” کیا تم اپنے اس دوست کو بلا سکتے ہو ، یا میری اس سے فون پر بات کراسکتے ؟“ جسپال نے پوچھا
” میں کوشش کرتا ہوں۔“ اس نے کہا اور اپنا سیل فون نکال کر اسے کال کر دی۔ ساتھ ہی اسپیکرآن کر دیا۔
” ہاں انوجیت ، کیا ہو گیا، اتنی رات کو۔“ اس نے کال رسیو کرتے کہا
” کیا تم اوگی پنڈآ سکتے ہو اس وقت؟“ انو جیت نے پوچھا تو وہ تیزی سے بولا
”لگتا ہے، خیر نہیں ہے جو تم مجھے اس وقت بلا رہے ہو۔
“ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا
” بات تو کچھ ایسی ہی ہے ویرے، اگر نہیں آ سکتے تو فون پر ہی بات کر لو۔“ انوجیت نے کہا
” نہیں ، دس منٹ کا رستہ ہے ، میں ابھی آ جاتا ہو ں ۔“ اس نے کہا تو انوجیت نے اسے اپنی لوکیشن بتا دی اس نے پہنچ جانے کو کہا۔
وہ وہیں کھڑے تھے۔
(جاری ہے)
”جاگو“ والے اگلی گلی میں جا چکے تھے۔ اچھی خاصی بھیڑ تھی۔ اتنے میں وہ دوست اپنی بائیک پر وہاں ان کے پاس آ گیا۔
حال احوال اور پوری بات سننے کے بعد اس نے پورے یقین سے کہا
” میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ پولیس والے اس نے تم لوگوں پر چڑھائے ہیں، لیکن اب یہ پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ یہ کام ان دونوں بھائیوں کے سوا کسی کا نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا۔“
” تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟“ جسپال نے پوچھا تو وہ پورے اعتماد سے کہتا چلا گیا۔
” دیکھو جی، ہماری ان کے ساتھ کافی پرانی دشمنی چلتی آ رہی ہے۔ پہلے زمین کی لڑائی تھی، پھر سیاسی لڑائی درمیان میںآ گئی۔ اس لئے ہم ایک دوسرے کی سُن گُن ضرور رکھتے ہیں۔ میرا بھائی بشنام سنگھ اس وقت چندی گڑھ میں پڑھ رہا ہے۔ اپنے کالج میں سیاسی لیڈر ہے۔ اچھا گروپ ہے اس کا۔ اسمبلی ممبر اور وزیر امور نوجوان پرتاب سنگھ مجیٹھیامیرے بھائی لوگوں کی زبردست سپورٹ کرتا ہے، وہ ہماری حامی سیاسی پارٹی کا ہے اور وہ پارٹی ویر سنگھ کی سیاسی پارتی کی زبر دست مخالف ہے۔
اب قصہ یہ ہے کہ یہ دونوں بھائی، پچھلے مہینے سے، اس کے ساتھ کافی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اب وہ ان کے ساتھ بیو پار تھوڑا کریں گے۔ اس لیڈر نے میرے بھائی کو بتایا کہ یہ چونکہ تمہارے علاقے کے ہیں، اس لئے پتہ کرو کہ کہیں دھوکا دینے والی کوشش تو نہیں کر رہے۔ وہ اپنی پارٹی میں آ نا چاہتے ہیں اور سیاسی مدد مانگ رہے ہیں۔“
” تو یہ ہے اس کا پس منظر؟“ جسپال نے پوچھا
” ظاہر ہے، ہم تو اپنے دھرم کی بات کریں گے۔
میرا بھائی میری نہیں مانتا۔ وہ جدید دور اور سیکولر پارٹی کی بات کرتا ہے ۔ اب آ پ دیکھ لیں، اگر تو آپ ان کی سیاسی راہ میںآ تے ہیں، آپ کی وجہ سے انہیں نقصان ہوتا ہے تو ممکن ہے یہ کاروائی انہی کی طرف سے ہو۔ ممکن ہے نا بھی ہو۔ کوئی دوسرا وار کر رہا ہو۔“ اس نے اپنا خیال ظاہر کیا
” تھینک یو، میں دیکھتا ہوں۔“ جسپال نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا پھر چند قدم دور جا کر اس نے سردار رتن دیپ سنگھ کو امرتسر میں فون کر دیا۔
اس پارٹی کے سارے سُوتے وہیں سے پھوٹتے تھے۔ وہ جاگ رہا تھا ۔ اس نے جیسے ہی جسپال کا نام سنا تو بہت خوش ہو کر بولا
” اوئے تو کہاں ٹپک پڑا اس وقت، خیر تو ہے نا۔ پر خیر کہاں ہوگی، جب تیرا فون آ گیااس وقت۔“
تبھی اس نے انتہائی اختصار سے ساری بات بتا کر کہا۔ ” سردار جی۔! میں اس وقت کم از کم اپنے پنڈ اوگی میں نہ تو لڑائی چاہتا ہوں اور نہ کوئی شور شرابا، میں نے یہاں سے ایم ایل اے کی سیٹ لینی ہے۔
مجھے صرف یہ پتہ کرنا ہے کہ یہ کام پرتاب سنگھ مجھیٹیا کا ہی ہے؟“
” پھر کیا کرو گے؟“
” پھر ظاہر ہے…“ اس نے کہا چاہا تو رتن دیپ سنگھ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
” ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب پولیس بھی کچھ نہیں کہتی اور پرتاب سنگھ مجیٹھیا تجھے ابھی فون کرتا ہے اور تجھے پوری بات بتا دے گا۔ وہ سچ ہو گی۔ باقی پھر دیکھ لینا، جو ہوگا مجھے بتانا اگر تم نے نہیں لڑنا، اگر لڑنا ہے تو مجھے کال مت کرنا، سمجھ گئے ہونا۔
“
” ٹھیک ہے سردار جی ، جیسے آپ کہیں، یہ میں آپ کو بعد میں بتاتا ہوں۔“ جسپال نے کہا تو انہوں نے فون بند کر دیا۔ پھر انوجیت کے پاس آ کھڑا ہوا ، جو اب بھی اپنے دوست کے ساتھ گپ لگا رہا تھا۔ جسپال کو دیکھتے ہی بولا
” بائی جی ،ا گر آپ کہیں تو ہم کوئی کوشش کریں، میں ملتاہوں، انسپکٹر سے اور بات کرتے ہیں۔“
” تمہارا بہت شکریہ، باقی رہی انسپکٹر سے بات تو وہ کریں گے ، اور پوری تسلی سے کریں گے۔
“ اس نے جواب دیا تو وہ اجازت لے کروہاں سے چل دیا۔
تقریباً بیس منٹ گزرے ہوں گے۔جسپال کا سیل فون بج اٹھا۔ ان نے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے بھاری آواز میں کہا گیا
” میں پرتاب سنگھ مجیٹھیا ، آپ جسپال سنگھ جی ہی ہو نا اوگی پنڈ سے؟“
” ہاں جی سردار جی میں ہی ہوں۔“ اس نے جواب دیا تو وہ ہنستے ہوئے بولا
” چلو ، جیسے ہوئی ، آپ سے آ دھی ملاقات تو ہو ہی گئی۔
مجھے بتایا ہے ابھی سردار رتن سنگھ جی نے، آپ تو اپنے ہیں۔بس مس انڈر سٹینڈنگ ہو گئی۔ “ اس نے ہنستے ہوئے کہا، لیکن یہ ہنسی کہیں سے بھی شرمندگی والی نہیں تھی، بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اس پر طنز کر رہا ہو۔
” یہ مس انڈر سٹینڈنگ ہوئی کیوں سردار جی؟“
” اب یہ باتیں فون پر تھوڑا کی جاتی ہیں۔ آپ خود سمجھ دار ہو۔ آؤ نا آ پ چندی گڑھ میرے مہمان بنو ، پھر باتیں ہوں گئیں۔
“ اس نے اسی لہجے میں کہا
”بشنام سنگھ نے آپ سے کیا کہا؟“ اس نے پوچھا
”آں ہاں، “ اس نے اتنا کہا لمحہ بھر کو رُکا اور پھر بولا ”وہی جو آپ کے پورے علاقے کے لوگ کہتے ہیں۔ خیر اب چھوڑیں یہ سب۔ آپ ایک دو دن فرصت نکال کر آ ئیں۔ بات کرتے ہیں۔“ اس نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا۔ اس سے جسپال سنگھ کو ذرا بھی تجسس نہیں ہوا ۔ اسے معلوم تھا کہ پورے علاقے میں اس کے بارے میں کیسی کیسی افواہیں سر گرم ہیں۔
” ٹھیک ہے سردار جی ، میں ایک دو دن میں ملتا ہوں آپ سے ، ہوتی ہے ملاقات۔“ اس نے کہا تو الوداعی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔
اسے معاملہ سمجھ میںآ گیا تھا۔ اس نے سب کچھ ذہن سے جھٹکا اور جاگو کی طرف بڑھ گیا جو اب اگلی گلی میں مڑ رہے تھے۔ راستے میں جاتے ہوئے اس نے انو جیت کو ساری بات بتا دی۔ وہ اس پر ہنس دیا۔ ہر پریت اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔
تبھی اس نے جسپال کا قریب سے چہرہ دیکھا تو ہر پریت کے چہرے پر جو تناؤ تھا وہ ایک دم سے ختم ہو گیا اور وہ پر جوش انداز میں گیت گانے والوں کا ساتھ دینے لگی ۔جسپال کو خوشگوار حیرت نے گھیر لیا۔ کیا ہر پریت اسے اس قدر سمجھنے لگ گئی ہے۔ اس کے چہرے ہی سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ اس کے من میں کیا ہے؟
#…#…#