رات کا آخری پہر ختم ہو چکا تھا اور صبح کے آثار واضح ہوچکے تھے۔ ہم لاہور ہی کے مضافاتی مقام پر پہنچ چکے تھے۔ وہ ایک بڑا فارم ہاؤس تھا، جس میں ہر طرح کی سہولت میسر تھی۔ جیسے ہی ہم ہوٹل سے چلے تھے، تب میں نے اشفاق چوہدری کو اس فون پر صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا جو کہیں بھی ٹریس نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ انتہائی خاموشی سے اماں، تانی ، سوہنی، سارا اور مراد کو لے کر نور نگر سے چل پڑا تھا۔
اس کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی، وہ سب وہاں سے نکل گئے ہیں۔ اشفاق چوہدری نے فارم ہاؤس کے قریب آ کر اطلاع دی تو اسے وہاں سے لے آئے۔جب سبھی ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے اور انہیں چائے سرو کر دی گئی تو اماں نے پوچھا
” پتر۔! یہ اچانک تو نے ہمیں یہاں کیوں بلا لیا؟“
اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، کرنل سرفراز بولے
” اماں جی، مجھے جمال سے زیادہ آپ کی حفاظت کا خیال ہے۔
(جاری ہے)
بے شک رَبّ تعالی ہی انسانوں کی حفاظت کرنے والا ہے ، وہی زندگی اور موت دینے والا ہے۔ لیکن ہمیں بھی تو اپنے تحفظ کی ہدایت کی گئی ہے۔“
” لیکن بیٹا، نورنگر میں بھی تو ٹھیک تھا، وہاں اتنی سیکورٹی…“ اماں نے کہنا چاہا تو وہ بولے
” جتنی مرضی سیکورٹی ہو، اس میں سے دشمن راہ بنا لیتا ہے۔ جیسے کہ نور نگر ہی کے اطراف میں دشمن پہنچ چکا ہے۔
پہلے جمال کا اغوا ہوا، پھر انہوں نے اپنے دو بندے یہاں تک بھیج دئیے۔ اب بھی وہاں پر یقیناً کچھ ہوگا۔ وہ بعد کی بات ہے۔ اگر وہاں غفلت ہو جاتی تو؟“
” ٹھیک ہے بیٹا۔! جیسے تم لوگ بہتر سمجھو۔“ اماں نے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے
” کیا آپ کو بتا دیا گیا ہے کہ تانی اور سارہ اپنے بیٹے کے ساتھ اب جا رہی ہیں؟“
” ہاں، مجھے بتایا ہے اشفاق نے۔
ٹھیک ہے انہیں جانا چاہئے۔بہرحال میری خواہش تھی کہ تانی کی شادی میں اپنے ہاتھوں سے کرتی۔“ وہ تانی کی طرف دیکھ کر بولی
” اگر اللہ نے چاہا تو یہ بھی ہو جائے گا۔“ یہ کہہ کر انہوں نے تانی اور سارہ کی طرف دیکھ کر کہا،” آپ تیار ہوجاؤ،ابھی کچھ دیر بعد تم دونوں کی فلائیٹ ہے۔ تانی دوبئی میں ایک دن رک کر لندن جائے گی۔“
” اوکے، میں تیار ہوں اور میرا خیال ہے کہ سارا نے بھی کوئی تیاری نہیں کرنی،ہمارے پاس کون سا سامان ہے۔
ہم ابھی نکلنے کے لئے تیار ہیں۔“ تانی نے کہا
وہ سب باتیں کر رہے تھے اور میں درزیدہ نگاہوں سے سوہنی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مسلسل میری جانب دیکھ رہی تھی ۔ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ مجھ سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتی ہے۔ مگریہ وقت نہیں تھا۔اس لئے نگاہیں نہیں ملا رہا تھا۔ مجھے اپنا پتہ تھا، سوہنی کی نظروں میں ایسا کچھ تھا کہ وہ مجھے پتھر کا بنا سکتی تھی۔
میں اشفاق کے ساتھ اٹھ گیا، جو اسی وقت واپس جانے کو تیار تھا۔
سورج نے اپنی روشنی سے لاہور کو جگمگا دیا تھا۔ ہم ائیر پورٹ پر تھے۔ ان کے سفری کاغذات لئے ایک بندہ وہاں موجود تھا۔ اس نے ساری کلیرنس کروا کردی۔ پھر جیسے ہی جہاز اڑا ،ہم پلٹ آئے۔ کرنل سرفراز راستے ہی میں مجھ سے جدا ہوگئے اور میں سیدھا گھر جا پہنچا ،جہاں بانیتا کور میری منتظر تھی۔
وہ اوپر والی منزل پر میرے بیڈ روم میں تھی۔ اس نے شارٹس کے ساتھ سلیو لیس شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ عورت پن سے بھرپور بانیتا کور کی جوانی اپنا پورا اظہار کر رہی تھی۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا ،اس نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی بانہیں پھیلا دیں۔ میں اس کے پاس جا بیٹھا تو اس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔
” کتنی آرزو تھی کہ تجھے یوں اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر زور سے بھینچ لوں۔
“ وہ خمار آلود لہجے میں بولی
” اپنی آرزو پوری کرو اور بڑے شوق سے کرو۔ میں نے کب روکا ہے۔“ میں نے کہا توکچھ دیر تک میرے ساتھ جڑی رہی پھر خود ہی الگ ہوکر بولی
” مجھے اب بھی یقین نہیںآ رہا ہے کہ میں تمہارے پاس ہوں۔“
” وہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہ کپڑے تو نے کہاں سے لے لئے؟“ میں نے اس کا ذہن بدلنے کے لئے پوچھا
” رات ہم کسی مارکیٹ میں گئے تھے۔
مہوش نے بھی شاپنگ کی۔ وہ بے چاری تم مرودں میں اکیلی پھنسی ہوئی ہے۔ ایک لڑکی کی سو ضرورت ہو تی ہے۔ اب وہ کیا کیا تم لوگوں کو بتائے۔“ اس نے طنزیہ لہجے میں ہنستے ہوئے کہا
” اوہ۔! ویسے میرا دھیان اس طرف نہیں گیا تھا۔“ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا
” خیر، ایسا بھی نہیں، اس کی بہت ساری ضرویات زویا پوری کر دیتی ہے۔ وہ اسے بہت کچھ کراچی سے بھجوا دیتی ہے۔
“ اس نے یونہی کہا تو میں نے پوچھا
” بانیتا۔! اب تم آ ئی ہو، کیا پروگوام ہے تمہارا؟“
” سارا وقت تمہارے ساتھ گذارنا چاہتی ہوں۔“ اس نے خمار آلود لہجے میں کہا
”گرو استھانوں پر نہیں جاؤ گی؟“ میں نے پوچھا
” ہاں ویسے جانا تو چاہئے۔“ اس نے یوں کہا جیسے پہلے اس کے ذہن میں نہیں تھا۔
” ٹھیک ہے، میں کراچی سے زویا اور گیت کو بلا تا ہوں۔
مہوش کو ساتھ لینا اور گھوم پھر آنا۔ مجھے یہاں بہت ضروری کام ہیں، وہ ایک دو دن میں نمٹا لوں۔ پھر ہم اکھٹے ہی وقت گذاریں گے، جہاں تک ہو سکا۔“ میں نے کہا تو چند لمحے سوچتی رہی ، پھر اثبات میں سر ہلا دیا ۔ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہے ، یہاں تک کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا۔بانیتا کور نے جین شرٹ پہنی اور میرے ساتھ نیچے چلی گئی۔
#…#…#