دن کے دس بج چکے تھے۔ جسپال سنگھ، انوجیت اور بلبیر سنگھ پینچ تینوں ہی اوگی پنڈ کی پولیس چوکی جا پہنچے۔ تھانے میں انسپکٹر موجود تھا۔ ان کی آمد کے بارے میں جیسے ہی اسے پتہ چلا، وہ اپنے آفس سے باہر نکل آیا۔ انہیں اپنے ساتھ لے کر اپنے آفس میں بٹھایا۔
” دیکھیں جی ، ہم تو حکم کے پابند ہیں۔ اوپر سے حکم ہوا کہ آپ کو گرفتار کر لیں، ہم گرفتار کرنے چل پڑے، اب حکم یہ ہے کہ آپ کی بات مانی جائے۔
سو آپ حکم کریں، ہم تو ملازم ہیں۔“ اس نے یوں ملائمت سے کہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔
” اصل دکھ تو یہی ہے نا کہ جو کام جس کا ہے وہ نہیں کر رہا ، بلکہ عوامی اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے دن بدن بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھو، ہمارے علاقے میں کتنا غیر قانونی نشہ فروخت ہو رہاہے۔
(جاری ہے)
کئی ایسے دھندے ہیں۔ جن سے آپ کی بھی جگاڑ لگتی ہے اور وہ بھی کھلم کھلا سب کر رہے ہیں۔
رہ گئی بے چاری عوام ، جس کے لئے یہ ادارے بنے ہیں، وہ تو گئی نا بھاڑ میں۔“ جسپال نے بڑے دکھی لہجے میں کہا
” اور سر جی ، یہ قصور بھی تو عوام ہی کا ہے نا، کیوں ایسے لوگوں کو چنتے ہیں جب عوام کے ہاتھ میں طاقت ہے تو وہ کیوں نہیں استعمال کرتے ۔“ انسپکٹر نے کہا
” اس میں بھی بڑی خرابیاں ہیں۔ بات جہاں سے بھی چلے گی۔ قانون کی حاکمیت پر آ کر رکے گی۔
خیر۔! بتا سکتے ہو کہ یہاں سے میرے خلاف کون بندہ ہے؟“ جسپال نے اس کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
” جی مجھ سے نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ وہ بھی زور آور ہیں اور آپ بھی۔ میں تویہی کہوں گا کہ مجھے اوپر سے حکم ملااور انہوں نے اس افواہوں کی بنیاد پر یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ جو آپ کے بارے میں پورے علاقے میں مشہور ہیں۔“ اس نے تیزی سے کہا
” کیسی افواہیں؟“ جسپال نے پوچھا
” یہی کہ آ پ دہشت گرد ہو ۔
جو بھی آپ سے دشمنی لیتا ہے، وہ پھر زندہ نہیں رہتا۔غیر ملکی ایجنٹ اور نجانے کیا کیا پھیلا ہوا ہے آپ کے بارے میں؟“ اس نے بے خوف انداز میں کہا تو بلبیر سنگھ پینچ بولا
” ارے انسپکٹر صاحب۔! جو بے چارہ اپنی حویلی دوباہ ٹھیک نہیں کروا سکا۔جو اپنے گاؤں میں ہی سکون سے نہیں رہ پارہا، وہ کیا ہوگا۔ خیر ۔! آ ئندہ کوئی ایسا معاملہ ہو تو پہلے مجھے بتاؤ۔
میں اس گاؤں کا پینچ ہوں ، سمجھے۔ اب ہم چلتے ہیں۔“
” اوہ سرکار، چائے تو پی کر جائیں، بندہ گیا ہے لینے ۔ ‘ ‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا
” پھر کسی وقت سہی۔ بلکہ ہم آپ کو چائے پر بلائیں گے۔“ جسپال نے کہا اور باہر نکل گئے۔
جس وقت واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ایک بار سردار ویر سنگھ جی سے ضرور بات کریں گے۔
کیونکہ اس سے بات کرنا ضروری تھا۔ وہ تینوں وہیں سے سیدھے اسی پاس چلے گئے۔ اس وقت وہ اپنی حویلی پر نہیں ڈیرے پر تھا۔ وہ انہیں دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔
” سردار جی۔! آپ بیٹھیں، آپ ہمارے لئے بڑے محترم ہیں، کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔“ جسپال نے آگے بڑھ کر انہیں کاندھوں سے پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا
” نہیں پتر، مجھے تو تیرے سامنے زمین پر بیٹھنا چاہئے ، میں تم سے بہت شرمندہ ہوں۔
“ سردار ویر سنگھ نے ان سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا
” ایسا بھی کیا سردار ویر سنگھ ، تو کیوں شرمندہ ہے۔“ بلبیر سنگھ پینچ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” دیکھ، اس لڑکے نے مجھ پر بھروسہ کیا۔ میرے ساتھ چلا، مجھے خود کہا کہ اگر سیاست میں مجھے حق دیتا ہے، لیکن جوگندر اور سریندر نے اچھا نہیں کیا۔ میں جانتا ہوں ، انہوں نے کیا کیا ہے۔
میں نے بہت روکا انہیں۔“ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا
” سردار وہ تیری مرضی کے خلاف کیسے چلے گئے۔“ بلبیر سنگھ پینچ نے اس سے پوچھا
” وہ میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں مر جاؤں اور وہ میری جائیداد کو آپس میں بانٹ لیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔“ اس نے بہت دکھ سے کہا
” سردار ویر سنگھ اتنا دکھی نہ ہو ، بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔
ہوا کیاہے؟“ بلبیرسنگھ پینچ نے پوچھا ۔ وہ سب بیٹھ گئے تو سردار ویر سنگھ نے کہا
” وہ جوان ہو گئے ہیں۔ میرے منہ بولے بیٹے ہیں، میں نے کافی سے زیادہ جائیداد ان کے نام لگوا دی ہے۔ باقی بھی انہی کا تھا۔ وہ اس علاقے کی سیاست پر بھی قابض ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ جسپال سنگھ یوں آ جائے گا اور ان کے خوابوں پر پانی پھر جائے گا۔
شاید انہوں نے یہ سوچا ہو کہ انوجیت سنگھ کی وہ بات نہیں بن سکے گی، جو وہ بنانا چاہ رہے ہیں، جو بھی ہے ، میرا ان سے اختلاف ہوا ہے اس بات پر۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس علاقے میں زیادہ پہنچ ہے، وہ زیادہ رسائی رکھتے ہیں، ان کا ووٹ بنک زیادہ ہے۔ سو ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے ہیں۔ میراان پر کوئی بس نہیں ہے۔
“ وہ بھاری لہجے میں بولا اس پر جسپال سنگھ چند لمحے خاموش رہا پھر کہا
” آپ نے بات صاف کہی، آپ سے ہمیں کوئی گلہ نہیں ۔ لیکن کیا آپ انہیں پیغام دے سکتے ہیں میرا؟“
” بولو بیٹا۔! “ اس نے کہا
” یہی کہ وہ آج شام سے پہلے پہلے آ کر معافی مانگ لیں اور کل صبح علاقے بھر کے بڑوں تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، تو بات ختم ہو سکتی ہے، میں اسے بھول جاؤں گا۔ ورنہ نہیں۔ کیونکہ جب دو بھاگتے ہیں تو ان کے لئے میدان ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔“ جسپال نے گہری سنجیدگی سے کہا اور اٹھ گیا۔