” جی میں ہمہ تن گوش ہوں۔“ میں نے انتہائی دلچسپی سے کہا تو انہوں نے دائیں جانب قبر پر جلتے ہوئے دِیّے کی طرف اشارہ کر کے بولے
” یہ چراغ دیکھا ہے جو روشن ہے، کیا تم اس کی ماہیت کو سمجھتے ہو؟“
” حضور آ پ ہی فرمائیں، میری توجہ آپ کی طرف ہے۔“ میرے کہنے پر وہ بولے
” یہ دیکھو، یہ چراغ ہے ، یہ پہلے مٹی تھا، اس کو گوندھا گیا، آگ میں پکایا گیا ۔
اس میں تیل ڈالا گیا، بتی رکھی گئی ۔ مٹی سے چراغ بن گیا اور اس نے مٹی کو اپنے اندر لے لیا۔ تیل اور بتی اس کے اندر آ گئی ۔ اب اس میں روشنی نہیں ہے ، روشنی کیسے ہوتی ہے ، اُسے کوئی جلاتا ہے۔ کوئی عمل ہوتا ہے جلانے کے لئے ۔ جب کوئی اسے جلا تا ہے تو روشنی ہوتی ہے ۔ روشن کرنے والا ظاہر ہو جاتا ہے۔“
” جی، یہ سمجھ گیا،لیکن…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولے
” یہ سلسلہ یوں ہوا کہ پہلے تصور پیدا ہوا، اس میں جہد عمل اور شہیدوں کا خون ڈالا گیا اور اس کے دل کی قندیل کو جلایا گیا تو روشنی پیدا ہوئی ۔
(جاری ہے)
اب سمجھو،جسم اور جان کے درمیان سانس پڑی ہے جو خون کو ذکر سے گردش میں رکھے ہوئے ہے ۔ جس سے فکر پیدا ہورہا ہے ۔ روشنی میں ہر شے پڑی ہے اور ہر شے میں روشنی ہے ۔ اور روشنی نے ہر شے کو محیط کیا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں دیکھو پاکستان کو ، یہ قلعہ اسلام ، دل، ایک حرم ہے۔“
” ذکر اور فکر کیا؟“ میں نے گرہ کھولنے کے لئے کہا
” ذکر کا رتعلق دل سے ہے اور فکر کا عقل سے۔
شعلہ عشق کا تعلق دل سے ہوتا ہے کہ دل لامحدود ہے۔“ انہوں کی فرمایا
” جی، میں سمجھ گیا۔ آپ پاکستان کو دل کہہ رہے ہیں ۔ اور اس کی حیثیت ایک حرم کی سی ہے۔“ میں نے واضح کر کے سمجھنے کی کوشش کی ۔
” میں اس پر بات کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لئے خا موش ہوئے پھر کہتے چلے گئے۔”ملک چھوڑا، گھر بار چھوڑا، مال و دولت ، زمین و جائیداد چھوڑی، ہماری عزتیں،مائیں بہنیں ، بیٹیاں، جن کی کوکھ میں ابھی نئی آنے والی زندگی ہمک رہی تھی، انہیں دنیا میں آنے سے پہلے شہید کر دیا گیا۔
بچوں کو کرپانوں پر لہرا دیا گیا۔“ یہ کہتے ہوئے ان کا لہجہ بھیگ گیا اور اس کی آ نکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے ، پھر بھیگے ہوئے لہجے میں بولے
” جب یہ اتنا کچھ ہو جائے تو پھر باقی بر بریت بارے کہنے کی ضرورت نہیں۔ بچے قتل کرنا ، شیطانیت کی آخری حد ہے۔ ہمارے تمام ظاہری رشتے ، بہن بھائی بچے ، بیٹے ، بیٹیاں اور تمام جسمانی قربانی، ساری جانی قربانی سے ہم گذر گئے ۔
ہم نے ہر شے مطلب و مقصد حقیقی پر لگا دی ۔یہ کیا ہے ؟وہ یہ ہے کہ جب قوم میں عشق آ جاتا ہے تو اس میں عزم ویقین آ جاتا ہے۔عشق ہی لذتِ حیات اور لذت موت سے آ شنا کر دیتا ہے ، بلکہ محرم راز بنا دیتا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ رکے پھر بولے ،” دیکھو۔! قلندر لاہوری نے کہا نہیں ہے کہ’خودی ہے زندہ تو موت ہے اک مقام حیات… کہ عشق موت سے کرتا ہے ، امتحانِ ثبات‘۔
۔’موت کے آئینے میں تجھے دکھاکے رُخ دوست …زندگی اور تیرے لئے دشوار کرے‘ …’کشادِ در ِ دل سمجھتے ہیں اس کو… ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں‘۔“
یہ موت حیات کا بھی بڑا عجیب فلسفہ ہے؟“ میں نے کہا تو وہ بولے
” یہ محض فلسفہ نہیں، حقیقت ہے۔ دیکھو۔!کافر یہ سمجھتا ہے کہ موت آئی تو ہر شے ختم ہو گئی ۔ لیکن دین ہمارا یہ بتاتا ہے کہ آج کا دن کل کی خبر دیتا ہے۔
یہ جہان جو دکھائی دیتا ہے ، یہ جوہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ یہ اگلے جہان کی خبر دیتا ہے ۔ ’ اسی رنگ و بو میں الجھ کے نہ رہ جا… چمن اور بھی، آ شیاں اور بھی ہیں‘۔ زندگی اس عالم میں آئی تو یہ عالم ظاہر ہو گیا۔ اسی عالم ظاہر کا ایک باطن ہے ، جو انسان کے اندر ہے اور وہ دل ہے۔ مگر اسی کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہوا ہے۔ اور ظالم کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہی باطن اس کا دل ہے ۔
اسی طرح موت اگلے جہان کا دروازہ کھولتی ہے۔ موت ایک مقام زندگی ہے جہاں سے ہم اگلے جہاں میں جا کر ظاہر ہوتے ہیں۔ موت ہر شے کے ختم ہونے کا نام نہیں ہے۔“
” جی بالکل، کیا آپ اس پس منظر میں پاکستان کی بات کر رہے تھے ، جو دل ہے؟“ میں نے پوچھا تو جذب سے بولے
” عاشقی ۔! تقلید محبو بﷺ سے محکم ہوتی ہے … یہ قافلہ عشق، مرد قلندر کے مومن حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی سالاری میں روانہ ہوا۔
’تُو مرد میداں ، تُو میر لشکر… نوری حضوری تیرے سپاہی ‘۔ جب قافلے نے وہاں سے ہجرت کی تو موت و حیات کی لذت سے گذر کر وطن پاکستان میں آ گیا ۔یہ وطن پاکستان ،دل کا حرم ہے ۔ جنہوں نے موت کو اپنے آپ پر وارد کر کے رسم شبیری ادا کرتے ہوئے،دل کا، حرم کادروازہ کھول دیا ۔ یعنی دل کے حسین چہرے سے نقاب اٹھا دیا۔اس قافلہ عشق نے لاالہ کی تلوار سے غلامی ، محکومی اور محتاجی ، احساس کمتری، مایوسی، نا امیدی ، مجبوری کی رگوں سے خون بہا دیا اور اپنے خون سے الا اللہ اس کائنات پر لکھ دیا۔
آ زادی بھی ، خود مختاری بھی، حکومت بھی حاصل ہوگئی۔اپنے خون سے دل کی تعمیر کی۔ ’ہر شے ہے محو خود نمائی… ذرہ ذرہ شہیدِ کبریائی ‘۔’جہانِ آب و گَل سے عالم جاوید کی خاطر… نبوت ساتھ جس کو لے گئی تھی وہ ارمغاں تو ہے‘…’میرعرب کو آ ئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے … میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے۔‘ تو کیاہوا؟اس چمن کی مٹی نے دل کاراز ظاہر کر دیا۔
’ اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مریں ہم … ہے خوں تیری رگوں میں اب تک رواں ہمارا۔“
” جی،یہ تو ہے۔“ میں نے کہا
”ایک وقت ایسا ا ٓیا کہ ان سے ہر ایک شے چھین لی گئی۔ روٹی ، ہتھیار ، تحفظ کا ہر سامان پہلے ہی لے لیا گیا ، پھر وہ کیا تھا کہ یہ بے تیغ و تفنگ لڑے اور اس مقام سے بھی کامیاب گذر گئے۔’ کافر ہے تو کرتا ہے شمشیر پہ بھروسہ… مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
‘ یہ کیاتھا؟ یہ تھا اس مرد قلندر کی دی ہوئی عشق کی آ گ، جس نے حیات وموت سے بھی گذا ردیا ۔’فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے … ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم۔“
” یہ عشق کی آگ، یہ حیات اور ممات، یہ کیسی قوت ہیں سرکار، کیسے کیسے پہاڑ وں کو رائی بنا دیتے ہیں۔“ میں نے بات آ گے بڑھانے کی غرض سے کہا
”بود و نبود صفات ہیں، یہ ذات کی جلو ہ گریاں ہیں۔ جس کو تو حیات سمجھتا ہے، جس کو ممات سمجھتاہے ان کو ثبات نہیں ہے۔ ثبات کسے ہے ، یہ عشق جاودانی ، دل کی حیات ہے۔یہ دونوں پردے اس نے اپنے آپ کو دیکھنے کے لئے اوڑھے ہوئے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ بولے ،” محکومی پتہ ہے کیاہوتی ہے؟“