”اس رات میں گھر آنے کے لئے کارخانے سے نکلا تھا کہ ہمارے ہی کوٹ کے کچھ لوگ کار میں جا رہے تھے۔ یونہی باتوں ہی باتوں میں انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ بندوں کی تلاش میں پھر پھر کرپاگل ہوگئے ہیں،لیکن وہ انہیں نہیں ملے۔ انہیں خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کس طرح کے بندے تلاش کر رہے ہیں۔ مجھے تھوڑا شک تھا کہ ہمارے کارخانے کا مالک رات ادھر ہے۔ وہ اسی وقت ادھر ہوتا تھا جب کوئی خفیہ کاروائی ہی کرنا ہوتی تھی۔
میں نے اپنے شک کا اظہار کر دیا۔ اور گھر چلا گیا۔ اگلے دن انہوں نے مجھے گھر سے ہی لے لیا اور پوری طرح پتہ کرنے کو کہا۔ میں لالچ میںآ گیا۔ میں نے وہاں جا کر جب چھان بین کی تو پتہ چلا رات یہاں پر ایک بندہ لایا گیا تھااور اسے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔اس کا تھوڑا بہت حلیہ بھی پتہ چل گیا۔
(جاری ہے)
“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو اکبر یک لخت اس کی پھر دھنائی کرنے لگا۔
” بول بے غیرت بول۔“
”بتا رہا ہوں نا، “ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوا پھر کہتا چلا گیا،” جب تک یہ وہاں پہنچے، اسے لے جایا جا چکا تھا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ انہوں نے مینیجر کو قابو کیا اور مالک کو بلوا لیا۔ اور پھر وہ مالک کو لے گئے۔ کئی دن سے وہ ان کے پاس ہے ۔ ممکن ہے انہوں نے اسے مار دیا ہو۔“ اشرف پاڈے نے خوف زدہ لہجے میں بولا
” تجھے یقین ہے کہ تو نے سچ کہہ دیا ہے؟“ اکبر نے اس کی گردن پر پاؤں رکھ کو بولا
” ہاں، ذرا سا بھی جھوٹ نہیں ہے۔
“ اس نے جواب دیتے ہوئے کہا
” چل پھر۔“ یہ کہہ کر اس نے اشرف کو اُٹھایا اور فوروہیل کے آ گے باندھ دیا۔ علی نواز نے اس کی مدد کی ۔اس دوران مہوش کا فون آ گیا ۔اُ س نے بتایا کہ جو پاڈے کا نمبر دیا تھا، اس سے جو نمبرملے ہیں، ان میں زیادہ تر اسی علاقے میں موجود ہیں اور چل رہے ہیں۔
اس وقت ہم سبھی آ گے بڑھنے کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے والے تھے کہ ایک گولی آ ئی اور سامنے ونڈ اسکرین میں جا لگی۔
چھناکے کے ساتھ شیشہ ٹوٹ گیا۔ ہمیں ایک دم چھپنا پڑا۔ ہمیں یہ خبر نہیں تھی کہ یہ گولی کس طرف سے آئی ہے۔چند منٹ انتظار کرنے کے بعد جیسے ہی میں نے سر اٹھایا، سامنے موجود جھاڑیوں میں سے ایک بندے نے سر اٹھایا اور پسٹل سے فائر کردیا۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ فائر کرنے کے بعد سر نیچے کر لیتا۔ سر اس نے خود نیچے نہیں کیا، بلکہ فائر لگنے کے بعد ہی وہ نیچے گرا۔
اس کے ساتھ ہی کئی لوگ جوش میں اُٹھے اور ان سے فائرنگ کا تبادلہ ہونا شروع ہو گیا۔
” جمال، جیپ میں بیٹھو، آ گے بڑھتے ہیں۔“ بانیتا نے کہا۔ اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں سمجھ گیا وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ ہم فوراً ہی جیپ میں آ بیٹھے۔ ایک جیپ جنید اور دوسری سلمان چلانے لگا تھا۔ بانیتا کور نے سن روف کھولا اور اس میں گن رکھ لی، اس نے اپنا پہلو میرے ساتھ لگا لیا۔
اسی طرح اکبر اور علی نواز نے کیا۔ ہم تیزی سے آ گے بڑھنے لگے۔ اس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے ہم کسی سفاری ٹور پر ہیں اورجانور مارنے کے لئے نکلے ہیں۔ وہ ہی ایک گروپ سامنے آ یا تھا ، پھر اس کے بعد کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔
میں سمجھ رہا تھا کہ وہ ہمیں گھیرے میں لینے کے لئے پَر تول رہے ہوں گے۔ ہم خود ان کے جال میں جارہے تھے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
راستے میں جنید کو میں نے بتادیا کہ کیا کرنا ہے ۔ وہ پوری طرح سمجھ گیا تھا۔ تقریباً ڈیرھ کلو میڑ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمیں جھونپڑیاں دکھائی دینے لگیں۔ سورج چمک رہا تھا اور اس میں ہر شے واضح دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے قریب قریب درخت نہیں تھے۔ ہم کچھ فاصلے پر جا کر رک گئے۔جیپ رکتے ہی سبھی انتہائی سرعت کے ساتھ جھاڑیوں میں پھیل گئے۔ ہر ایک کے پاس بساط بھر اسلحہ تھا۔
میں اور بانیتا کور ایک طرف ہو گئے۔ ہم اس وقت پھیل رہے تھے کہ ایک لانچر آ یا اور اس نے پہلے کھڑی جیپ کو اُڑا دیا۔ دوسری اس سے کچھ فاصلے پر تھی۔ آگ اس تک نہیں پہنچی تھی۔ وہ اشرف پاڈا اسی کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ وہ زور زور سے چیخنے لگا تھا۔ ہم انتہائی سرعت کے ساتھ وہاں سے دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ میری نگاہ جلتی ہوئی جیپ پر پڑی تو اس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
اُسے دئکھتے ہی ایک دم سے میرے دماغ میں خیال آ یا۔ میں نے جیکٹ کی جیب سے دو ہینڈ گرنیڈ نکالے ، ایک بانیتا کور کو دیا اور دوسرے کی پن کھینچ کر ان جھونپڑیوں کی طرف پھینک دئیے۔ ان کے گرتے ہی دو دھماکے ہوئے اور ان جھوپنڑیوں کوآگ لگ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی کئی لوگ باہر نکلے ، وہ ہمارے نشانے پر تھے۔ سامنے سے زبردست فائرنگ ہونے لگی۔ دشمن سامنے ہو اور وہ میرے نشانے پر ہو، اور اسے نشانہ نہ لگے۔
میں نے پسٹل کو دونوں ہاتھوں میں لیا اور ممکن حد تک انہیں نشانہ بناتا چلاگیا۔ ایک جھونپڑی سے آ گ دوسری میں لگ گئی تھی ۔ میں کچھ دیر کے لئے فائرنگ روک دی۔ لوگ وہاں سے نکل کر بھاگنے لگے۔ میری کوشش تھی کہ ان میں وہ لوگ مریں نہیں بلکہ زخمی ہو جائیں۔
سہ پہر ڈھل کر شام میں بدل رہی تھی۔ ہم سب نے ان جھونپڑیوں کو گھیرا ڈالا ہو اتھا۔ کچھ دیر بعد ایک دم سے فائرنگ کرتے اور پھر آگے بڑھ جاتے ۔
سامنے سے فائرنگ ہو رہی تھی ۔ لیکن ان کی آ نکھیں دھویں سے بند ہو رہی تھیں۔ ان کے پاس سوائے بھاگنے کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہم آ گے بڑھتے گئے ۔ یہاں تک جلتی ہوئی جھونپڑیوں کے پاس پہنچ گئے۔ اچانک ایک جھونپڑی میں سے چیخنے کی آ وازیں آ نے لگیں۔ ہمارے سامنے کئی بندے گرے ہوئے تھے۔ میں نے اور بانیتا کور نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر آ نکھوں ہی آنکھوں میں طے کر کے ایک دم اُسی جھونپڑی کی جانب بھاگے۔
اس میںآ لگی ہوئی تھی۔ سامنے ہی وہ کار خانے کا مالک بندھا ہوا چیخ رہا تھا۔ ہماری پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اسے کھولیں۔ میں نے پسٹل سیدھا کیا اور زنجیر پر فائر کر دیا ، وہ یکلخت ٹوٹ گئی ۔ وہ دیوانہ وار ہماری جانب بھاگا ۔ میں اسے لے کر باہر آ گیا۔ بھاگتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا
” اندر کوئی اور ہے تمہارا ساتھی ؟“
” نہیں کوئی نہیں ہے۔
میں ہی تھا؟“ اس نے چیختے ہوئے حواس باختہ انداز میں کہا تو میں نے سب کی طرف دیکھ کر کہا، ”کوئی نہ چھوڑو۔“
میرے کہنے کی دیر تھی کہ وہاں پر قیامت برپا ہو گئی۔ سامنے جو بھی سر اُٹھاتا، وہ مار دیا جاتا۔
ہماری پشت پر دریا تھا۔وہ لوگ سامنے سے بھاگنے لگے۔ دھویں اور آ گ میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کتنے تھے۔ ہم کچھ آ گے گئے تو سامنے کئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔
کچھ دیر تک ہم وہاں کسی زندہ بندے کی تلاش کرتے رہے مگر ہمیں کوئی نہیں ملا۔ میرے ارد گرد چند لاشیں اور کافی سارے زخمی پڑے تھے ۔ ان میں کچھ بے ہوش ہو چکے تھے۔ ان میں زندہ لوگوں کو باندھ لیا گیا تھا۔ جس وقت سورج ڈھل رہا تھا، اس وقت میں نے طارق نذیر کو فون کیا۔
” کچھ پتہ چلا؟“
” نہیں سر جی ، لیکن میں نے اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھا دیا ہے ، امید ہے کہ صبح تک مجھے کچھ نہ کچھ …“
” تم سر ٹکراتے رہنا اور میں نے ان بندوں کو پکڑ لیا ہے ۔
اگر کریڈٹ لینا ہے تو آ دھے گھنٹے میں یہاں پہنچ جاؤ۔“ میں نے دھیمے لہجے میں کہا تو ایک دم ہی چیخ اٹھا
” کہاں سر۔!“
میں نے اسے راستہ سمجھایا تو اس نے وہاں پہنچنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ تبھی میں نے سامنے کھڑے جنید سے کہا
” ان سے پتہ کرو، ان کا بڑا کون ہے؟“
” میں نے پتہ کیا ہے ، وہ بھاگ گیا ہے ۔“ اس نے جواب دیا
” چلو ان سب کو گاڑیوں میں ڈالو اور لے چلو۔
اب وہ مجھ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔“ میں نے کہا اور ساتھ ہی ان گاڑیوں کی جانب اشارہ کر دیا۔ مجھے پوری طرح پتہ تھا کہ یہ گاڑیاں چوری کی ہوں گیں۔ وہ ان بندوں کو لادنے لگے اور میں مالک کے زخم دیکھنے لگا۔ اُسے حوصلہ دینے لگا ۔ وہ بہت ڈرا اور سہما ہو اتھا۔ زویا اور بانیتا کور ارد گرد پر نگاہ رکھے پشت سے پشت جوڑے کھڑی تھیں۔
وہ جو ایک فوروہیل بچ گئی تھی اور اس کے آگے اشرف پاڈا کو باندھا ہوا تھا ، اسے کھول کر باندھا اور زخمیوں کے ساتھ پھینک دیا۔
بانیتا، زویا سلمان اور علی نواز اس میں بیٹھ کر نکل پڑے۔ اکبر نے زخمیوں والی گاڑی نکالی ، جو ساے ہی بندھے ہوئے تھے۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جبکہ جنید نے ایک دوسری گاڑی اٹھائی اور اس میں مالک کو ڈالا۔ ہم وہاں سے نکل پڑے تھے، اس وقت سوج کی لو بھی ختم ہوچکی تھی جب ہم کوٹ دلاور سے نکل کر دریا کنارے چلتے چلے گئے۔ جیسے ہی ہم سڑک کنارے آ ئے ، سامنے سے پولیس فورس کا قافلہ ہمیں آتا ہوا دکھائی دینے لگا۔
وہ جیسے ہی قریب آ یا ، میں رک گیا ۔ طارق نذیر دیوانہ وار میری جانب بڑھا۔
” یہ سارے زخمی ہیں۔ انہیں بچاؤ ، ان سے بہت کچھ معلوم ہوگا۔ باقی وہاں اب سوائے لاشوں کے اور کچھ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بہت کچھ ملے گا۔ میں اسے ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔“ میں نے مالک کی طرف اشارہ کیا۔
” اوکے ، میں ملتا ہوں۔“ اس نے کہا اور قافلے کی طرف چل پڑا ، جو اس سے کافی آ گے نکل گیا تھا۔ میں نے جنید کو دیکھا ، اس نے گاڑی بھگا لی ۔ ہم وہاں سے شہر کی جانب روانہ ہو گئے۔
#…#…#