” جس شخصیت نے یہاں سے اُڑان بھرنی ہے، میں اس کو بحفاظت یہاں سے بھیجنے کے لئے آ یاہوں، میں چاہوں تو تمہیں بھی یہاں سے بھگا سکتا ہوں۔“ ونود رانانے اپنا اصلی کارڈ اُسے دُکھاتے اور جعلی نام بتاتے ہوئے سکون سے کہا۔ اتنی دور سے وہ گارڈ اس کا نام کیا پڑھ سکتا تھا، صرف تصویر تھی جو اس نے ایک نگاہ دیکھی۔
” مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے؟“ اس نے ہٹ دھرمی سے کہا تو ونود رانابولا
”رامیش پانڈے سے میر ی بات کراؤ، میں تمہیں وہ نام بتانے کا پابند نہیں ہوں، جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔
رامیش پانڈے نیچے آ چکے ہیں۔ باقی تمہاری خود ذمہ داری ہوگی ۔“
” اوکے میں بات کراتا ہوں۔“ چیف سیکورٹی گارڈ نے کہا اور نمبر ملانے لگا۔ چند لمحے بعد اس کے گارڈ سے بات ہوگئی ۔
(جاری ہے)
اسپیکر آن تھا۔ چند لمحے بعد رامیش پانڈے لائین پر تھا۔ ونود نے اس سے فون لیا اور ذرا دور جا کر اس ہائی آفیشل کا نام لے کہا کہ یہاں سے بحفاظت بھیجنے کے لئے میں یہاں آ یا ہوں۔
وہ مان گیا۔ ونود رانا نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔
رامیش پانڈے چھت کی طرف آ رہا تھا۔ اس دوران بانیتاکور ہر طرف کا جائزہ لے چکی تھی۔ ہیلی کاپٹر میں پائلٹ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے چاروں طرف چار سیاہ پوش سیکورٹی گارڈ گنیں لئے الرٹ کھڑے تھے۔ ان سے دور چیف سیکورٹی گارڈ تھا۔ رامیش پانڈے کے ساتھ کتنے لوگ آ نے والے تھے، یہ انہیں نہیں معلوم تھا۔
تبھی چھت پر آنے والے دروازے میں رامیش پانڈے نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے دو گارڈ تھے، جو اس کے ذاتی تھے، ان کے پیچھے دو فضائی کمپنی کے گارڈتھے۔ ونود راناتیزی سے آ گے بڑھا۔ ممبئی میں رہتے ہوئے رامیش اور ونود کی بہت ساری ملاقاتیں ہو چکی تھیں ۔ رامیش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تب تک ونود رانا نے اسے سیلوٹ مار دیا تھا۔ پھر آ گے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا
” سر۔
! مجھے آپ کو یہاں سے بحفاظت بھیجنے کا حکم ہوا ہے اور میں پوری تیاری سے آیا ہوں۔“
” اوہ۔! آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔ یہاں سے اڑان بھرنے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد میں جگر واس ہوں گا۔“ وہ خوشگوار لہجے میں بولا
” وہ تو سر ٹھیک ہے ، لیکن آپ کے ساتھ کمال کے لوگ ہوں گے۔ وہ آپ کو…“ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
” چلو ٹھیک ہے۔
“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو ونود ایک دم سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے بانیتا کور کو اشارہ کیا، وہ دونوں پسٹل لئے ایک ساتھ ہیلی کاپٹر کی جانب بڑھے۔ اس کے دو سیکورٹی گارڈ آ گے بڑھ کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے تو رامیش پانڈے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ونود رانا نے اسے سیلوٹ کیاا ور پیچھے ہٹ گیا۔ہیلی کاپٹر اڑنے کو تیار ہو گیا ۔ اگلے چند منٹ بعد وہ فضا میں تھا۔
ہیلی کاپٹر کا رخ ممبئی سے اندور کی طرف تھا۔پائلٹ ہیلی کاپٹر اُڑا رہا تھا۔ اس کا رابطہ اپنے کنٹرول ٹاور سے تھا۔ رامیش پانڈے اس کے پیچھے کی نشست پر بیٹھا تھا اور اس کے ذاتی گارڈ اس کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی پیچھے درمیان میں بانیتا کور اور دائیں بائیں وہ دونوں لڑکے بیٹھے ہوئے تھے ۔ جیسے ہی ہیلی کاپٹر شہر سے باہر ہوا ، بانیتا کور کے اشارے پر پیچھے بیٹھے دونوں لڑکوں نے آگے بیٹھے گارڈوں کے سر پر پسٹل کی نال رکھی اور ٹرائیگر دبا دیا۔
پتہ ہی اس وقت لگا، جب وہ دونوں ہی لڑھک گئے ۔ رامیش پانڈے کے منہ سے ہلکی سی چیخ بلند ہو ئی۔ اسی کے ساتھ ہی ایک لڑکا آگے بڑھا اور اس نے پائلٹ کے سر پر گن رکھتے ہوئے کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع کر دیا۔ تاکہ یہاں کی کوئی آواز باہر نہ جا سکے۔ تبھی بانیتا کور نے کہا
” پائلٹ، تم اسی طرح اڑتے رہو، جیسا میں کہوں۔ ورنہ تم بھی ان کی طرح مر سکتے ہو اور جان لو کہ ہمارے ساتھ یہ پائلٹ ہے۔
“
” یس، جیسا آ پ کہو۔“ پائلٹ نے جواب دیا
” تو پہلے ایک چکر لگاؤ اور سمندر پر لے چلو۔“ بانیتا کورنے حکم دیا۔ تب رامیش پانڈے نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔
” کون ہو تم لوگ؟“
” ابھی بتاتے ہیں، اتنی جلدی کاہے کی ہے بابو۔“ بانیتا کور نے انتہائی طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
کچھ ہی منٹ بعد وہ ممبئی کے جنوبی ساحل تک جا پہنچے ۔
ہیلی کاپٹر نیلے سمندر پر اُڑتا رہا۔ اسی دوران ایک لڑکا آگے جا بیٹھا اور دوسرا رامیش پانڈے کو باندھنے لگا۔ تب تک بانیتا کور نے پائلٹ کو واپس پلٹنے کا کہا۔ تبھی رامیش پانڈے نے پھر پوچھا
کون ہو تم لوگ؟“
” ارے ببوا، بتاتے ہیں، کاہے کو شور مچاوت ہو۔“ وہ پھر اسی لہجے میں بولی ۔
سمند ر کا گہرا پانی آ چکا تھا۔ دور دور تک کوئی بجرا، جہاز یا ایسا کچھ نہیں تھا، سوائے ایک اسٹیمر کے۔
پائلٹ کو ہدایت دی جانے لگی کہ اس اسٹیمر تک لے جایا جائے۔ وہ عین اس کے اوپر لے گیا اور وہیں روک دیا۔ تبھی ایک نے پائلٹ کو نیچے اترنے کو کہا۔ سیڑھی لگ چکی تھی۔ وہ آرام سے نیچے اتر گیا۔ پھر رامیش پانڈے کو اتارا جانے لگا۔ پھر دوسرے کے ساتھ بانیتا کور بھی اتر آئی ۔ تو ہیلی کاپٹر آگے بڑھ گیا۔ اسی لمحے پہلے والا لڑکا ہیلی کاپٹر سے سمندر میں کود گیا۔
اسٹیمر پر چند لوگ موجود تھے۔ انہوں نے اسے بچانے کے لئے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ تبھی کچھ فاصلے پر جا کر ہیلی کاپٹر ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس کے پرزے پرزے ہوکر سمندر میں گر گئے۔ جس وقت ہیلی کاپٹر کا نام و نشان تک نہ رہا تب بانیتا کور نے اونچی آواز میں کہا
” اے پائلٹ۔! تجھے ہم نے اس لئے بچایا ہے کہ تم نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور ہماری بات مانی۔
اسی طرح مانتے رہو گے تو یہ وعدہ ہے، تمہیں واپس بھجوا دیں گے ، ورنہ …“ یہ کہتے ہوئے اس نے سمندر کی جانب اشارہ کیا۔ پائلٹ نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا
” مجھے آ پ پر یقین ہے۔“
” تو جاؤ پھر آرام کرو۔“ اس نے اندر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ گیا توا س نے رامیش پانڈے کی طرف دیکھاپھر بولی۔” تم بھی چلو، تم سے تو بڑی باتیں کرنی ہیں۔“
بانیتا کور اسے لے کر اندر چلی گئی ۔
اسی وقت وہ پہلا کودنے والا لڑکا ، اسٹیمر سے چھلانگ لگانے والوں کے ساتھ اسٹیمر پر آگیا۔
جس وقت رامیش پانڈے فضا میں تھا، اسی وقت میں نے جگرواس میں موجود لوگوں سے کہہ دیا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔ انہیں وہاں سے نکلنے میں دس سے پندرہ منٹ درکار تھے۔ لیکن رامیش پانڈے کی وہاں پہنچنے کی اطلاع پر دھرم شالے میں وہ سارے لوگ وہاں آنے لگے تھے جو اس کے قریبی تھے۔
جنہوں نے یہ سارا پلان کیا تھا۔ ان میں وہی لوگ تھے، جو ہندوراشٹرایہ بنانا چاہتے تھے۔ان کا یہاں اکھٹے ہونے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے ؟ ان لوگوں کو تلاش کیا جائے کہ یہ کون ہیں؟ نیا لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔جس وقت ہیلی کاپٹر فضا میں پھٹا، اس وقت وہ کافی تعداد میں وہاں پہنچ چکے تھے۔ میرے لوگوں نے بہانہ بنایا کہ وہ رامیش پانڈے کو گاؤں سے باہر پوری سیکورٹی کے ساتھ یہاں تک لائیں گے۔
اس لئے وہ وہاں سے نکل گئے۔ دھرم شالہ والوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اسٹیمر کے اندر بنے کمرے میں رامیش پانڈے بندھا ہوا پڑا تھا۔ بانیتا کور کے پیچھے دوسرا لڑکا کھڑا تھا اسٹیمر کا عملہ باہر تھا۔ بانیتا کور میرے ساتھ رابطے میں تھی۔ اس نے فون رامیش پانڈے کے سامنے رکھ کر اسپیکر آن کر دیا۔
” بولو رامیش پانڈے ۔! چوبیس گھنٹے پورے ہونے میں ابھی کتنا وقت ہے؟“
” اوہ ، تو یہ تم ہو؟“ اس نے چونکتے ہوئے کہا
” ہاں ، میں، جس طرح تم نے مجھے میرے گاؤں سے اٹھایا تھا اور ایک جزیرے پر لا پھینکا تھا، وہ ایک انتہائی احمقانہ پلان لگتا تھا، لیکن میں مانتا ہوں تم نے بڑی ذہانت دکھائی تھی۔ ان سب لوگوں کو ممبئی حملے کا مجرم ظاہر کرکے اپنے لوگوں کو صاف بچا جاتے، تمہاری طرف کسی کا دھیان ہی نہ جاتا۔
“ میں نے انتہائی سکون سے کہا
” اب کیا چاہتے ہو؟“ اس نے ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح پوچھا
” جگجیت بھر بھرے کا قاتل، تو اس وقت جیل میں ہے۔ وہ لوگ اسے کبھی ظاہر نہیں کریں گے ۔ وہ اسے مار دیں گے۔ اس کی صورت کوئی بھی ہو سکتی ہے۔میں تمہیں کب کا مار سکتا تھا، لیکن۔! میں تمہاری اصل طاقت کوختم کرنا چاہتا ہوں۔“ میں نے کہا
” میں ہندو ہوں، کیا مجھے حق حاصل نہیں کہ میں ہندو راشٹرایہ بنا لوں، جس طرح تم لوگوں نے اپنا الگ وطن بنا لیا ہے۔“ اس نے سوال کیا