Episode 79 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 79 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

میں ساری رات فہیم کے ساتھ کنٹرول روم میں رہا تھا۔ وہ ان لوگوں کے فون ٹریس کرتا چلا جا رہا تھا جو کسی طرح بھی الطاف گجر سے متعلق تھے۔ پولیس اور خفیہ اداروں پر حکومتی دباؤ بڑھ گیا تھا۔ دوسری طرف زویا اور رونیت مصروف رہی تھیں۔ وہ رامیش پانڈے کو مرکز بنا کران کے ارد گرد لوگوں کو تلاش کرتے چلے جا رہے تھے۔ صبح کا سورج طلوع ہوا تو میرے پاس کافی حد تک معلومات آ چکی تھیں اور مجھے یہ پتہ چل چکا تھا کہ لاہور میں فیضان بٹ ان سارے گینگ کو چلا رہا تھا۔
اس کے بندے یہ معلوم نہیں کر پائے تھے کہ آخر وہ لوگ ہیں کون جنہوں نے اتنابڑا قدم اٹھا لیا تھا؟
 طارق نذیر پولیس ہیڈ سے اس کے گھر پر مل چکا تھا۔ اس نے ہمارے متعلق کوئی بات کئے بغیر پولیس ہیڈ کو بتا دیا کہ یہ معاملہ کیاہے اور اسے کس حد تک لے کر جانا ہے۔

(جاری ہے)

پولیس اتنا ہی کام کرے،جتنا اس سے کہا جائے۔ ابھی وہ پولیس ہیڈ کے گھر ہی تھا کہ فیضان بٹ کا فون آ گیا۔

وہ پولیس ہیڈ سے ایک وفد کے ساتھ ملنا چاہتا تھا،اس نے آفس میںآ جانے کا وقت دے دیا۔
جس وقت فیضان بٹ اپنے ساتھ چھ لوگوں کا وفد لے کر پولیس ہیڈ کے آ فس میں پہنچا،اس وقت طارق نذیر وہیں موجود تھا۔ فیضان بٹ صرف حکومتی دباؤ کا پتّا کھیلتے ہوئے الطاف گجر کو اپنی تاجر برادی کا فرد ظاہر کر کے ہمدردی جتا رہا تھا۔ طارق نذیر مجھے ان کی ساری گفتگو فون پر سنا رہا تھا۔
پولیس ہیڈ نے فوری کارروائی کرنے اور الطاف گجر کو بازیاب کرنے کا وعدہ کر لیا۔ ایسے ہی وقت میں نے فیضان بٹ کو فون کر دیا۔ اجنبی نمبر دیکھ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے دوسری بار ملایا تو اس نے فون رسیو کر لیا۔
” ہیلو۔ کون ؟“
” میں ہوں جس نے الطاف گجر کو اغوا کیا ہے ۔ “ میں دھیمے لہجے میں کہا
” تم ؟ “ اس کی حیرت اس کی آواز سے مجھ تک پہنچی، وہ مزید لفظ نہیں کہہ پایا
” میں جانتا ہوں کہ اس وقت تم کن لوگوں کے ساتھ ، کس کے پاس بیٹھے ہو۔
میں تمہیں اتنا بتادوں تم نے یا کسی نے الطاف کو بازیاب کیا کر نا ہے، میں تجھے اوپر پہنچانے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔“ میں نے غصے میں کہا
” تجھے معلوم نہیں کہ تم کس سے بات کر رہے ہو، میں تمہیں…“اس نے کہنا چاہا تو میں نے اس بات کاٹتے ہوئے کہا
” وہ بے بس کیا کر سکتا ہے جو پولیس کی مدد لینے،پولیس کے در پر کسی کتے کی طرح دُم ہلا رہا ہے۔
اگر تم میں اتنی جرات ہوتی کہ تم کچھ کر سکتے ہو تو پولیس کی مدد لینے یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔“میں نے انتہائی طنز سے کہا تاکہ اس کے اندر غصہ بھڑک اٹھے
” میرے سامنے آؤ تو میں تجھے بتاؤں۔“ اس نے انتہائی غصے میں کہا
” میں تمہارے سامنے آ تا ہوں یا تجھے اپنے سامنے لے کر آ تا ہوں ، شام تک فیصلہ ہو جائے گا۔ ابھی صرف اپنی کار کے بارے میں پتہ کر اس کا کیا بنا۔
میں بعد میں فون کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
کچھ دیر بعدطارق نذیر نے مجھے کال ملا لی۔اس نے بتایا کہ فون کال کے بعد اس نے کوئی بات نہیں کی اور اپنے لوگوں کے ساتھ تیزی سے باہر نکل گیا۔
” مجھے بتاؤ ، تمہارا کوئی سیف ہاؤس ہے ، جہاں تم آ سانی سے الطاف گجر سے تفتیش کر سکو؟“ 
 ” بالکل ہے ۔ میںآ پ سے یہی کہنے والا تھا۔
“ اس نے کہا
” ٹھیک ہے ، میں بعد میں بتاتا ہوں کہ وہ تجھے کہاں ملے گا۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا
 فیضان بٹ کی کار پولیس ہیڈ کے آفس سے کافی دور ویرانے میں پہنچ چکی تھی۔ اس کا ڈرائیور اسی میں پڑا تھا۔ لڑکوں نے اُسے کھول دیا، کار میں بم لگایا اور وہاں سے دوسری گاڑی میں بیٹھ گئے ۔وہ چند قدم چلے اور ریمورٹ سے کار اُڑا دی۔
کار پھٹنے کا چشم دید اس کا ڈرائیور تھا۔
جس وقت یہ کارروائی ہو رہی تھی، جنید اور اکبر کافی حد تک الطاف گجر سے معلومات لے چکے تھے۔ اس سے مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں نے انہیں الطاف گجر کوطارق نذیر کے سپرد کرنے کا کہا۔ اگلے ایک گھنٹے میں وہ اس فیکٹری سے الطاف گجر کو نکال کر ، خود سامنے آئے بغیر طارق نذیر کے سپرد کر دیا۔
وہ اسے لے کر سیف ہاؤس چلا گیا اور وہ دونوں گھر کی طرف لوٹ آئے ۔ تب میں نے فیضان بٹ کو فون کیا
” کچھ پتہ چلا کار کا؟“
” کیا چاہتے ہو تم؟“ اس نے کافی حد تک دھیمی آواز میں پوچھا
” تمہاری طاقت دیکھنا چاہتا ہوں ۔“ میں نے جواب دیا
” بہت پچھتاؤ گے۔“ اس نے کرختگی سے کہا
” شام تک اپنی طاقت دکھا دو تو ٹھیک ، ورنہ میں تیرا زہر نکالنا خوب جانتا ہوں۔
“ میں اُسے غصہ دلایا
” سامنے آ کر بات کرو تو میں تجھے دیکھوں۔“ اس نے بھنا کر کہا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا
” بس یہیں گھٹنے ٹیک دئیے۔ کہو کہ مجھے تلاش نہیں کر سکتے ہو ، پھر میں تم تک پہنچوں۔“
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور فون بند کر دیا۔ اسی وقت مجھے طارق نذیر نے بتایا کہ وہ سیف ہاؤس پہنچ چکا ہے اور فیضان بٹ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے پولیس سیکورٹی کے نام پر تین بندے گھیج دئیے ہیں۔
یہ اس نے میرے ہی کہنے پر کیا تھا ، تاکہ اس کی نقل و حرکت کے بارے میں پوری طرح آ گاہی رہے۔ وہ اس واقعہ کی وجہ کافی پر یشان ہو چکا تھا اور اپنی طاقت کو اکھٹا کر رہا تھا۔ میں شام تک اسے اُس کی حالت پر چھوڑ دیا۔
الطاف گجر نے کافی حد تک مار کھانے کے بعد تعاون کیا تھا۔ اس نے وہی چند بندے بتائے جو اسے یاد تھے۔ اس میں فیضان بٹ کس حد تک ملوث تھا، وہ بھی اس نے بتا دیا۔
طارق نذیر نے اسے اپنے ادارے کے کھاتے میں ڈال کر ایک بڑے آپریشن کی منظوری لے لی ۔ وہ اب مزید گرفتاریوں کے لئے پلان کر رہا تھا۔
 شام ہو چکی تھی۔ فیضان بٹ کا اضطراب کافی حد تک بڑھ گیا تھا۔ وہ اپنے گلبرگ مارکیٹ والے آ فس میں تھا اور اس کے گرد سیکورٹی کا ایک حلقہ بن چکا تھا۔ اس نے اپنے غیر ملکی آ قاؤں کو بھی بتا دیا تھا کہ معاملہ کیا بن گیا ہے۔
انہیں یہ خبر نہیں مل رہی تھی کہ یہ سب ہو کیسے گیا؟
الطاف گجر کے گاؤں سے چند بھارتی پکڑے جا چکے تھے۔ انہوں نے وہاں چھاپہ مار کر کچھ دستاویزات بھی حاصل کر لیں تھی۔ فیضان بٹ آفس سے نکل کر ا کہیں جانا چاہتا تھا۔ اس نے وہیں ان چند لوگوں کو بلایا تھا ، جو اس کے خاص لوگ تھے اور لاہور میں اس گینگ کو چلانے کے پورے ذمہ دار تھے۔ اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ جاتا کدھر ہے؟
 جیسے ہی شام اُتری وہ اپنی پوری سیکورٹی کے ساتھ مارکیٹ سے نکلا۔
طارق نذیر اور میری گینگ کے لوگ اسی مارکیٹ میں اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی وقت میں بھی باہر نکل آیا ۔ میرے ساتھ میرے شیر اکبر اور جنید تھے۔ میں تیزی سے مار کیٹ کی جانب بڑھتا چلاجا رہا تھا۔ گھر سے نکلنے اوت مارکیٹ کے قریب پہنچ جانے تک میں سب کو رابطے میں لے چکا تھا۔ فیضان بٹ کی کار کے آگے پیچھے کافی کاریں چل پڑیں تھیں۔ ان کا تعاقب شروع ہوچکا تھا۔
کافی دیر جب وہ نہر کنارے چڑھے تو پتہ چلا کہ ان کا رخ کس طرف ہو سکتا ہے ۔ جنید آ ندھی اور طوفان کی طرح کار بھگائے لمحہ بہ لمحہ ان کے قریب ہو تا چلاجا رہا تھا۔ ان کا قافلہ جلّو پارک سے تھوڑا پہلے دائیں جانب پل پار کر کے چل پڑے ۔ آ گے بہت کھلے کھلے گھر تھے۔ وہ قافلہ ایک گھر میں چلا گیا، جس کی بناوٹ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کا ڈیزائین کہیں دوسرے ملک سے لایا گیا ہے۔
وہ گھر جگمگا رہا تھا۔ کچھ کاریں وہیں گیٹ کے پاس ہی رک گئیں اور فیضان بٹ والی کار کے ساتھ پولیس کی گاڑی بھی پورچ میں جا رکی۔ پولیس والے باہر ہی رک گئے اور وہ تیزی سے اندر چلا گیا۔ میں انہیں دیکھ نہیں رہا تھا ، لیکن میری آ نکھیں وہاں پہنچ چکیں تھیں۔
” پتہ کرو کہ اس گھر میں کس طرف سے داخل ہوا جا سکتا ہے۔“ میں اپنے لوگوں کو ہدا یت دی اور پل پار کر گیا۔
وہ نو تعمیر علاقہ تھا اور ابھی بہت ساری جگہوں پر تعمیر جاری تھی۔ جس وقت میں اس گھر کے پاس پہنچا، مجھے اطلاع مل گئی کہ میں نے کہا ں سے جانا ہے۔
 ہم جیسے ہی گیٹ پر پہنچے، گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے ہمیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہیں قریب ہی ایک پولیس والا گن لئے کھڑا تھا، بلا شبہ اسی نے سیکورٹی والوں کو کہاتھا کہ نئے آ نے والے مہمانوں کو اندر آ نے دیا جائے ۔
ہم بڑے آرام سے پورچ میں جا رُکے۔ میں نے وہیں کھڑے ہو کر باہر کا جائزہ لیا۔ پولیس والوں کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں بات ہو گئی تھی۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ نفری پہنچ رہی ہے۔میں نے انہیں یہی ہدایت دی تھی کہ اگر بات ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ وہاں تک آئیں، ورنہ ہمارے نکل جانے کے بعد ہی وہاں پہنچیں۔ لان میں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں کچھ لوگ اسلحہ بردار بھی تھے۔
سیکورٹی والوں کو شک ہوا تھا یا نہیں میں اس کے بارے میں نہیں جانتا تھا ، لیکن ہم زیادہ دیر تک پورچ میں رہے ، چند لمحوں میں جائزہ لیا اور اندر داخل ہو گئے۔ داخلی دروازے کے سامنے ہی ایک کھلا سا ڈرائینگ روم تھا۔ اس میں پانچ لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، چھٹا ان کے درمیان صوفے پر جو بیٹھا تھا، وہ شکل ہی سے غیر ملکی لگ رہا تھا، اس کے چھوٹے چھوٹے سنہری بال تھے،نین نقش تیکھے اور آنکھیں نیلی تھیں۔
ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود بہت چست دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے پہلو میں فیضان بٹ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے پہلی نگاہ میں پہچان لیاتھا، ایک توا س کی تصویر میری نگاہوں سے گذر چکی تھی، دوسرا اب تک جو اس کے بارے میں سنا تھا ، وہ پہچان کے لئے کافی تھا۔ ہمارے اچانک اندر داخل ہونے پر انہوں نے چونک کر ہمیں دیکھا۔ ہم تین ہی تھے۔میں سیدھا ان کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور اکبر اور جنید دونوں دائیں بائیں ہو گئے۔
” کون ہو تم اندر کیسے آ گئے ہو ؟“ فیضان بٹ نے ایک دم سے اچھلتے ہوئے پوچھا 
” میں کون ہوں، یہ تو بعد میں پتہ چلے گا ، لیکن تم لوگوں کے بارے میں معلوم ہو گیا ہے کہ تم کون لوگ ہو ؟“ میں نے کہا تو ان سب کے چہروں پر سوالیہ نشان کھنچ گیا۔ میں نے انہیں زیادہ حیران نہیں رہنے دیا اس لئے آ گے بڑھ کر فیضان بٹ کے پاس چلا گیا۔ اسے کالر سے پکڑا ہی تھا کہ اس نے زور سے اپنا کالر چھڑانا چاہا ، میں نے دوسرے ہاتھ سے ایک زور دار گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا ، وہ صوفے سے الٹ کر گرا ۔
” کون ہو تم؟“ اس بار غیر ملکی نے اٹھتے ہوئے غصے میں کہا ۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ، وہ ہوا میں اچھلا اور میرے اوپر آ رہا ، میں نے مانا تھا کہ وہ بہت اچھا فائیٹر ہو سکتا تھا ، لیکن اس وقت میرے پاس یہ کھیل تماشے دکھانے کا وقت نہیں تھا۔وہ میرے اوپر توآ رہا ، لیکن مجھ سے الگ نہیں ہو سکا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کو سینے کے قریب سے گھیر لیا ۔
پھر اوپر اٹھایا اور زمیں پر دے مارا۔ قالین ہونے کی وجہ سے اسے چوٹ نہیںآ ئی ۔ لیکن اس وقت تک جنید کے خاموش پسٹل نے ٹھک کی آواز نکالی تو اس کی چیخ بلند ہوگئی ۔
” خبردار۔کوئی ہلنا بھی مت ، ورنہ وہ اپنی موت کا ذمہ دار خود ہوگا۔“ اکبر نے اونچی آواز میں کہا تو سب نے حیرت سے ہمیں یوں دیکھا جیسے ہم کوئی انہونی مخلوق ہیں جو ان کے س پر مسلط ہو گئے ہیں، ورنہ شاید ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوں کسی کی جرات ہو سکتی ہے کہ ان کی جانب کوئی انگلی بھی اُٹھائے ۔
میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا
” تم لوگ شاید یہی سمجھ رہے ہو کہ تم سب کسی آسمانی مخلوق سے تعلق رکھتے ہو، اس وطن میں جو کئے جاؤ، تمہیں کائی پوچھنے والا نہیں۔ ہم آگئے ہیں پوچھنے کے لئے۔ میں تم لوگوں کو صرف چوبیس گھنٹے کا وقت دیتا ہوں ، اب تک جتنے بھی بھارتی یہاں داخل ہو چکے ہیں، انہیں واپس لے آؤ، ورنہ تم لوگوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ تمہاری سوچ میں بھی نہیں ہوگا“ یہ کہتے ہوئے میں نے دونوں ہاتھوں میں پسٹل نکال لئے اور پھر سب کی ٹانگوں پر فائرنگ کرنے لگا۔
وہ چیخنے لگے۔ میں نے فیضان بٹ کو اٹھایا اور اسے اکبر کی طرف دھکیلا پھر اس غیر ملکی کو اٹھایا اور پوری قوت سے اس کے ٹھوڑی کے نیچے گھونسہ مارا۔ اس بار اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ تب میں پسٹل اس کے ماتھے پر رکھا اور گولی چلا دی۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا وہیں ڈھیر ہو گیا۔ فیضان بٹ کو اپنے آگے لگائے اکبر باہر کی طرف چل دیا، میں ایک نگاہ تڑپتے ہوئے ان سب کو دیکھا اور تیزی سے باہر کی جانب نکلا۔
دروازے کے ساتھ ہی پولیس والا کھڑا تھا۔ وہاندر کا سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ باہر لوگ پر یشان ہو گئے ہوئے تھے۔ اچانک جنید میرے پیچھے سے نکل کر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ میں جیسے ہی پورچ میں نکلا ، اس وقت تک جنید لان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی جانب دستی بم اچھال چکا تھا۔ تین دستی بم مختلف جگہوں پر جا گرے ۔ ایک زرو دار دھماکا ہوا، اس کے ساتھ ہی دو مزید ہوئے ۔
دھواں اور مٹی کا غبار اٹھا۔ اس وقت تک اکبر نے فیضان بٹ کو گاڑی میں دھکا دے دیا تھا۔ جنید تیر کی طرح وہاں سے نکلا ۔ جب تک لوگوں کو ہوش آ تا، ہم گیٹ سے باہر جا چکے تھے۔ جنید انتہائی رفتار سے نکلا تھا۔ پل تک جاتے میں طارق نذیر سے کہہ دیا کہ وہ بندہ سنبھال لے۔ ہم پل سے نکلے تو پولیس ہمارے قریب سے گذر گئی ۔ کچھ فاصلے پر وہ ہمارے انتظار میں کھڑا تھا۔ ہم نے گاڑی اس کے حوالی کی اور اس کی کار میں بیٹھ کر نکل گئے۔
                                       #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط