۔ تبھی اکبر نے کہا۔
” صورت حال بڑی خطرناک ہو گئی ہے۔ سیٹھ نیلا کو اپنا کام ختم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی اپنے مخالفین کو دھمکیاں بڑھ گئی ہیں۔
“
”یہ دھمکیاں ہی دیں گے یا کچھ کریں گے بھی؟“ میں نے پوچھا۔
”اصل میں ایک تیسری قوت بھی ان میں آ گئی ہے۔جو دونوں کے معاملات حل کروانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ خود ہی ان میں جنگ کروا دیں اور وہ تیسری قوت ہم خود ہی ہیں۔“ اکبر علی نے سنجیدگی سے کہا۔
” تو پھر دیر کس بات کی ہے؟“
” بس یہی کہ پہلا وار کس طرف کیاجائے۔
ایک طرف ایک ایجنٹ ہماری نگاہ میں آ گیا ہے تودوسری طرف شاہ فیصل کالونی میں ایک اڈا، جہاں سے اسلحہ کی ڈلیوری ہو رہی ہے ۔“
” ایجنٹ اٹھاؤ۔“ میں نے کہا تو وہ اٹھتا ہوا بولا۔
” ڈن ہو گیا۔“
زویا، سلمان ، جنید بھی اس کے ساتھ اٹھ گئے ۔ گیت وہیں رہ گئی۔ زویا اور سلمان ایک کار میں ہو گئے اور اکبر کے ساتھ جنید بیٹھ گیا۔ وہ کاروں میں نکل پڑے ۔
اسکرین پر چار منظر دکھائی دینے لگے۔ ان تینوں کے ساتھ ہم بھی وہیں تھے۔
سورج مغرب میں چھپ چکا تھا۔ شہر کی روشنیاں جل اٹھیں تھیں۔وہ آگے پیچھے چلتے ہوئے گزری روڈ پر آ گئے ۔ ان کا رخ ڈی ایچ اے سیون کی طرف تھا۔ کچھ دیر ہی میں وہاں پہنچ گئے ۔ ایک کار اس کے گھر کے دائیں جانب ، دوسری بائیں جانب کھڑی ہوگئی۔ تب گیت تیزی سے کمپیوٹر کے ساتھ منسلک سیل فون پر اسی ایجنٹ کے نمبر پررابطہ کرنے لگی تھی، جسے اغوا کرنے کے لیے وہ جا رہے تھے۔
اس کمپیوٹر میں ایسا سوفٹ وئیر تھا، جس سے کال کرنے والا اپنا نمبر دینے کی بجائے کوئی بھی نمبر دے سکتا تھا ۔ کال سننے والے کو اپنے سیل فون اسکرین پر وہی نمبر دکھائی دے گا ، جو کال کرنے والا دینا چاہتا تھا ۔ اس لیے یہی سمجھا جانا تھا کہ کال اسی سیل فون سے آئی ہے۔ وہ آنکھیں بند کرکے اس پر اعتماد کر سکتا تھا۔
” میں دوبئی میں موجود باس والا نمبر دے کر کال کر رہی ہوں۔
غور سے سننا سب ، بات کیا ہوتی ہے ۔“
سب خاموش ہوگئے۔ بیل جانے لگی۔ چند لمحے بعد دوسری طرف سے ہیلو کہا گیا۔ گیت نے کسی تمہید کے بغیرانتہائی سنسنی خیز انداز سے انگریزی میں کہا۔
” سنو‘ تمہاری جان کا خطرہ ہے ۔ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر فوراً نکلو۔“
” مگر کہاں ، مجھے کون مارنا چاہتا ہے اور تم کون ہو ؟“دوسری طرف سے جواب آیا
” وقت ضائع کرنا ہے تو ٹھیک ، مری بات سننی ہے تو سن لو ۔
“ گیت کا لہجہ تحکمانہ تھا
” اوکے ۔“
” باہر نکلو، میں نے تمہاری سیکورٹی کے لیے کچھ بندے بھیجے ہیں۔ یہاں سے ایسے نکلنا کہ کسی کو پتہ نہ چلے ۔ کیونکہ پتہ چلا ہے کہ تمہاری سیکورٹی سے کچھ بندے دشمن کے ساتھ ہیں۔ صرف ان تک پہنچ جاؤ ، باقی وہ سنبھال لیں گے ۔“ گیت نے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن اس کا لہجہ وہ حکم دینے والا ہی تھا۔
” کیا تم میری باس سے بات کروا سکتی ہو ۔
“ اس نے بے اعتماد ہوتے ہوئے کہا۔
” وہ بزی ہیں، انتظار کرو۔اتنی دیر میں اگر تم مر گئے تو تمہارے اوپر والوں کو جواب دے دیا جائے گا۔“ گیت نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اسے پوری اُمید تھی کہ وہ کال بیک کرے گا۔فہیم نے اس کا نمبر ہیک کر لیاتھا۔ اس نے جیسے ہی کال ملائی ، وہ سیدھے گیت کے سیل فون پر گئی۔
” بولو۔اب کیاہے۔ سمجھ میں نہیںآ ئی میری کوئی بات ؟“ وہ یوں ترش لہجے میں بولی جیسے ابھی کھا جائے گی۔
” نہیں نہیں، میرا مطلب تم نے یہ بتایا ہی نہیں کہ مجھے کن کے ساتھ جانا ہوگا۔“
” نہیں تمہیں اعتماد نہیں اس لیے تم اپنی مرضی کرو۔ یہاں تک کہ دشمن تمہاری کھوپڑی میں سوراخ کر دیں کیونکہ وہ اس وقت تمہارے ارد گرد ہیں۔صرف حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔ تم کیسے ایجنٹ ہو ، شہر میں ہونے والی اتنی بڑی واردات کے بارے میں نہیں جانتے ہو ۔
ان کا اگلا قدم ہمارے دوست مارنا ہے ۔ اس وقت ایمر جنسی ہے اور تمہیں سمجھ نہیں آ رہی ۔گٹ لاسٹ اور یہیں بیٹھ کر مرو۔ “
” نہیں نہیں بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔“اس نے تیزی سے کہا۔
” اوکے ۔ کال سنتے ہوئے اسی طرح باہر نکلو۔تم واک کے لیے نکلے ہو، یہی تاثر دینا۔ وہی دو گارڈ اپنے ساتھ لو جو روزانہ جاتے ہیں۔ کسی کو شک مت ہونے دینا ۔ اپنا پسٹل لے کر نکلو، میں گائیڈ کرتی ہوں ۔“
” اوکے میں نکل رہا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سیکورٹی والوں کو آواز دی۔ انہیں ساتھ لیا اور باہر کی جانب چل دئیے۔” میں گیٹ سے باہر آ گیا ہوں۔“