Episode 92 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 92 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

دن کے دس بج چکے تھے۔ جسپال سنگھ، انوجیت اور بلبیر سنگھ پینچ تینوں ہی اوگی پنڈ کی پولیس چوکی جا پہنچے۔ تھانے میں انسپکٹر موجود تھا۔ ان کی آمد کے بارے میں جیسے ہی اسے پتہ چلا، وہ اپنے آفس سے باہر نکل آیا۔ انہیں اپنے ساتھ لے کر اپنے آفس میں بٹھایا۔
” دیکھیں جی ، ہم تو حکم کے پابند ہیں۔ اوپر سے حکم ہوا کہ آپ کو گرفتار کر لیں، ہم گرفتار کرنے چل پڑے، اب حکم یہ ہے کہ آپ کی بات مانی جائے۔
سو آپ حکم کریں، ہم تو ملازم ہیں۔“ اس نے یوں ملائمت سے کہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔
” اصل دکھ تو یہی ہے نا کہ جو کام جس کا ہے وہ نہیں کر رہا ، بلکہ عوامی اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے دن بدن بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھو، ہمارے علاقے میں کتنا غیر قانونی نشہ فروخت ہو رہاہے۔

(جاری ہے)

کئی ایسے دھندے ہیں۔ جن سے آپ کی بھی جگاڑ لگتی ہے اور وہ بھی کھلم کھلا سب کر رہے ہیں۔

رہ گئی بے چاری عوام ، جس کے لئے یہ ادارے بنے ہیں، وہ تو گئی نا بھاڑ میں۔“ جسپال نے بڑے دکھی لہجے میں کہا
” اور سر جی ، یہ قصور بھی تو عوام ہی کا ہے نا، کیوں ایسے لوگوں کو چنتے ہیں جب عوام کے ہاتھ میں طاقت ہے تو وہ کیوں نہیں استعمال کرتے ۔“ انسپکٹر نے کہا
” اس میں بھی بڑی خرابیاں ہیں۔ بات جہاں سے بھی چلے گی۔ قانون کی حاکمیت پر آ کر رکے گی۔
خیر۔! بتا سکتے ہو کہ یہاں سے میرے خلاف کون بندہ ہے؟“ جسپال نے اس کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
” جی مجھ سے نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ وہ بھی زور آور ہیں اور آپ بھی۔ میں تویہی کہوں گا کہ مجھے اوپر سے حکم ملااور انہوں نے اس افواہوں کی بنیاد پر یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ جو آپ کے بارے میں پورے علاقے میں مشہور ہیں۔“ اس نے تیزی سے کہا
” کیسی افواہیں؟“ جسپال نے پوچھا
” یہی کہ آ پ دہشت گرد ہو ۔
جو بھی آپ سے دشمنی لیتا ہے، وہ پھر زندہ نہیں رہتا۔غیر ملکی ایجنٹ اور نجانے کیا کیا پھیلا ہوا ہے آپ کے بارے میں؟“ اس نے بے خوف انداز میں کہا تو بلبیر سنگھ پینچ بولا
” ارے انسپکٹر صاحب۔! جو بے چارہ اپنی حویلی دوباہ ٹھیک نہیں کروا سکا۔جو اپنے گاؤں میں ہی سکون سے نہیں رہ پارہا، وہ کیا ہوگا۔ خیر ۔! آ ئندہ کوئی ایسا معاملہ ہو تو پہلے مجھے بتاؤ۔
میں اس گاؤں کا پینچ ہوں ، سمجھے۔ اب ہم چلتے ہیں۔“ 
” اوہ سرکار، چائے تو پی کر جائیں، بندہ گیا ہے لینے ۔ ‘ ‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا
” پھر کسی وقت سہی۔ بلکہ ہم آپ کو چائے پر بلائیں گے۔“ جسپال نے کہا اور باہر نکل گئے۔ 
جس وقت واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ایک بار سردار ویر سنگھ جی سے ضرور بات کریں گے۔
کیونکہ اس سے بات کرنا ضروری تھا۔ وہ تینوں وہیں سے سیدھے اسی پاس چلے گئے۔ اس وقت وہ اپنی حویلی پر نہیں ڈیرے پر تھا۔ وہ انہیں دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔
” سردار جی۔! آپ بیٹھیں، آپ ہمارے لئے بڑے محترم ہیں، کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔“ جسپال نے آگے بڑھ کر انہیں کاندھوں سے پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا
” نہیں پتر، مجھے تو تیرے سامنے زمین پر بیٹھنا چاہئے ، میں تم سے بہت شرمندہ ہوں۔
“ سردار ویر سنگھ نے ان سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا
” ایسا بھی کیا سردار ویر سنگھ ، تو کیوں شرمندہ ہے۔“ بلبیر سنگھ پینچ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” دیکھ، اس لڑکے نے مجھ پر بھروسہ کیا۔ میرے ساتھ چلا، مجھے خود کہا کہ اگر سیاست میں مجھے حق دیتا ہے، لیکن جوگندر اور سریندر نے اچھا نہیں کیا۔ میں جانتا ہوں ، انہوں نے کیا کیا ہے۔
میں نے بہت روکا انہیں۔“ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا
” سردار وہ تیری مرضی کے خلاف کیسے چلے گئے۔“ بلبیر سنگھ پینچ نے اس سے پوچھا
” وہ میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں مر جاؤں اور وہ میری جائیداد کو آپس میں بانٹ لیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔“ اس نے بہت دکھ سے کہا
” سردار ویر سنگھ اتنا دکھی نہ ہو ، بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔
ہوا کیاہے؟“ بلبیرسنگھ پینچ نے پوچھا ۔ وہ سب بیٹھ گئے تو سردار ویر سنگھ نے کہا
” وہ جوان ہو گئے ہیں۔ میرے منہ بولے بیٹے ہیں، میں نے کافی سے زیادہ جائیداد ان کے نام لگوا دی ہے۔ باقی بھی انہی کا تھا۔ وہ اس علاقے کی سیاست پر بھی قابض ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ جسپال سنگھ یوں آ جائے گا اور ان کے خوابوں پر پانی پھر جائے گا۔
شاید انہوں نے یہ سوچا ہو کہ انوجیت سنگھ کی وہ بات نہیں بن سکے گی، جو وہ بنانا چاہ رہے ہیں، جو بھی ہے ، میرا ان سے اختلاف ہوا ہے اس بات پر۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس علاقے میں زیادہ پہنچ ہے، وہ زیادہ رسائی رکھتے ہیں، ان کا ووٹ بنک زیادہ ہے۔ سو ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے ہیں۔ میراان پر کوئی بس نہیں ہے۔
“ وہ بھاری لہجے میں بولا اس پر جسپال سنگھ چند لمحے خاموش رہا پھر کہا 
” آپ نے بات صاف کہی، آپ سے ہمیں کوئی گلہ نہیں ۔ لیکن کیا آپ انہیں پیغام دے سکتے ہیں میرا؟“ 
” بولو بیٹا۔! “ اس نے کہا
” یہی کہ وہ آج شام سے پہلے پہلے آ کر معافی مانگ لیں اور کل صبح علاقے بھر کے بڑوں تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، تو بات ختم ہو سکتی ہے، میں اسے بھول جاؤں گا۔ ورنہ نہیں۔ کیونکہ جب دو بھاگتے ہیں تو ان کے لئے میدان ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔“ جسپال نے گہری سنجیدگی سے کہا اور اٹھ گیا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط