میرے پیچھے سمندر کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں تھیں۔انڈیا گیٹ سے مشرق کی جانب کافی فاصلے پر میں ایک بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔وہاں لوگوں کا کافی رش تھا۔ہر طرف لوگ سیر سپاٹے اور موج مستی کے لیے پھر رہے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد جوڑوں کی تھی۔ مجھ سے ذرا فاصلے پر ایک موٹا سا شخص گٹار پر اپنی بھدی آواز میں نجانے کس زبان میں کوئی گیت گا رہا تھا۔میں اندر سے بے چین اور بظاہر پر سکون تھا۔
مجھے وہاں بیٹھے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہو گیا کہ میرا سیل فون بجا۔ وہی نمبر تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا ، وہیں موجود تھا۔ چند منٹوں میں وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ وہ چھریرے بدن کا ادھیڑ عمر شخص تھا۔ موٹے نقوش ،سیاہ رنگ اور سرخ آنکھیں۔ غیر معمولی طور پر اس کی آواز بھاری تھی۔
”تم مجھے شیوا کے نام سے پکا ر سکتے ہو اورتمہیں آج رات یہاں سے نکلنا ہے۔
(جاری ہے)
“ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”مگر یہاں تو ڈیوڈ…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولا۔
”اس کے لیے ابھی وقت چاہئے۔ وہ صرف ایک چھوٹا سا گروہ یا کسی مافیا کا نیٹ ورک نہیں ہے۔ اس میں حکومتیں شامل ہیں۔حکومت کا مطلب، تمام فورسزاور اس کے پیچھے ان کی پوری قوت۔“
”تم مجھے ڈرا رہے ہو یاان سے مرعوب کر رہے ہو؟“ میں نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”ایسا کچھ بھی نہیں ہے ،یہ نیٹ ورک توڑنا ہے ، مگر اس کے لیے تھوڑا صبر، گہر ی پلاننگ اور طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ اکٹھی کر لو ، میں تمہیں یہیں ملوں گا۔“ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا تو میں ایک دم سوچ میں پڑ گیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ میرے پاس اگر ارادہ اور حوصلہ ہے تو قوت بھی ہونی چاہئے۔ ابھی تو مجھے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ڈیوڈ ربینز سے بات کہاں تک پہنچی ہوئی ہے۔
زمینی سطع سے لیکر حکومتی ایوانوں تک کتنی مضبوط چین ہے۔ جب تک مجھے ان کے بارے پتہ نہیں ہوگا ، تب تک ہوا میں تیر مارنے کا کائی فائدہ نہیں تھا۔
”کیاکہتے ہو تم ؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ تو میں کہہ چکا۔ تجھے آج رات یہاں سے نکلنا ہے۔ اٹھو اور چلو میرے ساتھ۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے پھر سے میری آنکھوں میں دیکھا۔ میں اٹھ گیا۔
ہم وہاں سے پیدل ہی نکلے تھے۔
مختلف سڑکیں پار کرتے ، گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک گھر میں چلے گئے۔ وہاں مجھے مقامی ماہی گیروں کے جیسے کپڑے دئیے گئے۔ وہاں کچھ لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم سب وہاں سے نکلے اور ممبئی ڈیک پر آ گئے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے چھوٹے بڑے جہاز ، اسٹیمر، ماہی گیروں کی کشتیاں سمندر میں جاتی تھیں۔ سامنے لوہے کا پھاٹک تھا، جس پر دو سنتری کھڑے تھے۔
وہ ان ماہی گیروں کا اجازت نامہ دیکھ رہے تھے۔ شیوا ان سب سے آ گے تھا۔ اسے دیکھتے ہی دونوں سنتری خوش ہو گئے۔ اس نے جاتے ہی ایک سنتری کے ہاتھ پر کچھ نوٹ رکھے، جو اس نے فوراً چھپا لیے۔اجازت نامہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی اور ہم بڑے آرام سے آگے بڑھ گئے۔ڈیک پر مختلف اقسام کی کشتیاں لگی ہوئی تھیں۔ان میں نسبتاً ایک بڑی کشتی جسے وہ چھوٹا جہاز کہہ رہے تھے ، اس میں جا بیٹھے۔
کچھ دیر بعد انجن اسٹارٹ ہوا اور ہم ممبئی سے بحیرہ عرب کے گہرے پانیوں کی طرف چل پڑے۔شیوا میرے پاس نہیں آیا۔ وہ اپنے ساتھی ماہی گیروں کے ساتھ مصروف رہا۔ میں انجن والے کیبن میں پڑا تھا اور اپنی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔مجھے بھارت سے نکل جانے کااندازہ ہو گیا تھا۔
تقریباًرات کے دو بجے کا وقت ہوگا جب گہرے پانیوں میں ایک دوسری کشتی کے قریب جا پہنچے۔
دھیرے دھیرے وہ ساتھ لگی تو شیوا نے مجھے کیبن سے باہر آنے کو کہا۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے ساتھ لگی کشتی میں جانے کو کہا، جس میں چند لوگ کھڑے منتظر تھے۔ میں اس میں کود گیا۔ اس نے ہاتھ ہلایا اور پھر کیبن میں چلا گیا۔ میرے والی کشتی چل پڑی۔ نئی کشتی والے لوگ مجھے کیبن میں لے گئے جہاں تیز روشنی تھی۔میں ایک دم سے ٹھٹک گیا۔ میرے سامنے کرنل سرفراز بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ مجھے دیکھ کر اٹھ گئے۔
”کرنل آپ ؟“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا
”ہاں میں،آؤ بیٹھو۔“انہوں نے مجھے گلے لگایا اور پھر ایک بیڈ نما جگہ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔باقی لوگ باہر نکل گئے۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ یہاں پر ہو گے۔“ میرے کہنے پر وہ ذرا سا مسکراتے ہوئے بولے۔
”یہ دنیا ہے ، اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن تم اس وقت سے میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو،جب سے تم میرے پاس تھے۔
تم میری ذمے داری میں ہو۔“ یہ کہہ کر انہوں نے مسکراتے ہوئے دیکھا پھر بولے۔
”تمہیں میلے سے اٹھا لیا گیا، یہ بے پروائی نہیں تھی۔ بس تجھے خبر نہیں کی گئی تھی۔تجھے جال میں سے اٹھانے سے قبل تیری حفاظت پر مامور لوگ آ گئے تھے ، مگر ان کا پلان بہت مضبوط تھا۔اب تمہارا گھر محفوظ ہے۔ کیونکہ یہ اب میری ذمے داری میں ہے۔“
” یہ ذمے داری کس نے دی کرنل ؟“ میں نے ہمت کرکے پوچھا تو گہری سنجیدگی سے بولے
” میں نے خود لی ہے یہ ذمہ داری، جس طرح نیکی اور بدی کے درمیان ایک واضح لکیر ہے اسی طرح انسانیت اور شیطانیت کے درمیان بھی لکیر ہے۔
کون کس طرف ہے ، یہ اب تم اچھی طرح جانتے ہو ، اسی باعث ذمہ داری لی ہے میں نے۔“
”میری بس اب یہی آرزو ہے کہ میں ڈیوڈ ریبنز کا نیٹ ورک تباہ کردوں۔اس نے بہت غلط…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے انتہائی جذباتی لہجے میں بولے۔
”اس جیسے نجانے کتنے ہیں اس وقت بھارت میں ہیں، تم کس کس سے لڑو گے۔اسے بھول جاؤ اور اب ہمیں کچھ ایسا کرنا ہے ، جس سے ان سب کی ہمت جواب دے جائے، ان پر ہمارا خوف مسلط ہو جائے۔
یہودیوں نے تو یہاں جگہ بنانی ہے ، اصل قصور وار تو وہ ہیں جنہوں نے انہیں یہاں جگہ دی۔اگر جگہ دے بھی تو ان کا ملک ہے،جو چاہیں کر یں، لیکن وہاں بیٹھ کر اگر میرے وطن کے بارے میں بری سوچ رکھیں گے تو وہ دماغ ہی ختم کر دینا ہمارا فرض ہے۔ ہم یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔“
میں نے پہلی بار انہیں یوں جذباتی دیکھا تھا۔ اس لیے بڑی احتیاط سے پوچھا۔
” تو پھر مجھے یوں واپس کیوں ؟“
دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لیے رُکے اور پھر کچھ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر میرے سامنے رکھ دیں۔ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں کھانے لگا۔اس دوران وہ مجھ سے مختلف سوال کر کے بھارت میں ہونے والے واقعات پوچھتے رہے۔کیبن میں انجن کا شور تھا۔ ہم باہر کھلی فضا میں پڑی کرسیوں پرآ بیٹھے۔
تب میں نے پوچھا۔
”کرنل، آپ یہاں کیسے ؟“
”میرا ایک مقصد ہے اور میں اسی کی حفاظت میں ہوں۔“انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مقصد او ر حفاظت؟“ میں نے سمجھنے کے لیے پوچھا۔
”دیکھو۔مقصد کی حفاظت اصل حقیقت ہے،اس کے لیے جان دینی پڑے یا لینی پڑے، ایک ہی بات ہے۔اب یہ مقصد ہمارے اندر کس قدر راسخ ہے،یہ ہمارے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔
عمل بتا دیتا ہے کہ ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔انسان میں اچھائی اور برائی کی تمیز رکھی ہوئی ہے،اسی سے پتہ چلتا ہے۔یہ ہمارے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری آرزو کیا ہے۔اس کا اظہار ہماری ذات نے کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے اندر ہی پڑا ہوا ہے۔مقصد اسی وقت راسخ ہوتا ہے جب آرزو پیدا ہوتی ہے۔ “
”یہ کس طرح ہو جاتا ہے ؟“ میں نے پوچھا۔
”ہر اکائی اپنے اندر کائنات چھپائے ہوئے ہے۔
جیسے ایک بیج سے پورا درخت وجود میں آتا ہے۔ اکائی ہے تو اس کا ظہور ہے۔ اکائی وہ قوت ہے جس میں ہر قوت جذب،پنہاں اور سموئی ہوئی ہوتی ہے۔یہ بات میں تمہیں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ دیکھو۔ پوری انسانی صورت ایک قطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ ایک قطرے سے صورت اور صورت میں پھر سے قطرے کا ظہور ہوتا ہے۔ اس میں تخلیق کی آرزو ہوتی ہے۔یہ سارا پراسس یا عمل، لذت کے باعث اپنی تکمیل کرتا ہے۔
سمجھو ، تخلیق کی آرزو کی لذت قطرہ بن جاتی ہے۔یہی جسم و جان کا ملاپ ہے۔ اس سارے پراسس یا عمل میں لذّت ہی اہم ہے۔یہ لذّت وہ ہے جس میں تمام سراپا لذتیں پڑی ہوئی ہیں۔ جیسے کھانا پینا، سونا، دیکھنا۔ جب یہ لذت ظہور میں آتی ہے تو سراپا لذت ظہور میں آ جاتا ہے۔کیاہم اپنے حواس کی لذتیں نہیں جانتے۔ “
”مطلب، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی پراسس یا عمل اس وقت آگے بڑھتا ہے جب اس میں لذت ہوتی ہے۔
“ میں نے ان کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
”اب دیکھو ، دل ، عقل اور جسم رُو بہ عمل ہیں۔ عقل کے پاس تصور ہے، جسم کے ساتھ کردار ہے اور دل کے پاس عشق ہے۔ جب ان تینوں کا میل ہو جاتا ہے تو عمل وجود میں آتا ہے۔ تصور، کردار اور عشق کی لذتیں آرزو سے پیدا ہوتی ہیں۔ آرزو ہی مقصد کو وجود میں لاتی ہے۔یہی مقصد انسان کو عمل کے ذریعے تما م جہد اور پوری جانفشانی سے اسے، اس کے مقام انسانی تک پہنچاتا ہے۔اسی میں انسان کی عظمت ہے کہ وہ انسان ہے۔ وہ انسان جو خدائی کا دعوی کرتا ہے ، وہ مقامِ انسانیت سے گر جاتا ہے۔اب انسان خود دیکھ لے کہ اس کی آرزو کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔“
”مقام انسان کیا ہے ؟“ میں نے پوچھا۔