”چلو، آگے بڑھو۔“ اس نے انگریزی میں تحکمانہ انداز میں حقارت سے کہا۔
وہ ڈرائنگ روم تھا، جس کے آگے ایک اسٹڈی روم تھا۔ وہ مجھے وہاں لے گئی ، سامنے ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نیلی آنکھیں مجھ پر مرکوز تھیں۔ جھریوں بھرے چہرے پر کسی جذبے کا کوئی احساس تک نہیں تھا۔ اس نے جو لباس پہنا ہوا تھا، اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں تھا کہ وہ یہودی ہے۔
اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا ، پھر سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”بہادر ہو لیکن اپنی مسلمان قوم کی طرح بے وقوف بھی ہو۔اتنی بڑی آفر تم ٹھکرا چکے ہو۔ہم چاہتے…“
”تم یہودی ہو ، تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے ،اس لیے تمہیں گالی دینے کی ضرورت نہیں۔تم ابلیس کے سچے پیروکار ہو ، اس آدمی کے گھٹیا ہونے میں کوئی شک نہیں جو انسانیت کے مقام سے گر کر ابلیسیت کی دلدل میں گر جائے۔
(جاری ہے)
“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا جو میری بات سن کر بھی سپاٹ رہا۔ چند لمحے بعد بولا۔
”تم لوگ وہی کرتے ہو جو ہم چاہتے ہیں۔ اسی بر صغیر پر کتنے انگریز تھے ؟ تمہارے ہی بھائی بند ایک دوسرے کو مارتے رہے اور آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ بولو کامیاب کون ہے ، ہم یا تمہاری احمق قوم، گھٹیا ہم ہوئے یا تم ؟“
”یہ تو اپنی اپنی سوچ ہے نا کہ کون کس چیز کو کامیابی سمجھتا ہے۔
تم ابلیسیت کو پھیلانا چاہتے ہو اور ہم انسانیت کو اس کا اعلی مقام دینا چاہتے ہیں۔ تم مجھ سے اپنی بات منوا سکے؟ نہیں نا، یہ میری کامیابی ہے۔“ میں نے انتہائی طنز سے کہا۔اس پر وہ ذرا سا مسکرا دیا۔ پھر حقارت بھرے لہجے میں بولا۔
”تم … اور تمہاری کامیابی… ہماری گریٹ گیم میں تیرے جیسے تنکے ذرا سی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہماری بچھائی ہوئی بساط پر تیرے جیسے مہرے نہیں ہوتے، ہاں مہروں کو بساط تک لانے میں ایندھن کی طرح کام آتے ہیں۔
تیری کامیابی اس لڑکی کے پسٹل کی چند روپے والی گولی میں تحلیل ہو جائے گی، وہ بھی چند لمحوں میں۔“
”تو دیر کس بات کی ہے۔“ میں نے کہا تو اسی لمحے پسٹل کی نال میرے سر پر رکھ دی گئی۔
” بس دو لمحے …‘لیکن ہم یہ بلٹ بھی ضائع نہیں کریں گے۔ ابھی فورسزکے لوگ یہاں آ جائیں گے اور وہی سب کچھ تم لوگوں کے ساتھ کریں گے۔یہ ہے کامیابی۔ تم بھی اپنے وطن سے دور ہو اور میں بھی۔
تم ایک دہشت گرد بن کر یہاں کی جیلوں میں اذیت ناک زندگی گذارو گے اور میں، میرے ایک اشارے پر ممبئی کرائم برانچ، خفیہ ایجنسیاں، آئی بی ، را ان سب کے لوگ دوڑے چلے آئیں گے۔ بھارتی قانون ”ٹاڈا“ تو کیا، تم مہاراشڑ کا قانون ”مکوکا “ہی برداشت نہیں کر پاؤ گے۔ “ اس نے طنزیہ لہجے ،میں کہا۔
”دیر مت کرو، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اس کے بعد تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔
“ میں نے کہا۔
”میرے ساتھ کیاہوگا، میں یہ بھی جانتا ہوں۔ بھارتی حکومت پر میرا احسان ہوگا۔ ایک پاکستانی دہشت گرد اور اس کا نیٹ ورک ان کے حوالے کر رہا ہوں۔ رامیش پانڈے میرا احسان مند ہوگا۔ دنیا کو یہ خبر ہی نہیں ہوگی کہ تم میرے ہی لائے ہوئے کاٹھ کے وہ اُلّو ہو،جو ہمارے اس نرمین ہاؤس سے نہیں بلکہ کسی سڑک سے پکڑے گئے ہو۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”لیکن کچھ لوگوں کی آ نکھیں بند نہیں ہیں۔ میری کوئی حیثیت نہیں ، لیکن میری جگہ کوئی دوسرا آ جائے گا اور …“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولا۔
”کو شش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کچھ بھی نہیں کر سکو گے۔ دیکھو احمق۔یہاں بھارت میں اپنا اثررسوخ بنانے کے لیے ہم نے کتنی محنت کی۔ سوڈے کی بوتلوں سے کام شروع کرکے آج انہیں اسلحہ فروخت کر رہے ہیں، جو آخر کار تیرے ملک پر چلایا جانا ہے۔
اتنا سب کچھ چند لوگوں کے ذریعے نہیں ہوتا، اوپر سے لے کر نیچے تک گرفت کرنا پڑتی ہے اور وہ ہم نے کر لی۔ بھارت اپنے یوم آزادی پر ہمارے اسلحے کی نمائش کر رہا ہے۔ تمہیں تمہارے ملک سے اٹھایا اور جزیرے تک لے کر گئے، کیا خیال ہے ، وہ راڈار میں نہیں آیا؟یہ سمجھ لو، ہماری طرف سے آ نکھیں بند ہیں۔“
”تم باتیں ہی کرو گے یا مجھے گولی بھی مارو گے۔
اتنی تفصیل بتا کر مجھے مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔“ میں نے حقارت سے کہا۔
”نہیں، تمہیں اب بھی ایک چانس دے رہا ہوں۔ سنو۔ یہیں برصغیر میں راجے مہارجے، نواب، جاگیر دار اور وڈیرے ہیں نا، ان میں سے ایک تمہیں بھی بنا دوں گا ، یہ میرا یعنی ڈیوڈ ربینز کا وعدہ ہے۔ ہمارے لیے کام کرو۔ قوت ہم دیں گے ، عیش تم کرنا۔“ اس نے چمکتی آنکھوں سے کہا۔
”تم تو بہت بڑے احمق ہو، مجھے زندہ…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میر ی سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا۔
”اپنے سوا، اپنے ہر ساتھی کو خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کرنا ہوگا، وہ بھی جنہوں نے رامیش پانڈے پر حملہ کیا ہے۔ صرف تم رہو گے ، یہی ایک راستہ ہوگا تم پر اعتماد کرنے کا، بولو۔“ اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ تو میں ایک لمحے کے لیے سوچنے لگا۔
اس دوران میں نے جائزہ لے لیا کہ اس لڑکی کے سوا کوئی اور اس کمرے میں تو نہیں تھا لیکن اس اپارٹمنٹ اور اس بلڈنگ میں تو ہو سکتے تھے۔ پسٹل میرے سرپر لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
”پہلے یہ پسٹل ہٹاؤ۔“ میرے کہنے پر اس نے اشارہ کیا اور لڑکی نے پسٹل ہٹا لیا۔ تب میں نے کہا۔
”دیکھو ، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اپنی منحوس شکل ہٹا کر اس حسین لڑکی کو میرے سامنے بٹھاؤ تاکہ میں کچھ اچھا سوچ سکوں۔
“ یہ کہتے ہوئے میں نے ہاتھ بڑھا کر اس لڑکی کے گالوں کو چھوا، جس پر اس لڑکی نے برا مناتے ہوئے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔
”تم کتنا وقت لو گے سوچنے کے لیے ؟“ ڈیوڈ ربینز نے پوچھا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”بس اس حسینہ کے انتظار میں ہوں۔“
میرے اتناکہتے ہی باہر سے میرے کانوں میں منمناہٹ ہوئی کہ جانی بھائی اپنے لوگوں کے ساتھ پہنچ چکا ہے اور بانیتا کور تیار ہے۔
سیڑھیوں والے لوگ محفوظ ہیں۔ کہو تو دھاوا بولیں۔
”ایسی بکواس مت کرو۔ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے۔“ اس نے سختی سے کہا۔
”کوئی بھی ہو۔ میرے لیے تو ایک خوبصورت حسینہ ہے۔ بس ذرا سا وقت دو، اس اسٹڈی روم سے بیڈ روم تک کا سفر طے کرنا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے اشارہ دے دیا، اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر پھر سے اس کے گال چھوئے تو اس نے پھر میرا ہاتھ جھٹکالیکن اس بار میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
بجائے اسے میز پر پھینکنے کے ، اس کا سہارا لے کر میں اٹھا ایک ٹانگ سے کرسی کو دھکا دیا اور دوسری ٹانگ کا پیر سیدھا ڈیوڈ ربینز کے منہ پر مارا۔ ایک دم سے ہلچل مچ گئی۔ میری ساری توجہ پسٹل پر تھی۔ تب تک وہ لڑکی میری بغل میں گھونسہ مار چکی تھی۔ میں نے پسٹل پر ہاتھ مارا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا۔ تبھی میں نے اس کی ناک پر پنچ مارا ، وہ لڑکھڑائی۔
میں نے اس کے پیٹ میں گھٹنا مارا۔ ڈیوڈ ربینز پسٹل کی جانب بڑھا۔ میں اس سے پہلے ہی اس پر جا پڑا۔ تبھی اس لڑکی نے میری پسلیوں میں زور دار ٹھوکر ماری۔ ایک لمحے کے لیے میرا بدن سُن ہو گیا۔ میں پلٹا تو ایک اور ٹھوکر میرے سینے پر پڑی۔ میرے ایک ہاتھ میں پسٹل تھا اور دوسرے ہاتھ سے میں نے اس کی ٹانگ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا، فطری طورپر اس نے اپنی ٹانگ کھینچی، تب میں نے زور سے دھکا دیا تو وہ کولہوں کے بل جا گری۔
میں نے تیزی سے اٹھنا چاہا تو ڈیوڈ ربینز نے مجھے گردن سے پکڑ لیا۔ تب تک وہ لڑکی کسی اسپرنگ کی مانند اٹھ کھڑی ہوئی اور کسی ماہر ریسلر کی طرح اپنی کہنی میری سینے پر مارنے کے لیے مجھ پر حملہ آور ہوئی ۔ میں ہٹ گیا تو اس کی کہنی فرش پر لگی۔ ایک لمحہ کے لیے وہ وہیں ساکت ہو گئی۔ مجھے بس اتنا ہی سا وقت چاہئے تھا۔ میں نے پسٹل کی نال اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھی اور ٹرائیگر دبا دیا۔
ایک دھماکہ ہوا اور اس کے سر سے گولی نکل گئی۔ اسی لمحے ڈیوڈ ریبنز کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔ میں نے اسے گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور اسی کرسی لے جا کر بیٹھا دیا جہاں بیٹھا وہ حقارت بھرے لہجے میں بات کر رہا تھا۔
اس میں ڈیڑھ منٹ سے بھی کم وقت لگا تھاکہ تبھی دروازہ کھلا اور دو کمانڈو ٹائپ نوجوان تیزی سے اندر آگئے۔ میں نے پسٹل ڈیوڈ ربینز کے سر پر رکھ دیا تو وہ جہاں تھے ،وہیں رک گئے۔
انہوں نے لمحوں میں صورت حال کا جائزہ لے لیا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اس کمرے میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور ہمیں کسی جگہ پر دیکھا جا رہا تھا۔ میں نے باہر لوگوں کو سنانے کے لیے کہا۔
”یہ دونوں نوجوان جو یہاں تجھے بچانے آ گئے ہیں ، نہیں بچا پائیں گے۔ اس کمرے میں لگے کیمرے بھی نہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ یہیں کسی کمرے میں مجھے دیکھا جا رہا ہوگالیکن اب تجھے مرنا ہے۔
“
”تم مجھے مار بھی دوگے تو زندہ بچ کر نہیں جا سکتے ہو۔“ ڈیوڈ ربینز نے مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا۔
” مجھے یہاں سے زندہ جانا ہی نہیں ہے۔تم نے مجھ پر ہاتھ ڈال کر اپنی موت کو دعوت دے دی ہے۔اب میرے ساتھ باہر چلوگے یا یہیں مرنا پسند کرو گے؟“ میں نے سرد سے لہجے میں پوچھا۔
”دیکھو۔ اب بھی سوچ لو ، دولت کا ایک ڈھیر تمہارا منتظر ہے۔
طاقت ایسی کہ تم …“وہ بولا تو میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
” تم ابلیسیت کے لیے یہاں ہو اور میں انسانیت کے لیے ،تمہاری بدقسمتی ہے کہ تم نے یہاں کے لوگوں کے بارے میں غلط اندازہ لگا لیا ہے۔اب رامیش پانڈے سمیت ہر اس بندے کو پیغام مل جائے گا۔ چلو“
”میں مر جاؤں گا ، تو کیا ہوا، ہماری جڑیں اتنی مضبوط ہو گئی ہیں کہ تم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔ میں نے جو نیٹ ورک یہاں بنا دیا ہے ، تمہیں اس کی ہوا بھی نہیں لگ سکتی۔“ اس نے غصے میں کہا۔
”اور میں نے فیصلہ کر لیا، تجھے اور تیرے نیٹ ورک کو میں نے ہی تباہ کرنا ہے۔“ میں نے سرد لہجے میں کہا۔
”ہونہہ…“ اس نے حقارت سے ہنکارا بھرا ، پھر نفرت سے بولا۔