” یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“
” ممکن ہے یہ زوردار سنگھ کو دھوکا دے رہا ہو ؟“ اس نے تیزی سے کہا۔
” پھر بھی یہ سوال رہے گا کہ کیوں اور کون لوگ؟“ اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
” یہ ایک لمبی بحث ہو سکتی ہے ۔ بہت سارے سوال پیدا ہو سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے ، ہمیں زوردار سنگھ سے بات کر لینی چاہئے ، ان کے پاس کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوگا۔
کوئی راستہ نکلے گا، پھر کرنا تو ہمی نے ہے۔یہاں سے نکلو ، پھر دیکھتے ہیں۔“ جسپال نے کہا تو وہ ایک دم سے مانتے ہوئے بولی۔
” اوکے ڈن ۔ چلو۔“
دودونوں تیز قدموں سے چلتے ہوئے راہداری پار کر کے استقبالیہ ہال میں آ گئے۔ وہ وہاں رکے نہیں ، آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔
وہ اسپتال سے باہر آ گئے۔ اس دوران بانیتا کور نے فون کر کے پوری صورت حال زوردار سنگھ کو بتا دی ۔
(جاری ہے)
اس نے بھی آ جانے کو کہا۔ اس وقت وہ پارکنگ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایک دم سے چار لوگ کاروں کی اوٹ سے نکلے اور ان پر پل پڑے۔ ایک زور دار پنچ جسپال کی گردن پر پڑا تھا۔ اگر چہ وہ سہار گیا لیکن اس کے ساتھ دوسرے نے اس کے پیٹ میں لات ماری ۔ یہی کچھ بانیتا کورکے ساتھ ہو رہا تھا۔ اچانک افتاد پر وہ گھیرے تو گئے لیکن انہوں نے جیسے ہی مزاحمت کی ایک پانچواں بندہ ریوالور تانے سامنے آگیا۔
اس نے بڑے کھردرے لہجے میں حکم دیتے ہوئے کہا ۔
” رک جاؤ ۔“
وہ چاروں انہیں چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے اور فوراً ہی انہوں نے بھی اپنے اپنے ریوالور نکال لیے ۔
” کون ہو تم لوگ؟“ جسپال نے پوچھا۔
” سوال کرنے کا حق صرف ہمیں ہے ۔ صرف ہم نے پوچھنا ہے اور تم لوگوں نے جواب دینا ہے۔ “ سامنے والے نے اسی کھردرے انداز میں کہا تو پارکنگ میں ایک دم سے سناٹا چھا گیا۔
(باقی ان شاء الله آئندہ ماہ)
جسپال اور بانیتا حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے پیچھے دو، دائیں بائیں دو اور ایک سامنے پسٹل تانے کھڑا تھا۔ وہ بھاگنا تو کیا لڑنے کی پو زیشن میں بھی نہیں تھے۔
” کون ہو تم اور اس طرح ہمیں کیوں…“ جسپال نے پوچھا تو سامنے والے نے کھردری آواز میں تلخی سے جواب دیا۔ ٍ
” بھونکتا کیوں ہے ، بتایا نہیں سوال صرف ہم نے کرنا ہے ، تم نے صرف جواب دینا ہے ؟“
” پوچھو، کیا پوچھتے ہو؟“ جسپال نے یو ں کہا جیسے ہتھیار ڈال دئیے ہوں۔
” وہ جمال کدھر ہے، جسے تو نے جزیرے سے اٹھایا تھا۔ اب یہ مت کہنا کہ تجھے پتہ نہیں۔“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
” میں ہی جمال ہوں ۔ بولو کیا کہنا ہے؟“ جسپال نے اعتماد سے کہا۔
” جب تمہارے جسم کا ریشہ ریشہ الگ ہوگا تو تیرے بدن کی بوٹی بوٹی بولے گی کہ جمال کدھر ہے۔“ وہ انتہائی نفرت سے بولا۔
” سندو کدھر ہے؟“ جسپال نے جواب دینے کی بجائے پوچھا تو اس نے غصے میں کہا۔
” میرے پاس ہے ، وہ بھی سب بکے گا۔ جس طرح تم بکو گے۔“ یہ کہہ کر اس نے پسٹل تانتے ہوئے جسپال پر نگاہیں جمائے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
” چلو ، انہیں لے چلو۔“ ۔ ایسے میں ان چاروں نے انہیں آ کر پکڑلیا اور پاس کھڑی ایک ہائی ایس کی جانب بڑھے۔ ابھی وہ دو قدم ہی آ گے بڑھے ہوں گے کہ اچانک دو لوگوں کی چیخیں بلند ہوئیں اور انہوں نے بے ساختگی میں بانیتا اور جسپال کو چھوڑ دیا۔
یہی وہ لمحہ تھا ، جس کا فائدہ انہوں نے اٹھایا۔ گولی کسی نے بھی چلائی ہو، فی الوقت گرفت تو انہی کی کمزور ہوئی تھی۔ انہوں نے پہلے پسٹل والے ہاتھ کو قابو کیا ، دوسرا زور دار پنچ ان کے چہرے پر مارا۔ وہ لڑکھڑا گئے ۔ دونوں نے بیک وقت اپنے اپنے گھٹنے کا استعمال کیا، وہ ایک دم سے چیخے اور ان کی گرفت مزیدڈھیلی پڑ گئی۔ دونوں نے حملہ آوروں کے پسٹل چھین لیے ۔
تب تک ایک اور فائر ہوا، وہ پانچواں جس نے پسٹل تان کر باتیں کی تھیں، وہ کراہتا ہوا زمیں بوس ہو گیا۔ بانیتا اور جسپال دونوں ہائی ایس میں گھس گئے۔ تبھی جسپال نے باہر کا منظر دیکھا۔ پارکنگ میں چند لوگ موجود تھے۔ جو ملجگی روشنی میں صاف دکھائی دے رہے تھے۔
” جسپال گھبرانا مت ، ہم پہنچ چکے ہیں۔“ نوتن کور کی سامنے سے آواز آئی تو وہ باہر نکل آئے ۔
ان پانچوں کو فائر لگ چکا تھا۔لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ کون زندہ ہے اور کون زندہ نہیں رہا۔ جسپال اسی پانچویں بندے کے پاس گیا اور ٹھوکر مارتے ہوئے پوچھا۔
” اب جواب دو گے یا مرنا پسند کرو گے؟“
” میں مر رہا ہوں ، مجھے بچاؤ۔“ اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔
” ایک شرط پر ، ابھی اسپتال لے جاؤں گا، بولو تم لوگ کون ہو اور سندو کہاں ہے ؟“
” ہمیں آفیشل آرڈر ملے ہیں کہ یہاں سے سندو نامی بندے کو اٹھانا ہے اور جو بھی اس کی معلومات کے لیے آئے ، اسے بھی پکڑنا ہے ۔
“ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔
” کس نے دئیے یہ آرڈر، آرمی ، را ، پولیس؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔
” پولیس کا…“ اس نے مشکل سے بتایا
” سندو کہاں ہے ؟“ جسپال نے پوچھا۔
” ہمارے ہی ایک سیف ہاؤس میں ہے ۔“ اس نے اٹکتے ہوئے بتایا
” رابطہ کرو اور بتاؤ کہ تم کس حالت میں ہو ۔ اسے واپس لایا جائے ، ورنہ تم پانچوں تو گئے ۔
“ جسپال نے کہا۔
” وہ ابھی تک میری ہی کسٹڈی میں ہے۔ میں مر گیا تو وہ تمہیں نہیں ملے گا۔ مجھے اسپتال لے چلو۔“ اس کے کہنے پر جسپال نے ایک لمحہ کے لیے سوچا اور پھر ایک دم سے پسٹل نکال کر اس کے ماتھے پر رکھ دیا۔
”ہمیں اس کی اتنی ضرورت نہیں، بھلے مار دو اُسے۔ لیکن اب ممبئی پولیس کے ساتھ ہماری جنگ شروع ہے ۔ لو ،مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔
“ یہ کہہ کر اس نے فائر کر دیا۔ اس نے دوسرا سانس بھی نہیں لیا اور اس کا سر ڈھلک گیا۔ پھر اس نے باقی چاروں کی طرف دیکھا اور بولا۔
” ان چاروں کو دیکھو۔ جو زندہ ہواس سے پوچھو، سندو کہاں ہے ؟ جو جواب نہ دے اسے گولی مار دو۔ اور ان کے سیل فون نکال لو ۔“ جسپال نے تیزی سے کہا۔
” ایک کو گولی نہیں لگی۔ باقی تینوں مر چکے ہیں۔“بانیتا کی آواز گونجی تو قریب پڑا شخص نے جو زندہ بچاتھا تیزی سے بولا۔
” وہ اسی علاقے کے سیف ہاؤس میں ہے۔“
” کہاں ہے وہ سیف ہاؤس؟“ بانیتا نے پوچھا تو اس نے پتہ بتا دیا۔ وہ قریب ہی دیوکی نگر میں تھا۔
” تم لوگ اسے لے کر نکلو، ہم دیکھ لیتے ہیں۔ اگر اس نے غلط بیانی کی ہو تو اسے راستے میں مار کر پھینک دینا ۔ جلدی، وقت کم ہے ، فائرنگ کی آواز بہت دور تک گئی ہوگی۔“ نوتن کور نے کہا تو جسپال نے قریب پڑے بندے کو اٹھایا اور ہائی ایس میں پھینک دیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔
باقی مرے ہوئے لوگ لہو لہان ہو رہے تھے۔ چند لمحوں ہی میں وہ وہاں سے چل دئیے۔ نوتن کور کے ساتھ آئے لوگ ان کی وین کے آگے پیچھے تھے ۔ اگرچہ فائرنگ سے کافی سارے لوگ متوجہ ہو گئے تھے لیکن کوئی قریب نہیں آیا تھا۔ وہ کسی مزاحمت کے بغیر وہاں سے نکل گئے تھے۔ سڑک پر آتے ہی ان کے راستے جدا ہو گئے۔ ذرا سا فاصلہ طے پایا تھا کہ اس زندہ بندے کا سیل فون بول پڑا۔ وہ مضطرب ہو گیا تو بانیتا نے اسے کہا۔
” کر و بات۔“
” میرے آ فیسر کا فون ہے۔“ اس نے اسکرین پر دیکھ کر کہا تو اس نے فون پکڑ کر اسپیکر آن کر دیا۔
” جی سر! “