”اس سارے ہنگامے کے دوران میری صحافی دوست کو یہ معمول سے ہٹ کر لگا۔ اس نے تصویریں لے لیں اور اپنے دوست صحافی کو بتا دیا کہ کلب میں کیا گڑ بڑ ہوئی ہے۔ انہوں نے پولیس آفیسر سے بات کی۔ پولیس آفیسر صاف مکر گیا کہ گرفتاری کا ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ کلب میں دوشرابی اُدھم مچارہے تھے انہیں وہیں ڈانٹ ڈپٹ کر ان کے گھر والوں کے حوالے کردیا گیا تھا۔
وہ ابھی وہیں تھانے میں تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ وہ دونوں شرابی پار ہو چکے ہیں۔ان کی لاشیں سڑک پر پڑی ہیں۔ اس وقت پولیس آ فیسر دیکھنے لائق تھا۔ اس نے فوری رد عمل میں فون کیا اور نجانے کسے کہا کہ پہلے ایک بڈھے کا قتل رفع دفع کیا۔ اب انہیں کس کھاتے میں ڈالوں۔ میرے پاس پریس بیٹھا ہوا ہے انہیں کیا جواب دوں۔ یہ دو تین فقرے ہی سارا پول کھول رہے تھے۔
(جاری ہے)
صحافی ان کے سر ہوگئی کہ اگر وہ دو شرابی ان کے گھر والے لے گئے تھے تو کیا انہوں نے یہ قتل کر دئیے؟رات سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد سرد خانے میں ہیں۔ ابھی صبح میری سہیلی کو اس کے دوست نے بتایا تو اس نے مجھے یہ تفصیل ای میل کر دی ہے اور اُن دو سادہ لباس فوجیوں کی تصویریں بھی ہیں، یہ دیکھو۔ ‘ ‘یہ کہہ کر اس نے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ان دونوں فوجیوں کی تصویریں دکھائیں جو سادہ لباس میں تھے۔
”ان فوجیوں کا سراغ لگانا ہوگا۔“سندو نے زیر لب کہا تو رونیت بولی۔
”ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا۔“
”وہ کیسے ؟“ سندو نے پوچھا۔
”اسی پولیس سے پتہ چلے گااور میرے دوسرے ذرائع بھی تو ہیں۔ آؤ اتنی دیر میں ناشتہ کرتے ہیں۔“وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
” جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔“ہر پریت کورنے ستائش بھری نگاہوں سے رونیت کو دیکھتے ہوئے کہا تو جسپال ہنس دیا پھر بولا۔
”ابھی تو مزید کھلے گی۔“
”یہ کیا جسپال ، تعارف تو کراؤ۔“ وہ قدرے حیرت سے بولی۔
”یہی ہے وہ میرا حوصلہ ،میری محبت اور میرا جنون۔“ جسپال نے ہر پریت کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے کہا تو ہر پریت سرشار ہو گئی۔
”واؤ! بھابی…“ گرلین کور نے کہاا ور ہر پریت کے گلے لگ گئی۔ رونیت کور بھی اس کے گلے لگی۔
” یہ جذباتی سین پھر دکھانا ، آؤ ناشتہ کر لو۔
“ سندو نے کہا تو سب باہر والے کمرے میں چلے گئے۔
سندو ناشتہ نہیں کر سکا۔ وہ چھت پر چلا گیا۔ اس نے چندی گڑھ میں اپنوں سے رابطہ کر نا شروع کر دیا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ سب ایک کمرے میں جمع تھے۔ انہیں معلوم ہو گیاتھا کہ وہ فوجی کون ہیں؟ وہ کہاں رہتے ہیں اور ان کا تعلق کس ادارے سے ہے ؟ یہ تصدیق ہو جانے کے بعد سندو نے پوچھا۔
”بول جسپال اب کیا کر نا ہے ؟“
”مجھے اسی وقت شک ہو گیاتھا کہ یہ کام”را“ کا ہے۔اصل میں انہوں نے ہمیں یہ پیغام دیاہے کہ وہ جب چاہیں ہمیں مسل کر رکھ دیں۔ میں نے آتے ہوئے پروفیسر کو کہابھی تھا کہ وہ محتاط رہے۔ پروفیسر کا قتل ہر نیک سنگھ کے رد عمل میں تھا۔اور سندو یہ جان لو کہ ممبئی میں تمہیں دیکھا گیاہو گا۔ کیونکہ گرباج نے سب کچھ بتایا ہے تو ان کی توجہ اس طرف ہوئی۔
“
”مجھے لگتا ہے ، جسپال کا یہاں آنے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ کیونکہ اگر ہم بھی وہیں رہتے تو ہم میں سے کوئی زندہ نہیں بچتا۔“ رونیت کور نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اب کیا کرنا ہے ؟“ اس نے اُلجھتے ہوئے پوچھا۔
”وہی کچھ جو انہوں نے کیا ، انہیں واپس لو ٹا دیں گے۔ کتنے لوگ لگائے ہیں اور اب تک کی اپ ڈیٹ کیاہے؟“ جسپال نے پوچھا۔
”دو لوگ پوری طرح ان کے پیچھے ہیں۔ باقی چار لوگ بھی ان کے آس پاس ہیں۔“ سندو نے کہا۔
”انہیں فوراً ہٹا لو ، وہ گھیرے میں آ جائیں گے۔ وہ بندے بھی گنوا لو گے، میں بتاتا ہوں کیا کر نا ہے۔“ جسپال نے تشویش سے کہا پھر رونیت کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”ان کا آفیسر کون ہے ؟ مطلب اس کا رابطہ نمبر کچھ معلوم ہوا ؟“
”یہ دونوں ایک ہی بندے کو کال کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ اس وقت اپنے گھر میں۔
کافی دیر سے اس کا فون ایک ہی جگہ پر پڑا ہے ،حرکت نہیں کر رہا ہے۔“
”میں سمجھ گیا کہ کیا کر نا ہے۔ “ سندو نے کہا اور اپنے بندوں کے ساتھ رابطہ کرنے لگا۔ ایک دم سے ماحول سخت ہو گیا تھا۔ تبھی جسپال کو خیال آ یا ، وہ فوراً سندو کے پاس چلا گیا۔
”اپنے لوگوں کو ہٹانے کے بعد انہیں کہو فون ضائع کر دیں۔ کسی صورت میں بھی فون نہ رکھے جائیں ، ورنہ ہم یہاں پکڑے جائیں گے۔
بلکہ اس کے بعد وہ شہر ہی چھوڑ دیں۔ “
بات سندو کی سمجھ میںآ گئی۔ اس نے سب کو ہدایات دیں اور پھر بتایا۔
”اس آفیسر پر دو بندے لگا دئیے ہیں۔ آدھے گھنٹے میں خبر آ جائے گی کہ کیا ہوتا ہے۔“
انہوں نے وہ آدھا گھنٹہ بہت مشکل سے گزارا۔ ان دو فوجیوں پر جو بندے تھے وہ ہٹ گئے تھے ،ٹیلی فون بوتھ سے انہوں نے اشارے میں بات کی تھی اور وہ شہر سے نکل گئے تھے۔
ان کے پکڑے جانے کا کوئی امکان باقی نہیں رہاتھا۔
اسی دوران ٹی وی پر خبر نشر ہونے لگی کہ محکمہ داخلہ کے ایک اہم آفیسر کو اس کے چار بندوں کے ساتھ اُڑا دیا گیا۔ حملہ آوروں نے اس وقت راکٹ لانچر سے فائر کر دیا تھا جب وہ اپنی سرکاری جیپ میں گھر سے نکلا تھا۔ اس دہشت گردی کے حملہ میں دہشت گرد پکڑے نہیں گئے۔ تاہم فورسز پوری کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ پکڑے جائیں۔ شہر بھر میں ناکہ بندی کر دی ہے۔