Episode 57 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 57 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

لاہور پر رات کے سائے پھیل چکے تھے۔ میں دوسری منزل پر اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے سبھی نے ڈنرلیا تو وہیں انسانی حقوق کی تنظیموں بارے جو معلومات مل چکی تھیں، اس بابت کافی گفتگو ہوئی تھی۔ میں اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔ مجھے ٹی ایس کی انفارمیشن کا بھی انتظار تھا۔ میں یونہی محض شک میں کسی پر دھاوا بولنے والا نہیں تھا۔
میں کسی سرے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ سب اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ ایسے میں میرے سیل فون پر چھاکے کی کال آگئی ۔ میں نے فون رسیو کیا تو وہ بڑے ضبط کے ساتھ حال احوال پوچھنے لگا۔
” تجھے ہوا کیا ہے چھاکے؟“ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا تو وہ لہجے کو نرم کرتے ہوئے بولا۔ 
 ” کچھ نہیں بس کل سے سویا نہیں ہوں، اس لیے آواز بھاری ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

“ 
” مجھے سچ بتاؤ ، تجھے ہوا کیاہے؟“ میرا تجسس بیدار ہو گیا تو اسی نرم لہجے میں بولا۔ 
” یار یہ تو پوچھ لے ، میں نے فون کیوں کیا ہے؟“
” چل ، بول کیا بات ہے۔“ میں نے کہا۔ 
” اصل میں کل سے اماں کی طبعیت کچھ اچھی نہیں ہے ۔ وہ کہتی تو نہیں لیکن مجھے احسا س ہے کہ وہ تجھے یاد کرتی ہیں۔“ اس نے بتایا
” چھاکے مجھے سیدھی بات بتا۔
“ مجھے کچھ اور ہی شک ہو نے لگا تھا۔ اس لیے تیزی سے پوچھا۔ 
” تُو تو ایویں ہی گھبرا گیا ہے۔ یہی موسمی بخار ہو گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر تم مصروف نہیں ہو تو ایک چکر نور نگر کا لگا لو، اماں کا دھیان بھی ذرا بٹ جائے گا اور ہم بھی تم سے مل لیں گے۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں یوں کہا جیسے وہ مجھ سے شکوہ کر رہا ہو۔ میں نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا۔
 
” ٹھیک ہے ، میں ابھی نکلتا ہوں۔“ 
” میں انتظار کرتا ہوں۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔ تب مجھ سے زیادہ دیر بیٹھا نہیں گیا۔ میں نیچے آیا ، جنید اس وقت باہر جانے کے لیے کنٹرول روم سے نکلا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر رک گیا۔
” کدھر جا رہے ہو؟“ میں نے پوچھا۔ 
” یہیں مارکیٹ تک، مجھے کچھ … “ اس نے جواب دیا تو میں کہا۔
 
” تم تیار ہو جاؤ ، ہم ابھی کہیں جا رہے ہیں۔“ 
” اوکے۔ “ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور واپس اپنے کمرے کی جانب مڑ گیا۔ میں کنٹرول روم میں جا کر انہیں جانے کا کہہ آیا۔
لاہور سے نکلے تو رات کا دوسرا پہر تھا۔ سیاہ ہنڈائی میرے پیروں کے نیچے تھی اور میں اسے اڑائے لیے چلا جا رہاتھا۔ اس وقت پوہ پھٹ رہی تھی ، جب میں نور نگر میں حویلی کو جانے والے راستے پر مڑ رہا تھا۔
میں آہنی گیٹ تک پہنچا تو سامنے چھا کا کھڑا تھا۔ گیٹ کھل گیا تو میں نے جیند کو گاڑی پارک کرنے کا کہہ کر خود اتر آیا۔ ہر طرف سکوت تھا۔ میں آگے بڑھا اور چھاکے کے گلے لگ گیا، وہ بڑی گرم جوشی سے مجھے ملا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ 
” چھاکے، سچ بتانا ، خیریت ہی ہے نا؟“
” سچی بات تو یہ جمال، اماں بہت بیمار ہے، تجھے بلانے کے لیے ہم سب نے کہا مگر وہ مانتی ہی نہیں ہیں۔
اب مجھ سے رہا نہیں گیا۔“ وہ روہانسا ہوتا ہوا بولا۔ 
” تو نے اچھا کیا مجھے بلا لیا، چل آ اماں سے ملتے ہیں۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور حویلی کی جانب چل پڑا تو اس نے بھی میرے ساتھ قدم بڑھا دئیے۔
 دوسری منزل کے بڑے کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے ہولے سے بجایا تو اندر سے اماں نے کہا۔ 
” آجاؤ۔“ 
میں نے دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔
اماں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے قرآن مجید کھلا ہوا تھا۔ ان کے بیڈ سے ذرا فاصلے پر بڑی سی چادر سے اپنا آپ ڈھانپے سوہنی نماز پڑھنے میں محوتھی۔ دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ ایک نور تھا جو اس سے پھوٹ کر متاثر کرتا چلا جا رہا تھا۔ میں چند لمحے اس کے چہرے کی تاب نہ لا سکا۔ میں نے اماں کی طرف دیکھا وہ مجھے دیکھ رہی تھیں۔
انہوں نے کلام پاک بند کر دیا تھا۔ میں آہستہ آہستہ ان کے قریب گیا اور ان کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیا۔ انہوں نے بڑے پیار سے میرا سر اٹھایا ، اسے چوما اور مسکراتے ہوئے بولی۔
” خیر سے آ ئے ہو ‘نا پتر۔“
” جی اماں، بس دل کیا اور آ گیا۔“ میں نے سکون سے کہا تو میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ 
” چل تو منہ ہاتھ دھو کے تازہ دم ہو جا۔
میں یہ منزل ختم کر لوں تو پھر تیرے ساتھ باتیں کرتی ہوں۔“
” ٹھیک ہے اماں ۔“ میں نے کہا اور کھڑا ہو گیا۔ کمرے سے نکلتے ہوئے میں نے ایک نگاہ سوہنی پر ڈالی ۔ وہ قعدہ میں تھی۔ میں نے رکنا مناسب نہیں سمجھا اور باہر آ گیا۔ 
” یار اماں تو ٹھیک ہے، میں تو ایویں ڈر گیاتھا۔“ باہر کھڑ ے چھاکے کو دیکھ کر میں نے کہا تو وہ خاموش رہا۔
میں آگے بڑھا تو اس نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 
” ادھر ہے تمہارا کمرہ۔ سوہنی نے رات ہی بتا دیا تھا۔“
ہم اس طرف چل پڑے۔ میں اس کے ساتھ کاریڈور سے گذر رہا تھا تو میں نے دیکھا۔ حویلی کی دائیں جانب باہر کی طرف ایک میدان تھا۔ جہاں کبھی فصلیں اگا کرتی تھیں۔ وہاں کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ورزش کر رہے تھے۔ وہ سبھی ٹریک سوٹ میں تھے۔
ان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان ایک لمبی دیوار تھی۔ دونوں طرف سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔
” یہ کیاہے ؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔ 
” آؤ ، پہلے یہی دیکھ لو۔“ اس نے کہا اور کاریڈور میں آگے بڑھ گیا۔ میں اس کے ساتھ سرے تک گیاتو سارا منظر واضح ہو گیا۔ وہ سب ایک منظم انداز میں ورزش کر رہے تھے۔ لڑکوں کی طرف تانی کھڑی تھی اور انہی کے ساتھ پوری طرح مصروف تھی۔
میں دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بدن گرم ہو جانے تک یہی چلتا رہا،پھر وہ زور زور سے انہیں حکم دینے لگی۔ ایک دم سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے لگے۔ بالکل روہی کی تربیت والا انداز تھا۔ دوسری جانب لڑکیاں بھی وہی کر رہی تھیں۔ تانی پورے جوش کے ساتھ۔ کبھی کسی کے ساتھ فائیٹ کرنے لگتی اور کبھی کسی کے ساتھ۔ کافی دیر تک یہی چلتا رہا۔ جہاں کوئی غلطی کرتا اسے سمجھاتی ۔
یہ مر حلہ ختم ہوا تو اس نے ہدایات دینی شروع کر دیں۔
” کب سے یہ چل رہا ہے؟“ میں نے پر جوش لہجے میں پوچھا۔ 
” کافی عرصہ ہو گیا۔“ چھاکے نے جواب دیا
” سارا اور اس کے بیٹے کا کیا حال ہے ؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولا۔ 
” وہ دونوں خوش ہیں، شعیب کئی بار یہاں انہیں آ کر مل چکا ہے۔ وہ دو بئی میں ہوتا ہے ، اس نے سارا کو لے جانا چاہا مگر وہ نہیں گئی۔
 اوکے آؤ، چلیں۔“ میں نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
میں تازہ دم ہو کر اوپر ہی ڈرائینگ روم میں آ یا تو سبھی وہیں تھے۔ چھاکا، سارا ، تانی سوہنی اور اماں۔ ناشتہ تیار تھا۔ میں جا کر سب سے ملا۔ تانی نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ، کچھ دیر پہلے والی تانی لگ ہی نہیں رہی تھی۔ اس وقت میں چھاکے کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے پتلون اور شرٹ پہنی ہوئی تھی اور ٹائی بھی لگائی ہوئی تھی ۔
” اوئے چھاکے یہ کیا؟“ میں نے خوشگوار حیرت سے کہا تو اماں نے ایک دم سے کہا۔ 
” جمال ! آج کے بعد تم نے اسے چھاکا نہیں کہنا، اشفاق کہنا ہے ، چوہدری اشفاق۔“
” وہ تو ٹھیک ہے اماں ، پر اسے یہ سکھایا کس نے ہے؟“ میں نے پوچھا۔ 
” یہ میری بیٹی سارا نے سکھایا ہے ۔ دیکھنا یہ میرا پتر اب بہت بڑا آدمی بنے گا۔“ اماں نے رسان سے کہا تو میں نے اسے چوہدری اشفاق کہنے کا پورا ارادہ کر لیا۔
ناشتہ ختم ہونے تک باتیں چلتی رہیں۔تبھی سارا اٹھ گئی
” مجھے اجازت، میں دوپہرکے بعد آپ سے باتیں کروں گی مجھے آپ سے بہت کچھ کہنا ہے۔“ 
” اس وقت کہہ لو ضروری باتیں۔“ میں نے کہا۔ 
” نہیں، مجھے اسکول جانا ہے ۔ میں پہلے ہی لیٹ ہو چکی ہوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولی تو اماں بولیں۔
” یہ یہاں کا سارا اسکول سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ رہتی ہی وہیں اسکول میں ہے۔یہ تو چھٹیاں گذارنے یہاں آتی ہے حویلی میں۔“
” اماں آپ بھی تو وہیں ہوتی ہیں۔“ سارا نے کہا اور چل دی ۔ میں نے سوہنی کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر ایک میٹھی مسکان تھی ۔ اس نے اب تک ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ اس کی آ نکھوں میں پیاس کے ساتھ ایسی نادیدہ لہریں پھوٹ رہی تھیں جنہیں میں کوئی نام تو نہیں دے پایا مگر وہ مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھیں۔
” اماں ، اس چھاکے نے فون کر کے اس طرح کہا کہ میں ڈر ہی گیا۔اس نے تو…“ میں نے کہنا چاہا تو سوہنی ایک دم سے بولی۔ 

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط