انوجیت سنگھ مصروف ہو گیا تھا۔ اُسے اوگی پنڈ ہی نہیں، اردگرد سے بہت سارے ایسے نوجوان مل گئے تھے، جو صرف دھرم کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے۔ اس کی جد وجہد کالج دور سے تھی، جو اس وقت پورے جوبن پر دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ بھی کام کر رہا تھا۔ اس لئے ایک ہی دن میں اس نے اپنے گرد لوگوں کو جمع کر لیا۔ نکودر میں ایک مرکز بنا لیا۔ شہر کے بہت سارے نوجوان اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔
جسپال نے اسے یہی کہا تھا کہ وہ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ سر گرمیاں شروع کرے ۔ اگر درمیان میں کہیں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو بتانا۔ سو انوجیت پوری جان سے اس مقصد کے لئے لگ گیا تھا۔
جسپال سارا دن بیڈ پر پڑا رہا۔ کبھی سو جاتا اور اٹھ کر یونہی ٹہلنے لگتا۔ اُسے کئی بار خیال آ یا تھا کہ کسی سے رابطہ کرے ، کوئی بات پوچھے، کوئی خبر لے، مگر یہی سوچ کر فون کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا کہ جب کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں کسی کو کال کروں۔
(جاری ہے)
اس دن ہرپریت بھی انوجیت کے ساتھ نکلی ہوئی تھی۔ وہ اپنی اُن سہیلیوں سے ملنے نکل پڑی تھی جو کبھی اس کے ساتھ کالج میں پڑھتی تھیں۔اب جتنے لوگوں سے بھی رابطہ ہو جا تا اتنا ہی کم تھا۔
اس وقت سورج ڈھل چکا تھا، جب ہر پریت واپس لوٹ کے آ ئی۔ انوجیت کہیں دوستوں میں تھا۔ اس نے لیٹ ہی گھر آنا تھا۔ جسپال اپنے کمرے سے ڈرائنگ روم میں آ کر اس کی روداد سن رہا تھا کہ اس کا سیل فون بج اٹھا۔
وہ امرتسر سے سردار رتن دیپ سنگھ کی تھی۔ حال و احوال کے بعد اس نے کہا
” یار اگر تم صبح تک یہاں تک آ سکو تو ؟“
” جی میں حاضر ہو جاتا ہوں، چاہئے آپ ابھی کہو ، میں نکل پڑتا ہوں۔“ اس نے جواب دیا
” نہیں، اتنی جلدی بھی نہیں، صبح میں تم سے کوئی بات کرنا چاہتا ہوں۔ دس بجے تک پہنچ جانا۔ باقی جب چاہو آؤ، تمہارا اپنا گھر ہے۔“
” ٹھیک ہے جی۔
میں حاضر ہو جاؤں گا۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔
” کیا بات ہو سکتی ہے؟“ ہر پریت نے سن کر پوچھا
” اب تو کل ہی پتہ چلے گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے ، یہی الیکشن کی بات ہوگی۔اب جوڑ توڑ تو پورے عروج پر ہیں نا،پارٹی ٹکٹ کے بھی سبھی سے وعدے ہو رہے ہیں۔ آ خر وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہونا ہے۔“ جسپال نے عام سے لہجے میں کہا
” میں چلوں تمہارے ساتھ؟“ اس نے پوچھا
” جیسے تمہارا دل کرے، لیکن اس وقت تمہاری یہاں زیادہ ضرورت ہے۔
میں صبح جاؤں اور شام تک لوٹ آؤں گا۔ دو سوا دو گھنٹے کا تو راستہ ہے، تو سنا پھر باقی دن کہاں گذارا۔“ جسپال نے کہا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ وہ اپنی روداد سنا کر اٹھ گئی۔ کلجیت کور ڈنر کے لئے بلانے لگی، اسی دوران نوتن کور کا فون آگیا۔ وہ ایسے فون سے بات کر رہی تھی، جو کہیں ٹریس نہیں ہو سکتا تھا۔
” خیر تو ہے نا نوتن؟ اور تم جالندھر کب آئی ہو؟“ جسپال نے خوشگوار لہجے میں کہا
” بالکل خیر ہے، اور میں آج ہی آئی ہوں، کہاں ہو تم اور جالندھر کتنی دیر میں آ سکتے ہو؟“ اس نے گہری سنجیدگی سے پوچھا
” میں پھر پو چھ رہا ہوں خیر تو ہے نا؟“ اس بار اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
” میں پھر کہہ رہی ہوں، خیریت ہے۔ میں یہاں ہوں جالندھر، سوچا تم سے گپ شپ کرلوں،اب یہ مت کہنا کہ میں اوگی پنڈ آ جاؤں۔ میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہ رہی ہوں۔“ اس نے خوشگوار لہجے میں کہا
”یار بڑا سسپنس ہے، خیر ، میں ڈنر لے کر نکلتا ہوں، آنا کہاں ہے؟“ اس نے پوچھا
” وہی بانیتا کور کے فارم ہاؤس پر، وہیں ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
پھر الوادعی باتوں کے بعد فون رکھ دیا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ ڈنر کرنے کے بعد جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ اس نے فور وہیل نکالی، اسلحہ اس میں رکھا اور اکیلے ہی نکل پڑا۔ ہر پریت نے اسے پورچ سے الوداع کیا۔ نکودر جالندھر روڈ پر آ تے ہی اس نے جیپ کی رفتار تیز کر دی۔ اس کے دماغ میں کہیں کھد بد ہونے لگی تھی کہ ایک دم سے یوں فون نہیں آ سکتے ہیں۔
اس وقت رات کے سو اگیارہ بجے کا وقت تھا جب وہ فارم ہاؤس پہنچ گیا۔ نوتن کور اس کا پورچ ہی میں انتظار کر رہی تھی ۔ وہ کافی حد تک سوبر اور ماڈ دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے پتلون پر شرٹ پہنی ہوئی تھی۔وہ اس کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ ان کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ان کے بیٹھتے ہی چائے آ گئی۔
” تمہیں کل رتن دیپ سنگھ نے امرتسر میں بلایا ہے نا۔
“ نوتن نے مگ اسے تھماتے ہوئے کہا
” ہاں ، تم سے کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے فون کیا تھا۔“ جسپال نے بتایا
” تو بات یہ ہے جسپال ، انہوں نے پورے پنجاب سے کچھ لوگ چنیں ہیں۔ وہ انہیں کوئی ٹاسک دینا چاہتے ہیں۔ وہ سارے لوگ کسی نہ کسی طرح سردار جی سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہاں کل یہی بات ہوگی۔“ اس نے بتایا تو جسپال نے پوچھا
” کیا،تمہارے ساتھ ان کی بات ہو چکی ہے؟“
” ہو چکی ہے۔
ان سے بھی کسی نہ کسی حوالے سے بات ہو چکی ہے۔ صرف تم سے نہیں ہوئی ہے۔ کل سب لوگوں کو ایک کرنا ہے تاکہ وہ اپنے طور پر کام کرنا شروع کردیں۔“ اس نے کہا
” میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ لوگ بااعتماد نہیں ہوں گے۔ لیکن کیا وہ سارے ایک ساتھ چل سکیں گے؟“ جسپال نے پوچھا
” یہ تو کل بات ہوگی نا، تم چاہو تو انکار بھی کر سکتے ہو، اگر بہتر سمجھو توان کے ساتھ شامل ہو جانا۔
“ وہ بولی
” اوکے ، یہ تو پھر کل ہی معلوم ہوگا۔“ اس نے کہا
” نہیں، میں اس بارے کچھ تھوڑا بہت جانتی ہوں۔ وہ میں تجھے بتا دوں گی، اس لئے تمہیں یہاں بلایا ہے۔ اور ہاں بانیتا کور کے بارے میں سنا ہے، وہ جمال کے پاس ہے؟“ نوتن نے مسکراتے ہوئے کہا
” وہ چھلاوا ہے ، کہیں بھی جا سکتی ہے۔“ جسپال نے تبصرہ کیا۔
” کیا یہ بھی معلوم ہے کہ ان پر حملہ ہوا ہے ، اور وہ سارے اس وقت زیر زمین ہیں؟“ نوتن نے بتایا
” اوہ۔! میں کرتا ہوں رابطہ۔“ جسپال نے کہا اور اپنا فون نکالا تونوتن بولی
” کل پتہ کریں گے ، اس وقت سب خیریت ہے۔“ اس نے کہا اور پھر اپنی باتوں میں کھو گئے۔