ولید احمد کا تعلق پنجاب کے شہر جہلم سے تھا۔ اس کا باپ ایک چھوٹا زمیندار تھا ، جس کی چند ایکڑ زمین تھی۔ جو قیام پاکستان سے پہلے ہی کی آ بائی زمین تھی۔ ولید باپ کا اکلوتا بیٹا ہی تھا۔ دو بہنیں تھیں جو اس سے بڑی تھیں اور اپنوں گھروں میںآ باد تھیں۔ اس کا بچپن بہت غربت میں گذرا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کی ابتدا ٹاٹ سکولوں سے کی تھی۔ وہ بہت ذہین تھا۔
ہر امتحان میں امتیازی نمبر لیتا ہوا بورڈ میں پہلی پوزیشن لی۔ آگے پڑھنے کے لیے اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا۔ باپ نے حوصلہ دیا اور زمین کا ایک ٹکڑا گروی رکھ کر اسے کالج میں داخلہ دلوا لیا۔ اس نے سائنس مضامین کا انتخاب کیا ۔ جب تک اس نے کالج کی تعلیم ختم کی، اور انجینئرنگ میں جانے کا وقت آیا اس وقت تک وہ غربت کی انتہاؤں پر پہنچ چکا تھا۔
(جاری ہے)
باپنے زمین بیچ دینے کا ارادہ کر لیا۔ جس جاگیر دار نے وہ زمین گروی رکھی ہوئی تھی، اس نے اپنی رقم کے عوض زمین پر قبضہ کر لیا۔ نہ زمین بکی اور گروی زمین چھڑوا سکے ۔ وہ انجینئرنگ میں نہ جا سکا۔باپ نے اسے حوصلہ نہ ہارنے کا کہا اور آگے پڑھائی جاری رکھنے پر زور دیا۔ مجبوراً اُسے یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑا ۔ یونیورسٹی میں ولید کے اندر جو لیڈرانہ صلاحتیں تھیں، ان کا اظہار ہونے لگا تھا۔
اس کی دو وجواہت تھیں، ایک اس کے اندر کا غصہ دوسرا، استحصالی نظام سے نفرت ۔ان دنوں طلبہ تنظیموں پر پابندی تھی۔ طلبہ نے اپنے اظہار کے کئی دوسرے راستے نکال لئے تھے ۔ مقامی جاگیر دار نے پہل تو اسے اپنے انداز میں استعمال کرنے کو شش کی، پھر باقاعدہ اس کی مخالفت پر اُتر آیا۔ جس کا خمیازہ ولید کو زمین چھن جانے کی صورت میں ملا۔ یہاں تک کہ جب اس نے یونیورسٹی کی تعلیم ختم کی تب تک وہ پورے علاقے کے سیاسی لوگوں میں اپنی پہچان بنا چکا تھا۔
وہ ایک شعلہ جوالا تھا، جو کسی بھی وقت کہیں بھی آ گ لگا سکتا تھا ۔ انہی دنوں وہ کرنل سرفراز کی نگاہ میںآ گیا۔ اس نے ولید کو حوصلہ دیا اور پڑھنے کے لئے بریڈ فورڈ یونیوسٹی بھجوا دیا۔ وہاں اس نے اپنی پڑھائی کے ساتھ کام بھی کیا۔ اس نے سیاست اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پیسے بنائے اور اپنے والدین کی کفالت کرتا رہا۔ چھ سال تک وہ وہیں رہا ۔
پڑھائی ختم کرنے کے فوراً بعد اس نے وہاں رہنے کی بجائے پاکستان آنے کر ترجیح دی۔ کرنل سرفراز کی مدد اس کے ساتھ شامل تھی۔ اس نے یہاںآ تے ہی اپنا بزنس شروع کیا اور سیاست کے لئے بالکل نئی پارٹی کا انتخاب کر لیا۔ اس نے مقامی زمیندار کو بالکل نہیں چھیڑا ، بلکہ اسے نظر انداز کر کے اپنی ساکھ بنانی شروع کر دی تھی۔اسے پاکستان آئے دو برس ہو چکے تھے۔
میں نے اسے فون کیا۔ وہ میرے ہی انتظار میں تھا۔
’ ’ کہاں ہو ؟ “ میں نے پوچھا
” میں لاہور سے ابھی تھوڑی دور ہوں۔ گوجرانولا کراس کر آیاہوں۔“ اس نے بتایا
” ٹھیک ہے ، راوی پل پر آ کر مجھ سے رابطہ کرنا۔“ میں نے کہا ور فون بند کر دیا۔
سہ پہر کا وقت تھا جب میں نے جنید اور اکبر کو ساتھ لیا اور نکل پڑا۔ میں ابھی راستے ہی میں تھا جب ولید کا فون آ گیا۔
میں نے اقبال پارک میں مینار پاکستان کے پاس پہنچ جانے کو کہا۔ ہم وہاں پہنچ گئے ۔ وہ مینار پاکستان کے سائے میں کھڑا تھا۔ ہم اس کے قریب چلے گئے ۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی تصویر دیکھ چکے تھے۔ وہ لمبے قد کا ایک متوازن اور بارعب شخصیت کا مالک تھا ۔ اس نے سفید شلوار قمیص کے ساتھ گہرے نیلے رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا، جس کے اندر ہلکے نیلے کا سکارف تھا۔
علیک سلیک کے بعد ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے ۔ اکبر اور جنید دونوں خاموش پاس کھڑے رہے۔ میں نے اسے کہا
” ولید۔! مسلمانوں نے الگ وطن کا جدوجہد نجانے کب سے کی تھی ۔ اس کے لئے بڑی قربانیاں بھی دیں۔ لیکن الگ وطن کا مطالبہ ۱۹۴۰ء میں یہاں کیا۔ مقصد کا تعین کیا اور چند برس میں الگ وطن حاصل کر لیا۔“
” جی ، میں اس وقت کو بہت اچھی طرح محسوس کر سکتا ہوں۔
“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا
” تم شاید میری بات نہ سمجھ سکو۔ لیکن میں نے وہ منظر دیکھا ہے ، اس وقت کے مسلمان اور آج کے مسلمان میں فرق کیا ، مجھے یہ بھی نہیں کہنا،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اسی قوم میں ایک نئی روح پھونکنی ہے۔یہ جو مردہ قوم ہے ، اسی میں ایک نئی زندگی بیدار کرنی ہے۔“ میں نے خیالوں میں کھوئی ہوئے انداز میں کہا
” آپ کے خیال میں یہ کیسے ہوگا؟“ اس نے پوچھا
” سنو۔
! اپنی قوم کو یہ پیغام دینا ہے کہ اس زندہ آئین کی طرف آ، جس میں زندگی ہے ، زندگی کی حفاظت ہے، زندگی کی بقا ہے۔ جو تیری عزت ، فخر اور غیرت ہے۔ مردہ آئین و قوانین کو جلا دے اور زندہ آئین و قوانین کو لے آ۔ جس آئین کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ اس اندھیرے کو جس نے تیری آنکھوں اور فکر کو اندھا کیا ہوا ہے اس زندہ آئین و قوانین سے جَلا ڈال۔ یہی مقصد اس ملک کے وجود میںآ نے کا ہے ۔
“
” زندہ آئین و قوانین کا مطلب آپ قرآن و سنت ہی کو لے رہے ہیں نا۔“ اس نے پوچھا
” ہاں، زندہ آئین و قوانین کے علاوہ کسی دوسرے آئین و قوانین کو نہ مان ۔جس میں حکمرانوں کو استثنی حاصل ہوں اور قوم کو کچھ بھی حاصل نہ ہو۔اگر تمہیں طمانچہ لگانا ہے تو عدالت میں طمانچے کا جواب طمانچہ ہے۔ لیکن یہ ان حکمرانوں کو گوارا نہیں۔ اسی لئے کہ زندہ آئین و قوانین، زندہ کے لئے ہیں۔
مردہ سوچ کچھ قوت نہیں رکھتی۔ تُو انیس کروڑ اورو ہ چند لوگ مردہ خور۔ حکمرانوں پر کوئی آئین لاگو نہیں۔ یوں لگتا ہے عدلیہ اورانتظامیہ کوحکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والے عوامی دماغوں کا’ علاج ‘کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے ۔
اے نوجوان ِاسلام اٹھ کھڑا ہو۔اسی اعلی مقصد کے لئے۔ یہ جو وطن عزیز کی بنیادوں میں خون ہے، یہ تیرا ہی خون ہے ، اور تو اُن کا خون ہے ، تُو جہاں بھی ہے ، تعلیم میں، صحافت میں، سائنس میں ، میڈیا میں، سیاست میں، ٹیکنالوجی میں ، فوج میں، تو جس شعبہ زندگی میں بھی ہے۔
جہد عمل میںآ جا کیونکہ عمل ہی سے ہر شے ظہور میں آتی ہے۔ تو بہت بڑی قوت ہے ، یقین نہیں آتا تو تاریخ پر نظر ڈال ۔ان سلاطین کی طرف نہ دیکھ، ملّاکی طرف نہ دیکھ ، پیران عظام کی طرف نہ دیکھ،صرف اپنی طرف دیکھ ، اپنے دل کی طرف دیکھ اور حق سے قوت پالے۔ ”باقی نہ رہی تجھ میں وہ آئین ضمیری… اے کشتہء سلطانی، ملائی وپیری“
” جی بالکل۔“ اس نے بہت توجہ سے سنتے ہوئے کہا تو میں نے اپنی بات جاری رکھی
”کیا وجہ ہے کہ ایک عام آدمی محب دین و ملت ووطن ، جو بے لوث خدمت کا عزم رکھتا ہے ہو وہ ایوان اقتدار میں کیوں نہیں پہنچ سکتا۔
انہوں نے رکاوٹیں ہی اتنی کھڑی کی ہوئی ہوئیں ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی ان ایوانوں کے متعلق سوچ بھی نہ سکے۔ کیاان کے علاوہ کوئی اعلی دماغ نہیں جو عنانِ حکومت سنبھال سکے۔ اس شیطانیت کے جال کو پھاڑ ڈالو، جس طرح یہ وطن حاصل کیاتھا ۔ تجھے تو اعلی پیدا کیاگیا تھا اور شیطان مردود تجھے نیچا دکھانے کے درپے ہے۔ تجھے محکومی ، محتاجی اور غلامی میں ڈالا ہے۔
یہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے بے غیر توں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا یہ دن رات سڑکوں پر بادشاہت کا تماشا نہیں ہے کہ شاہی سواریاں گذرتی ہیں تو سیکورٹی الرٹ کے نام پر سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ بوڑھے ، بیمار بچے ایمر جنسی والے ذلیل و خوار ہوتے ہیں یہاں تک کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں،ہسپتال کی بجائے رکشوں میں بچے جننے پر مجبور ہیں۔
کیا بات ہے ان عوامی نمائندوں کی جنہیں عوام کا احساس ہی نہیں۔ یہ عوامی جمہوریت کا تماشا ہے یا بادشاہت کا بے غیرتانہ مظاہرہ۔ ان کا حکومت میںآ نے کا مقصد سرمایہ داری ، جاگیر داری ، وڈیرہ شاہی، غرور ، تکبر ہوسناکی کی حفاظت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تاکہ ملکی سرمایہ کو ، زمین کو اور وسائل پر زیادہ سے زیادہ فتوحات کر سکیں۔ تاکہ اس پورے ملک کو اپنی جاگیر بنا لیں ان کی حسین صبحوں کودیکھو اور ان کی رنگین شاموں کو دیکھو اور عوامی امنگوں کا قتل عام دیکھو ۔
“ میں نے یہ کہہ کر ایک لمحہ سانس لیا اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا” اے عشق جلو ہ گر ہو ، خود نمائی اور خودا فزائی فرما ، اپنے لشکر سے سامنے آ ، عقل نے حرم پاک میں بغاوت کر ڈالی ہے تو اپنے نشتر سے ان کی کھوپڑ یوں سے خون فاسد نکال دے ۔ عقل کو پنجہ شیطانی سے آزاد کر ، اسے اپنے قبضہ میں لے لے ، اس کی گردنوں سے لینٹرنکال دے تاکہ یہ انسان بنیں اور انہیں انسان نظر آئیں۔
“
وہ خاموش کھڑا میری طرف دیکھتا رہا ۔ اور میں کہتا چلا گیا۔
”قوم کو بیدار کرنے کے لئے کہو۔!یہ جو ان لوگوں نے تم پر جیتے جی موت وارد کی ہوئی ہے۔ تیری ذہنی خوبیوں کو جو نئی تخلیق و ایجادات کی حامل ہیں اگر تو اپنی ضروریات خود پوری کرے گا تو تجھے دوسروں سے مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہی تیری خود داری ہے۔ لیکن یہ لوگ نہیں چاہتے کہ تو خود دار ہو جائے ۔
قومیں اعلی ذہنوں کو وسائل مہیا کرتیں ہیں۔ جبکہ انہوں نے تیری ذہنی خوبیوں کے ہاتھ کاٹ دئیے ہیں۔ان کا مقصد برآمدات و درآمدات سے ٹیکس بٹورنا ہے۔ تو جانتاہے کہ حرکت میں زندگی ہے اور موت سکون۔ زندہ بنو اور ان زنجیروں کو توڑ دو ۔ زندہ بنو ، حرکت میںآ جاؤ۔ اسی زندہ انقلاب کی طرف آؤ ، اپنی طرف آؤ ۔ دل کی طرف آؤ۔ خوداری کی طرف آؤ ، پاش پاش کردو ان رکاوٹوں کو۔