” اوربات تو کوئی نہیں ہے ، تمہارے بارے میں اوٹ پٹانگ سوال کرتے رہے ۔ میں نے بلبیر سنگھ پنچ کو کال کر دی تھی ، وہ آگئے ۔ پھر انہوں نے اتنی بات نہیں کی اور چلے گئے۔“
” ٹھیک ہے اپنا اور سب کا خیال رکھنا، سردار ویر سنگھ سے رابطہ ضرور رہے تمہارا،بلکہ اسے بتا دو۔ میں بعد میں بات کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر جسپال نے فون بند کر دیااور ساری بات رونیت کو بتا دی۔
وہ تشویش سے بولی۔
” یار معاملہ کیا ہو گیا ہے ؟ اس کی سمجھ نہیںآ رہی ہے۔ میں سندو سے رابطہ کرتی ہوں۔ اسے بتا دوں۔“
جس وقت وہ جالندھر کے قریب پہنچے، اس وقت تک نہ صرف سندو سے رابطہ ہو چکا تھا، بلکہ وہ بانیتا کور کے ساتھ رابطے میں بھی تھے۔ اسے بھی اوگی میں سی بی آئی کے بندوں کے آنے کے بارے میں پتہ چل گیا تھا۔
(جاری ہے)
بانیتا کورنے اسے شہر سے باہر ایک فارم ہاؤس کا پتہ بتایا اوراسے وہیں پہنچنے کو کہہ دیا۔
وہ فار م ہاؤس جالندھر شہر سے مشرق کی جانب جی ٹی روڈ پر ذرا ہٹ کر کوٹ کلاں میں تھا۔ جس وقت تک وہ پہنچے، سندو وہاں آ چکا تھا۔ فارم ہاؤس کا منیجر ایک لمبا چوڑا بھاری جسم کا سکھ نوجوان تھا۔ وہی سب دیکھ رہا تھا۔ سندو ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہو اتھا ، جب جسپال اور رونیت وہاں پہنچ گئے ۔ انہیں دیکھتے ہی سندو نے پوچھا۔
” یار جسپال ، یہ سب اچانک کیا ہو گیاہے ؟“
” مجھے خود نہیں معلوم، بانیتا نے یہ سب بھگدڑ مچا دی ہے، وہ آئے گی تو پتہ چلے گا۔
“ یہ کہتے ہوئے جسپال صوفے پر بیٹھ گیا اور اسے بھی سی بی آئی کے بندو ں کے بارے میں بتا دیا۔
” باقی سب ٹھیک ہے نا۔“ رونیت نے سرسری سے انداز میں پوچھا۔
” ہاں ، سب ٹھیک ہے، وہ پروفیسر کی بیوی کو اس کے آبائی گاؤں بھیج دیا ہے ، وہاں اس کا کوئی بھتیجا اب بھی ہے، ہر پال گیاہے اسے چھوڑنے۔“ سندو نے اُلجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
” کیوں، ہم اسے سنبھال سکتے تھے۔
“ رونیت بولی۔
” اچھا کیا، ورنہ اس کی بھی زندگی کو خطرہ ہوسکتا تھا۔ خیر جب تک بانیتا آتی ہے، کوئی چائے وائے ہی پی لی جائے۔“ میں نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
اس وقت ہم چائے پی چکے تھے، جب بانیتا کور آندھی اور طوفان کی طرح وہاں آگئی۔ اس نے آتے ہی کہا۔
” جسپال، سندو ، اس وقت ہم بہت زیادہ خطرے میں ہیں۔ جس کا تم لوگوں کو اندازہ نہیں۔
“
” کچھ بتاؤ گی بھی یا …“ سندو نے چڑتے ہوئے کہا تو بانیتا نے اندر کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” آؤ ،میں تمہیں دکھاتی ہوں۔“
ہم تینوں ایک بیڈ روم میں چلے گئے۔ اس نے ایک یو ایس بی نکالی اور سامنے پڑے ہوئے ڈی وی ڈی میں لگا دی ۔ ٹی وی اسکرین روشن ہو گئی۔
وہ کسی کانفرنس ہال میں ہونے والی بات چیت کی ویڈیو تھی۔
وہاں چند آدمی ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے ایک اسکرین تھی۔ جس پر بانیتا کور کی تصویر تھی۔ کوئی اس کے بارے میں بریف کر رہا تھا
” سر !یہ ہے بانیتا کور ، جس کا تعلق تو امرتسر سے ہے ، لیکن یہ یہاں ممبئی میں پائی جا رہی ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ یہ ممبئی میں کیوں ہے ۔ اس کا ماضی ایسا ہی ہے کہ یہ جرائم کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی پکڑی نہیں گئی۔
حیرت یہ ہے کہ نرمین ہاؤس میں اس کا ہونا اور اس پاکستانی کے ساتھ ۔ یہ دیکھیں۔“ یہ کہہ کر اس کی مختلف تصویریں دکھائی جانے لگیں۔ یہ سب نرمین ہاؤس میں لگے خفیہ کیمروں سے لی گئی تھیں۔ لفٹ میں، ڈیوڈ ریبنز کے کمرے کے باہر، ان کے کنٹرول روم میں۔ کوئی کہہ رہا تھا
” یہ سوال اپنی جگہ،یہ تو اسے پکڑ کر ہی پوچھا جا سکتا ہے نا کہ وہ وہاں پر کیا کر رہی تھی۔
کیونکہ اُسی پاکستانی کے ساتھ یہ مختلف جگہوں پر دیکھی گئی ہے۔“
” ٹھیک ہے ،اسے پکڑو۔ مزید کیا ہے ؟“ کسی نے رعب دار آواز میں حکم دیتے ہوے پوچھا۔
” مزید یہ ہے سر کہ جس وقت نرمین ہاؤس پر حملہ ہوا ، اس سے کچھ ہی دیر پہلے رامیش پانڈے پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے ۔اس کا ایک گارڈ مارا جاتا ہے ۔ رامیش پانڈے سے کچھ سوال پوچھے جاتے ہیں۔
ان میں ایک فون نمبر بھی پوچھا جاتا ہے جو کہ نرمین ہاؤس ہی کا تھا ۔ اس کے کچھ دیر بعد ہی وہاں حملہ ہو جاتا ہے ۔ مطلب رامیش پانڈے پر قاتلانہ حملہ اور نرمین ہاؤس پر حملہ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے ۔ کیونکہ وہاں سے ہمیں کچھ مزید شواہد ملے ہیں۔“
” وہ کیاہیں؟“ اس رعب دار آواز والے نے پوچھا۔
” سر یہ دیکھیں، یہ تصویر، اس میں ایک لڑکا ہے اور یہ ایک لڑکی، یہ گوا کے ہوٹل سے لی گئی تصویر ہے ۔
چھان بین سے یہ پتہ چلا ہے کہ فائرنگ ان دونوں نے کی ہے۔ جس کمرے سے کی گئی ، وہاں موجود جوڑے نے ان کی تصدیق کی ہے ، انہوں نے اس جوڑے کو باندھا اور بے ہوش کرکے بیڈ کے نیچے ڈالا۔“
” ان کے بارے میں پتہ چلا۔“ رعب دار آواز میں پوچھا گیا تو بریف کرنے والے نے کہا۔
” یہ لڑکی تو چندی گڑھ کی ہے ۔ اس کے بارے میں شک ہے کہ یہ جرائم پیشہ لوگوں سے تعلق رکھتی ہے ۔
جس کے ساتھ اس کا تعلق تھا، چند دن پہلے وہ پروفیسر قتل ہو گیا ہے۔ ریکارڈ پر کسی کا کوئی جرم نہیں اور یہ لڑکا، اس کا نام جسپال سنگھ ہے۔ اگرچہ یہ کینڈا سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہاں اوگی پنڈ تحصیل نکودر ضلع جالندھر میں رہتا ہے ۔ پولیس اور سی بی آئی کے مطابق جب سے یہاں آیا ہے اس کی سرگرمیاں مشکوک ہیں، ایک معاہدہ بھی آن ریکارڈ ہے ۔ جن کے ساتھ معاہدہ ہوا ،وہ لوگ قتل ہوگئے۔
اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہوا ،یہ سب فائل میں ہے ، جو آپ کے سامنے پڑی ہے۔“
” سر ایک دوسری بری خبر یہ ہے کہ جس آفیسر کو اس پروفیسر کو راستے سے ہٹانے کا ٹاسک دیا گیا تھا، وہ ابھی کچھ دیر پہلے گھر سے نکلتے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں اس دنیا میں نہیں رہے۔اس کی پوری تفصیل آگئی ہے ہمارے پاس۔“
” اوہ !“ یہ کہہ کرچند لمحوں کی خاموشی رہی پھر اس رعب دار آواز والے نے کہا۔
” اسے بھی پکڑو اور پوری طرح دیکھو، یہ سب مختلف جگہوں کے لوگ ایک جگہ کیسے؟ اور ان کاہدف نرمین ہاؤس ہی کیوں؟ پاکستان سے ان کا تعلق کیاہے ۔ یہ سب مجھے آج رات سے پہلے چاہئے۔ ہری اپ ۔“ ۔ اس کے ساتھ ہی وہ فلم ختم ہو گئی۔
” تمہیں یہ کیسے ملی،مطلب فلم؟“ سندو نے تیزی سے پوچھا تو بانیتا نے گہرا سانس لے کر کہا۔
”اچھا چور وہ ہوتا ہے جو نکلنے کا راستہ پہلے بنا کر رکھے۔
اگر ہم اپنے چورراستے ان فورسز میں بنا کر نہ رکھیں تو کب کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گَل سڑ گئے ہوتے ۔ یہ ہائی پروفائل میٹنگ تھی دِلّی میں۔ جو اب سے پانچ گھنٹے پہلے ہوئی تھی۔ اطلاع مجھے پہلے ملی اور یہ فلم بعد میں۔ اب بتاؤ ،میں ،رونیت اور تم کیا کریں؟“
” کچھ بھی نہیں، بس چند دن زیر زمین رہو، دھول بیٹھ جائے تو باہر نکل آئیں۔“ سندو نے سکون سے کہا۔
” کوئی دوسرا ہوتو مجھے تمہاری اس احمقانہ بات پر اتنا افسوس نہ ہوتا، بے وقوف بھارت سرکار اس بے غیرت یہودی کے بارے میں کس قدر پریشان ہے تم نے اس کا اندازہ نہیں کیا۔ کس طرح انہوں نے چھان بین کی ہے اور وہ جان گئے ہیں کہ یہ سب کن لوگوں نے کیا ہے ؟“
” اس وقت میں تمہاری ذہنی حالت کے بارے میں جانتا ہوں بانیتا، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
“ سندو نے کافی حد تک خود پر قابو رکھتے ہوئے کہا۔
” میرے پاس اس کا ایک حل ہے ۔“ جسپال نے سکون سے کہا۔
” وہ کیا؟“ بانیتا کورنے تیزی سے پوچھا۔
” وہ یہ کہ میں خود کو پولیس یا جو فورس بھی مجھے پکڑنا چاہے، اس کے حوالے کردوں، تشدد ہوگا جو بھی ہو ، میں یہ ثابت کر دوں گا کہ میں وہاں گوا میں نہیں تھا۔“ جسپال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” تم کسی یورپ کی فلم والی فورسز کے پاس نہیں جا رہے ہو۔،جو تمہیں مہمان بنا کر رکھے گی۔ تیرا ریشہ ریشہ الگ کرکے تجھے مار دیں گے اور تمہاری لاش کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔“ رونیت نے غصے میں کہا۔
” تو پھر کیا کریں؟“ جسپال نے پوچھا۔
” وہی جو میں نے کہاہے ۔آج رات یہاں سکون سے رہو،کھاتے پیتے ہیں ، انجوائے کرتے ہیں۔ اس دوران سوچ لیں گے۔“ سندو نے کہا تو بانیتا کورایک دم سے مسکرا دی۔ پھر بولی۔
” ہاں یار‘ٹینشن سے مسئلہ حل تو نہیں ہوگا۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے مینیجر کو بلایا اسے کافی کچھ ہدایات دے دیں۔ وہ سب اٹھے اور مختلف کمروں میں جا کر سو گئے۔ اندھیرا پھیل چکا تھا ، جب انہیں جگایا گیا۔