” میں نے اپنا سیٹ اپ دوبئی میں بنانا ہے۔ یہ سب تو نہیں جا سکیں گے نا وہاں پر۔“وہ تیزی سے بولی
” لیکن تم دوبئی میں تو نہیں رہوں گی نا، کراچی تو آ نا ہوگا، ان لوگوں کی تمہیں وہاں ضرورت ہو گی۔ اور پھر تم سب سے میرا رابطہ رہے گا۔ جب بھی اور جس کی مجھے ضرورت ہوگی ، میں بلا لوں گا۔“ میں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” دیکھ لیں، یہاں پر آپ کا کام چل جائے گا؟“ اس نے پوچھا تو مسکراتے ہوئے بولا
” کیوں نہیں،بلکہ میں اب کہوں گا کہ تم سب لوگ جاؤ، ممکن ہے میں بھی وہیں کراچی آ جاؤں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں تیرے پیچھے پیچھے دوبئی چلا آؤں۔
“
میری اس بات وہ مسکرا دی۔ پھر خوشگوار لہجے میں بولی
” چلیں، یہ تو اچھا ہوگا کہ تم وہاں آ جاؤ، کچھ دن سکون سے کٹ جائیں گے۔
(جاری ہے)
پھر پوری پوری پلاننگ کے ساتھ نیا کام شروع کریں گے۔“
” اوکے، جیسا تم چاہو۔“ میں نے اطمینان سے کہہ دیا۔ میں اس سے مزید بحث نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد وہ جانے کو تیار ہوگئی۔
دوپہر تک وہ لوگ جانے کے لئے تیار ہوگئے۔
انہیں ایک نجی کمپنی کی فلائیٹ سے سیٹیں مل گئیں۔ وہ سبھی تیار ہو کر ڈرائنگ روم میں آ گئے۔ دارے نے ان سب کے لئے کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ وہ سب نے مل کر کھایا اور پھر وہ سب نکل گئے۔
اس وقت دوپہر ڈھل چکی تھی۔ میں اور بانیتاکور لان میں کرسیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ مجھے ان سب کے جانے پر ہلکا سا جدائی کا احساس ہو رہاتھا۔ میں انہی کی باتیں یاد کرتے ہوئے اس بتا رہا تھا کہ کتنا اچھا وقت ان سب کے ساتھ گذرا۔
” اس کا مطلب ہے کہ تم اُداس ہو رہے ہو۔“ بانیتا کور نے پر شوق نظروں سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا
” ساتھ چاہے چند دن کا ہو، احسا س تو ہوتا ہے نا۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا
” سچی ،بتانا ، مجھے اسی طرح یاد کیا تھا۔ جب تم پہلی بار امرتسر سے آئے تھے؟“ اس نے اسی طرح پر شوق نگاہوں سے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا
” ہاں۔
! ایمانداری سے بتاؤں گا۔تم مجھے بہت عرصہ تک یاد آتی رہی ہو۔ تب تک ہم دوبارہ نہیں مل گئے۔“ میں نے پوری سچائی سے بتایا تو اس کی آ نکھیں تک مسکرا دیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی۔ میرے سیل فون پر چوہدری اشفاق کے نمبر جگمگانے لگے۔ میں نے کال رسیو کی تو وہ سکون سے بولا
” یار۔! کوئی نور نگر آ نے کا ارادہ ہے؟“
” کیا ہوا ، کوئی خاص کام؟“ میں نے پوچھا
” خاص ہے بھی اور نہیں بھی۔
وہ جو ملنگ اور جوگی رام لعل تم یہاں چھوڑ گئے تھے، وہ اب بھی یہیں ہیں۔ میں نے ان میں تو کوئی خاص بات نہیں دیکھی ، لیکن چند دنوں سے ان کے پاس کچھ لوگوں کا آ نا جانا بڑھ گیا ہے۔ وہ بندے مجھے مشکوک لگتے ہیں۔“
” اس کے علاوہ کوئی اور دوسری ہلچل تو نہیں ہے علاقے میں؟“ میں نے پوچھا
” نہیں، ابھی تک تو نہیں ہے۔لیکن میرا دماغ کہہ رہا ہے کہ ان لوگوں میں کوئی گڑ بڑہے۔
“اس نے اُلجھتے ہوئے کہا تو میں نے ایک دم سے فیصلہ کر لیا۔
” ٹھیک ہے ، میں چکر لگاتا ہوں۔ تم ان لوگوں کا ٹھکانہ معلوم کر کے رکھو۔دیکھ لیتے ہیں۔ “ میں نے اُسے تسلی دی۔ پھر کچھ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد فون بند کردیا۔فون رکھ کر میں نے بانیتا کور کو اس جوگی اور ملنگ کا قصہ سنانے لگا۔ وہ بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔ پھر ایک دم سے بولی
” چل یار۔
! اُدھر تیرے نور نگر ہی چلتے ہیں۔ ایک دو دن ادھر گذار کے آ تے ہیں۔تب تک کوئی بات سمجھ میں آجائے گی، اس باس کے حوالے سے ۔“ بانیتا کور نے یاد دلایا تو مجھے کچھ گھنٹے پہلے کا منظر یاد آ گیا جو میں نے مراقبہ کی سی کیفیت میں دیکھاتھا۔ ایک بار تو میرا دل کیا کہ میں وہ منظر بانیتا کور کے ساتھ شیئر کروں ، پھر ایک دم سے ارادہ بدل دیا۔ جب مجھے کچھ سمجھ میں نہیںآ رہا تو پھر اس کے ساتھ دماغ ہی کھپانا ہے۔
تبھی میں نے اُٹھتے ہوئے کہا
” چل اُٹھ پھر تیار ہو جا ، چلیں۔“
میرے یوں کہنے پر وہ اُٹھ گئی۔
میں نے اپنے ساتھ دارے کو بھی تیار کر لیا۔ نجانے کب کا وہ نور نگر نہیں گیا تھا۔ میں نے دارے کو چلنے کا کہہ دیا تو وہ دوسرے ملازم بھی مچل گئے ، وہ میاں بیوی، کب کے یہاں آ ئے ہوئے تھے۔
” اچھا، پھر تم لوگ ایسا کرو۔ ان دونوں بزرگوں کو بھی ساتھ لے لو، انہیں بھی اپنے ساتھ نور نگر لے جاؤ۔
جتنے دن رہنا ہوگا، رہو۔ ان بزرگوں کو چاہے حویلی میں چھوڑ دینا۔ ایک ہفتہ تک تم لوگ خوب گھوم پھر لو۔ ٹھیک ہے۔“ میں نے کہا تو سبھی خوش ہوگئے۔ میں نے سوچا کہ ایک دو دن نور نگر رہ آؤں گا پھر اماں کے ساتھ وقت گذاروں گا۔ بانیتا کور بھی ساتھ آ جائے گی۔
” ٹھیک ہے ، ہم پھر وہ فور وہیل گاڑی لے جاتے ہیں۔“ دارے نے تیزی سے اجازت چاہی۔
” چل لے جا۔
ہم آ جائیں گے۔“ میں نے کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جب میں تیار ہو کر واپس آیا تو بانیتا کور بالکل بدلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اور بالکل کوئی پنجاب کی مٹیار دکھائی دے رہی تھی
” یہ کپڑے کہاں سے لئے؟“
” میں نے اور گیت نے خریدے تھے۔ باقی میں نے کافی کپڑے رکھ لئے ہیں۔ کیسی لگ رہی ہوں؟“ اس نے میری طرف دیکھ کر مصنوعی شرماہٹ سے کہا تو میری ہنسی نکل گئی۔
” اچھاچلو ، نکلو، مجھے چوہدی اشفاق کے لئے کچھ چیزیں بھی خریدنی ہیں۔ “ میں نے کہا تو اس نے قریب پڑے بیگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
” وہ دیکھو۔! میں تیار ہوں ، چلو۔“ اس نے کہا تو میں نکل پڑا۔ میرا رُخ مارکیٹ کی طرف تھا۔
” کیا خریدنا ہے اس کے لئے؟“ بانیتا کور نے یونہی پوچھ لیا تومیں نے ہنستے ہوئے بتایا
”پچھلی بار جب میں نور نگر گیا تھا تو چوہدری اشفاق نے بڑے مان سے ایک بات کہ تھی۔
“
” کیا؟“ اس نے پوچھا
” کہنے لگا کہ چھاکے سے مجھے چوہدری اشفاق تو بنا دیا ہے ۔ اب میرا رکھ رکھاؤ بھی ایسا ہونا چاہئے۔اب آؤ تو شہر سے کپڑے ، پرفیوم، اور وہ ساری چیزیں لے کر آ نا جس سے بندے کی ٹور شور بنے۔ بس اس کی ٹور شور کا سامان لینا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے میں ہنس دیا۔ تو وہ بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔
” یار یہ تعلق ، یہ رشتے یہ ناطے، جن پر مان ہوتا ہے ، جنہیں ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، ان کے لئے کچھ کرتے وقت کتنا اچھا لگتاہے۔
“وہ بڑی ادا سے بولی
” ہاں ایسا ہی ہے۔“ میں نے کہا تو ہم ایسے ہی باتیں کرتے ہوئے مارکیٹ جا پہنچے۔
تقریباً دو گھنٹے تک یونہی جو سمجھ میں آیا اس کے لئے خریدتے رہے۔ہمیں شاپنگ کرتے ہوئے کوئی دیکھتا تو بلاشبہ ہمیں اناڑی کہتا۔ اسی دوران گیت کا فون آ گیا کہ وہ لوگ کراچی پہنچ چکے ہیں۔ ابھی ائیر پورٹ سے نکل رہے ہیں۔ ہم شاپنگ بیگز سے لدے واپس گاڑی تک آ ئے ۔
میں نے اپنا سامان بانیتا کور کے دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے سامان کے اوپر رکھ دیا اور چابی نکال کر دروازہ کھولا ۔ بانیتا کور نے وہ سارا سامان جلدی سے پچھلی سیٹ پر رکھا ،جو رکھتے ہی بکھر گیا۔ سب سے اوپر کچھ پرفیوم کی بوتلیں تھیں۔ وہ جو گری تو ان میں سے دو ٹوٹ گئیں۔ کار میں تیز مہک پھیل گئی۔
” اوہ۔! یہ کیا ہوا یار۔“ وہ جھنجلاتے ہوئے بولی
” کچھ نہیں ہوا، پرفیوم ضائع ہو گیا۔
“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ پلٹتے ہوئے بولی
” میں نئے لیکر آتی ہوں، بس ایک منٹ ٹھہرو۔“
”چلو آ جاؤ، کچھ اور بھی ہیں۔“ میں نے کہا تومیری بات سنی ان سنی کرتی ہوئی دُکان میں گھس گئی۔ میں نے وہ دونوں بوتلیں اٹھائیں تاکہ انہیں باہر پھینک دوں اور ان کی تیز مہک سے نجات ملے ۔ میں نے جیسے ہی وہ ٹوٹی ہوئی بوتلیں اٹھائیں، ان میں پڑا ہوا پر فیوم میری کپڑوں پر گر گیا۔
میں نے وہ بوتلیں باہر پھینک دیں اور ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا۔ میں نے دروازے کھول دئیے تاکہ وہ مہک ختم ہو جائے۔پانچ منٹ کے دوران بانیتا کور پلٹ آئی ۔ اس نے دو کی بجائے چار بوتلیں خرید لی تھیں ، وہ اس نے ڈیش بورڈ پر رکھ دیں اور ہم چل پڑے۔
” ہم جدھر سے گزرتے گئے، ادھر سے خوشبو بکھرتی چلی جائے گی۔“ بانیتا کور نے کہا اور بچوں کی طرح ہنس دی۔
جبکہ مجھے وہ مہک اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
اس وقت ہم شہر ہی میں تھے۔سورج غروب ہو گیا تھا۔ تبھی مجھے خیال آیا تو میں نے کہا
” یار کھانا نہ کھا لیں۔یہاں سے نور نگر کا فاصلہ چار اور پانچ گھنٹوں کا ہے۔“
” کچھ نہیں ہوتا، رستے میں کچھ دیکھ لیں گے یا وہیں چل کر کھائیں گے۔“
اس نے کہا تو میں نے پوری توجہ ڈرائیونگ پر لگا دی۔ تقریباً دو گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد میں پیٹرول لینے کے لئے ایک فلنگ اسٹیشن پر رُکا۔ وہیں ایک ہوٹل بھی تھا ۔ اُسے دیکھتے ہی بانیتا کور نے کہا