Episode 103 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 103 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

دن کا پہلا پہر گذر چکا تھا۔رات بھر مجھے نیند نہیں آئی تھی۔ میں پوری کوشش کر چکا تھا کہ کسی طرح مجھے معلوم ہو جائے، لیکن وہ ایک اشارہ بھی نہیں ملا تھا۔ میرے اندر بے چینی انتہا پر تھی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ یوں مجھ پر حملہ ہو جائے اور مجھے پتہ نہ چلے۔ یہاں پر آ لات بھی بے بس ہو گئے ہوئے تھے۔ میں اس وقت چھت پر بیٹھا تھا۔ اس ٹاؤن میں میرا پہلا دن تھا۔
اگر چہ یہاں بہت سناٹا تھا۔ کوئی شور شرابا نہیں تھا۔ یہ جگہ جتنی محفوظ ہو سکتی تھی ، اتنی ہی خطرناک بھی تھی۔وہ سبھی نیچے تھے اور اپنے طور پر نجانے کیا کچھ کر رہے تھے۔ رات بانیتا کور بھی میرے پاس نہیں آ ئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں رہی اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا ۔

(جاری ہے)

میں اب تک سوچوں ہی میں گم ہوں۔

مجھے اپنے دل سے پوچھنا چاہئے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں اپنے دماغ میںآ ئی ہوئی ساری سوچوں کو باہر نکال دیا۔ میں اپنے آپ میں کھو چکاتھا۔
سب سے پہلے مجھے پانی کی لکیر دکھائی دی۔جو دھیرے دھیرے بڑھتی چلی گئی۔یہاں تک کہ وہ ایک دریا میرے سامنے تھا۔ ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا، جو مٹیالے رنگ کا تھا۔میں اس کے اوپر سے گزر گیا۔ یہاں تک کہ ایک راستہ دکھائی دیا جو دریا کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔
وہیں ایک طرف بہت کھلا میدان آ گیا۔ اس کے درمیان میں ایک شخص زنجیروں سے بندھا ہوا تھا۔ اور وہ زنجیریں زمین کے ساتھ گاڑی ہوئی لکڑی کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں۔ اس کا خون ٹپک رہا تھااور وہ فریاد کناں تھا۔ مجھے اس کا چہرہ یوں لگا جیسے میں نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہوا ہے۔ کہاں دیکھا ہے، اس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ تب اچانک وہ مجھ پر واضح ہو گیا۔
میں نے سر اٹھا دیا۔ تبھی مجھے سیڑھیوں پر آہٹ سنائی دی۔ میں نے دیکھا بانیتا کور ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے پکڑے ہوئے تھی اور اس میں چائے کے مگ تھے۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
” آؤ بانیتا۔!آ جاؤ۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو آ گے بڑھ آئی ۔ پھر ٹرے میرے قریب رکھتے ہوئے بولی
” یہ تم کہاں گم تھے؟“
” کہیں نہیں، بس یونہی اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔
“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا
” جمال، میں نے جتنا وقت تمہارے ساتھ گذارا ہے ، اس دوران میں نے کبھی تمہیں اتنا مایوس نہیں دیکھا۔ کل سے تم ایسے کیوں ہو گئے ہو؟“ اس نے کے لہجے میں گہری تشویش تھی۔
” ہر کام میں رَبّ تعالی کا کوئی راز ہو تا ہے ، ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کچھ دیر ٹھہر جاؤ، ابھی وہ راز بھی کھل جائے گا۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور قریب پڑا ہوا فون اٹھا لیا۔
بانیتا کور نے کوئی بات نہیں کی ۔ میں نے نذیر طارق کے نمبر پش کئے ۔ چند لمحے بعد رابطہ ہو گیا۔
” کچھ پتہ چلا؟“ میں نے پوچھا
” مجھے سمجھ نہیں آ رہی ، پتہ ہی نہیں چل رہا ہے۔“ اس نے انتہائی مایوسی میں کہا
” فوراً پتہ کرو، تمہارے دائرہ کار میں جتنے لوگ آتے ہیں، ان سب کو اس کام پر لگاؤ۔ جیسے ہی پتہ چلے ، مجھے بتانا، بہت وقت گذر چکا، اگر تم لوگ کچھ نہیں کر سکتے تو بتاؤ ، پھر میں کچھ کروں ۔
“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔
” یہ کیا ہے جمال؟“ بانیتا کور نے پوچھا
” ابھی بتاتا ہوں نا۔“ میں نے کہا اور فہیم کو کال ملائی۔ وہ نیچے کمپیوٹر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے فوراً کال پک کی
” جی بولیں۔“ اس نے کہا تو میں نے بتایا
” میری بات غور سے سنو، تم کمپیوٹر پر دیکھو،دریائے راوی کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب کہیں بھی کوئی ایسی جگہ ہے ، جہاں کھلا میدان ہو یا اس طرح کی مشابہہ کوئی جگہ ہے تو تلاش کرو ۔
“ 
” میں ابھی دیکھتا ہوں، بلکہ تم آ ہی جاؤ، ہم مل کر دیکھتے ہیں۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔
میں اور بانیتا کور نے سکون سے چائے پی اور پھر نیچے چلے گئے۔ وہ ٹرے اپنے ساتھ اٹھا لائی۔ ہم فہیم کے کمرے میں گئے تو وہیں مہوش بھی تھی۔ وہ دونوں جیسے ہماری راہ تک رہے تھے۔
”کچھ ملا؟“ میں نے پوچھا
”یہ دیکھیں، جیسے تم نے کہا اس کے مطابق ہو۔
“ اس نے کمپیوٹر اسکرین پر ایک جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا۔ میں اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ وہ جگہ ایسی تو نہیں تھی ، جیسے مجھے نظر آ ئی تھی۔ بلکہ وہاں درخت اور گھر تھے۔ مگر وہاں جگہ کی مناسبت سے سب کچھ ویسا ہی تھا، جو مجھے دکھائی دیا تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا اور پھر پوچھا
” اس جگہ کا نام کیا ہے؟“ 
” کوٹ دلاور۔ یہ لکھا ہوا ہے۔
“ اس نے اسکرین پر دیکھتے ہوئے کہا۔ میں نے دیکھا اور پھر فون نکال کر اپنے اپنے متعلق ان لوگوں کو فون کیا جو میرے لئے کام کرتے تھے۔ رابطہ ہوتے ہی میں نے اس سے پوچھا
” کیا نام تھا اس کا جہاں ہم نے کچھ دیر کے لئے ایک بندہ رکھا تھا۔ وہیں شیخوپورہ روڈ پر۔“ 
” سر، اس کانام چوہدری زوہیب ہے، میں اسی کے بارے میںآ پ سے بات کرنا چاہتا تھا،لیکن آپ تو…“
” اس کے بارے میں کیا بات تھی؟“ میں نے تجسس سے پوچھا تو وہ تیزی سے بولا
” سر ُاسے غائب ہوئے دو دن ہو گئے ہیں۔
اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔“ اس نے کہا تو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
” اچھا ، تم صرف اتنا پتہ کرو کہ اس کے کارخانے میں سے دودن سے بندہ کون غائب ہے؟ اور وہ رہتا کہاں ہے؟ اور تیسری معلومات یہ لینی ہے کہ اس کے کارخانے میں کام کرنے والے کسی بندے کا بھی تعلق کوٹ دلاور یا اس کے آس پاس کہیں سے ہے؟“
” میں ایک گھنٹے بعد آپ کو بتاتا ہوں۔
“ اس نے کہا تو میں نے انتظار کرنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔
اس نے ایک گھنٹے سے پہلے ہی مجھے فون کر دیا۔ اس نے پر جوش لہجے میں کہا
” جی ایک بندہ غائب ہے اور اس کا تعلق بھی کوٹ دلاور سے ہے۔ اس کا نام اشرف پاڈا ہے ۔ اس کے فون پر بہت ٹرائی کیا گیا ، مگر دودن سے اس نے فون اٹھایا ہی نہیں۔“ 
” اس کا نمبر بتاؤ۔“ میں نے پوچھا تو اس نے نمبر بتادیا۔
میں نے اسے مزید نگاہ رکھنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ وہ نمبر فہیم ہی نے لکھا تھا اور وہی اس پر کوشش کرنے لگا کہ یہ فون اس وقت کہاں ہو سکتا ہے۔ وہ عام فون ہی ثابت ہوا۔ اور میری توقع کے مطابق اس وقت وہ کوٹ دلاور کے پاس ہی تھا۔ میں نے سب کو اکھٹا کیا اور چلنے کے لئے کہا۔ جنید، اکبر ، علی نواز اور سلمان میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے۔
بانیتا کور بھی جانا چاہتی تھی۔ مگر میں نے اسے خود روک دیا۔ وہ اصرار کرنے لگی ۔ تب زویا بھی ساتھ چلنے کا کہنے لگی۔ ہم دو ٹولیوں میں بٹ گئے۔ میں،بانیتا کور ، زویا اور سلمان اور دوسری میں وہ تینوں تھے۔دوپہر ہونے میں وقت تھا۔ جب ہم وہاں سے کوٹ دلاور کے لئے نکل پڑے۔
سلمان نے اس راستے کو ٹریس کر لیا تھا، وہی جنید کے ساتھ رابطے میں تھا۔
ہم دو فوروہیل میں تھے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم کوٹ دلاور پہنچ گئے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ کوٹ دلاور بستی نما تھا اور ایک طرف سرے پر موجود تھا۔ اس کے ساتھ ایک بڑا سارا میدان شروع ہوتا تھا ، جو کافی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں جھاڑیاں درخت اور نجانے کیا کیا اُگا ہو اتھا۔ اس میدان میں پگڈنڈی نما راستے جاتے تھے۔ایک طرف کچا راستہ تھا جہاں پر ٹائروں کے نشان تھے ۔
ہم وہاں جا کر رُک گئے۔ 
جنید نے اشرف پاڈے کے بارے میں معلومات لینے کے اپنا رخ بستی کی طرف موڑ لیا۔ وہ اس کے بارے میں پتہ کرنے لگے تھے ۔ وہ اس کے گھر تک جا پہنچے تھے۔ مگر وہ گھر نہیں تھا۔ وہیں ایک مقامی نے بتایا کہ وہ ذرا دور ایک چائے خانے پر بیٹھا ہو اہے۔ وہ فوراً وہاں پہنچے۔ وہ شخص چند لوگوں کے درمیان بیٹھا گپیں ہانک رہا تھا۔
جنید کا فون آن تھا اور ہم سب سن رہے تھے۔
” اشرف پاڈاتمہارا نام ہی ہے؟“ جنید نے اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر پوچھا
” جی ہاں، پر تم کون ہو؟“ اس نے قدرے رعب سے پوچھا
” تم کارخانے سے غائب ہو ، وہاں کچھ بتا کر نہیں آئے، نہ تم فون کال سن رہے ہو۔ کیا بات ہے۔“ جنید نے پوچھا
” میں نے وہاں کام چھوڑ دیا ہے ، میں نے بتا دیا تھا مینیجر کو ۔
بلکہ اس کے ساتھ حساب بھی کر آ یا تھا۔“ اس نے بتایا تو جنید نے پوچھا
” مطلب ، مینیجر کو تمہارے بارے میں پتہ ہے کہ تم کام چھوڑ گئے ہو؟“ 
” جی ہاں، پر تم کون لوگ ہو اپنا تعارف تو کراؤ۔“ اس نے پھر اسی رعب دار لہجے میں پوچھا
” دیکھو، ہم لوگ پولیس سے ہیں۔ وہاں ڈکیتی ہو گئی ہے اور مینیجر نے تم پر شک کا اظہار کیاہے۔ اسی نے ہی تمہارا پتہ بتایا ہے۔
“ جنید نے پورے اعتماد سے کہا تو وہ تیزی سے بولا
” ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ تم جھوٹ بول رہے ہو، وہ تو…“ اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک دم سے خاموش ہو گیا، جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
” کیوں نہیں ہو سکتا ؟“ جنید نے اس کی بات نظر انداز کر دی تو اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا
” مجھے کچھ پتہ نہیں اور میں پابند نہیں ہوں تم لوگوں کا، میں نے جب ایسا کیا ہی نہیں تو خواہ مخواہ…“ 
لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے۔
جنید نے پسٹل نکال لیا اور اکبر نے اسے گردن سے پکڑ لیا۔ پھر ایک جھٹکے ہی میں اسے فور وہیل میں لا پھینکا۔ چند لمحے بعد جب وہ وہاں سے نکلے تو اس وقت تک علی نواز نے اس نے منہ میں پسٹل کی نال ڈالتے ہوئے پوچھا
” بول اوئے، تیرا مالک کدھر ہے؟ کہاں رکھا ہوا ہے اسے ؟ ‘ ‘ یہ سنتے ہی اس کی آ نکھیں پھٹ گئیں۔
” دیکھ ۔! اب یہ بے غیرت کیسے دیکھ رہا ہے۔
“ اکبر نے اس کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا
” میں کچھ نہیں جانتا ہوں سوائے اس کے کہ وہ اس طرف کہیں چھپایا ہو اہے ۔“ وہ پوری طرح صاف نہ بولاتو علی نواز نے اسے گھورتے ہوئے کہا
” دیکھ ، اگر سچ نہیں بتائے گا تو تجھے مرنا ہوگا، تعاون کروگے تو شاید ہم تجھے چھوڑ دیں۔“
” میں سچ کہتا ہوں ، وہ ادھر ہے اور وہاں جو جاتا ہے پھر وہ واپس نہیںآ تا۔
“ اس نے آڑے انداز میں بتایا۔
” وہاں کی آدم کور ہیں؟“ اکبر نے کہا
” اس سے بھی بڑی بلائیں ہیں۔“ وہ خوف زدہ لہجے میں بولا تو اکبر اس کی پٹائی کرنے لگا۔ وہ اس کی اس وقت پتائی کرتے چلے آئے، جب تک وہ ہم تک نہیں پہنچ گئے۔ وہاں لا کر اس نے اس کھینچ کر فور وہیل سے نکالا اور گھسیٹتا ہوا فوروہیل کے آ گے لے آیا۔ اشرف پاڈے نے کف زدہ انداز میں ہماری جانب دیکھا۔
تبھی اکبر نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے جنید سے دھاڑتے ہوئے کہا۔
” گذار دے اس کے اوپر سے۔ اس کے تین ٹکڑے ہونے چائیں کم از کم۔“
” خدا کے لئے مجھے مت مارو۔ میرا کائی قصور نہیں ہے، میں نہ کرتا تو وہ میرے بچے مار دیتے۔“ وہ واویلا کرتے ہوئے بولا
” تو پھر سچ کیا ہے فوراً اُگل دے۔“ اکبر نے اس کے ٹھوکر مارتے ہوئے کہا

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط