” محترم جمال۔! میں نے کہا تھا نہ میرے باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر میں اس احسان کا بدلہ دوں گا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میرے جانے کے بعد آپ میرے احسان مند ہوں گے تو میں ایک اہم بات بتا رہا ہوں ، جس سے انسانیت کا بہت بھلا ہونے والا ہے۔ میں نے جو پہلی دوا تیار کی تھی، اس وقت میرے ذہن میں یہ تھا کہ وہ لوگ جو عادی مجرم ہیں اور انسانیت کے لئے قاتل ثابت ہو رہے ہیں، ان کا ذہن بدلنے کے یہ دوا استعمال کرائی جائے۔
انسانیت کی بھلائی کے لئے ذہین لوگوں کواور زیادہ ذہین بنایا جائے۔ لیکن ہوا کیا اس کے اُلٹ۔ میری اس دوا کے بل بوتے پر ایک ایسی فورس تیار کی جا رہی ہے ،جو دوسرے ملکوں میں جا کر تخریب کاری کریں۔ میرے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے اور اس فورس کی تیا ر کردہ کچھ لڑکیاں تمہارے ملک میں بھی آ چکی ہیں۔
(جاری ہے)
مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ مقامی بندہ کون ہے ۔ لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ تمہیں آگاہ کر دوں۔
میں نے جو دو شیشیوں کے ساتھ خط تمہیں دیا ہے ، اس میں ان دواؤں کا فارمولا تمہیں لکھ کر دے دیا ہے۔یہ فارمولا پہلی دوا کے ساتھ ہی دوسری دوا کا بھی لکھا ہوا ہے ۔ ان کے بارے میں تفصیل بھی درج ہے کہ یہ کیسے استعمال کرنا ہوگا۔ اگر ضرورت پڑے تو مزید بنا سکتے ہیں۔ ورنہ میں تو حاضر ہوں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ امن ، صرف طاقت کے توازن ہی میں پوشیدہ ہے۔
امید ہے میرے باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا یہ اچھا بدلہ ہو سکتا ہے۔میں نے یہ خط اس لئے دیر سے دیا ہے کہ تم مجھے اب روک نہ سکو۔ بھگوان کے لئے روکنا بھی نہیں۔میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔رابطہ کروں گا۔“
میں خط پڑھ چکا توکچھ دیر تک اس کے اثر میں رہا۔ پھر بانیتا کور کی آواز پر چونکا
” کافی پراسرار آ دمی تھا۔“
”ہوں،دیکھتے ہیں۔
“ میں نے کہا اور سوچ میں ڈوب گیا۔مجھے اب کسی کیمسٹ کو تلاش کرنا تھا جو بہت زیادہ تجربے کار ہو اور و ہ اس فارمولے کے مطابق کام کر سکتا ہو۔اس وقت میرے ذہن میں دور تک کوئی ایسا بندہ نہیں تھا۔ میں نے صبح اس بارے معلومات کا سوچا اور سونے کی تیاری کرنے کے لئے اُٹھ گیا۔ اسی وقت جسپال کا فون آ گیا۔ حال احوال کے بعد اس نے کہا
” یار ، تمہارے لاہور میں ایک لڑکی رہتی ہے ۔
یہاں تو اس کا نام سندیپ کور تھا، اسے پکڑنا ہے ، اس کے پیچھے لوگوں کا پکڑنا ہے، میں اس کا پتہ اور تصویر بھیج رہا ہوں، وہ ہماری ایک بہت اچھی دوست کی سہیلی ہے۔“
” تمہاری دوست کی سہیلی ، ویسے کون ہیں وہ لوگ؟“ میں نے پوچھا تو اس نے اختصار کے ساتھ وہ ساری کہانی سنا دی۔ پھر کہا
”یہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں، اس کی آڑ میں کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
“
” میں دیکھ لیتا ہوں۔“ میں نے کہا اور فون سے تصویر دیکھنے والا آپشن کھولتے ہوئے کہا۔ اس پر بانیتا کور نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا
” لگتا ہے کوئی کام نکل ہی آیا۔“
” ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے ۔“ میں نے ہنستے ہوئے اُسے وہ سب بتا دیا جو جسپال سنگھ نے مجھے بتایا تھا۔اس نے بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا
” امرتسر، وہاں کہاں ؟ میری نگاہ میں تو ایسا کوئی ادارہ نہیں، کہاں ہو سکتا ہے؟“
” یہ تم جانو اور تمہاری یادداشت۔
“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
” چلو دیکھ لیتے ہیں۔“ اس نے لاپرواہی کے سے انداز میں کہا اور اس لڑکی کی تصویر دیکھنے لگی۔ سندیپ کور اچھی خاصی حسین لڑکی تھی ۔ بھرا بھرا جسم، گول چہرہ، موٹی نیلی آنکھیں، تلوار ناک اور پتلے پتلے رسیلے لب۔ چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعدمیں نے طارق نذیر کو فون کیا۔وہ شاید میرے ہی انتظار میں تھا۔
” وہ ٹاؤن میں جو حادثہ ہوا ، اس بارے تمہیں کچھ معلوم نہیں ہوا ہوگا؟“ میں نے اس سے پوچھا
”صرف اتنا کہ چند لوگ آئے اور حملہ کر کے غائب ہو گئے ۔
“
” چلو، اب تم ایسا کرو، اپنے چند لوگ ساتھ لو، جب تیار ہو جاؤ تو مجھے بتانا، بہت ہی اہم مشن تمہارے ذمے لگا رہا ہوں۔“
” جی میں تیار ہوں جہاں کہیں گے پہنچ جائیں گے۔“ اس نے کہا تو میں نے اُسے پتہ بتاتے ہوئے کہا
” میں وہیں تمہیں ملوں گا۔ میرے ساتھ میری ایک ساتھی بھی ہو گی، ہو گی کا مطلب ہوگی۔“
” جی میں سمجھ گیا، میں نکل رہا ہوں۔
“ اس نے کہا تومیں نے فون بند کر دیا۔ ہمیں وہاں سے نکلنے میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت لگا۔
نہر کا پل پار کرتے ہی میں نے طارق کو فون کیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسی طرف ہی جا رہا تھا۔ میں نے ایک پوائنٹ پر اسے رُک جانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم آپس میں جا ملے۔ اس کے ساتھ چا ر آدمی تھے۔ وہیں ساتھ میں ایک مارکیٹ تھی ۔ وہاں موجود ایک ریستوران میں ہم جا بیٹھے۔
دو بندے اس گھر کی جانب بھیج دئیے تاکہ ایک چکر لگا آ ئیں۔طارق بار بار بانیتا کور کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جس پر وہ محض ہنس کر رہ گئی ۔
” میں اصل میں یہاں اس لئے رکا ہوں کہ پلان کے بارے میں بات کر کے کلیئر ہو جائیں۔“ یہ کہہ کر میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا
” اس علاقے میں تم لوگ گھروں کے بارے میں جانتے ہو، سیکورٹی بھی ہوگی اور اندر سے کچھ بھی نکل سکتا ہے۔
“
” اس کا میں نے بندو بست کیا ہے۔پولیس فورس کی مدد لی ہے ، اگر آپ کہیں تو انہیں بلوا لیں۔“ طارق نے پوچھا تو میں نے کہا
” اگر اندر سے مزاحمت ہوئی تو، ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ وہاں کیا ہوگا۔“
” میں کہتا ہوں، آخر اس آ پریشن کے بارے جواب بھی تو دینا ہوگا۔“ اس نے فون سیدھا کرتے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے لیکن یہ لڑکی ہر حال میں زندہ چاہئے ۔
“ میں نے سیل فون پر اس کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔ سب نے تصویر دیکھ لی ۔ ایسے میں ان دو بندوں کی طرف سے کال آ گئی ، جنہیں گھر دیکھنے کو بھیجا تھا۔ طارق نے وہ کال سنی ، پھر بتایا
” وہاں مکمل خاموشی ہے ۔ گیٹ پر کوئی چوکیدار نہیں ،ممکن ہے اندر ہو۔وہ کوٹھی صرف سامنے سے کھلی ہے ، باقی تین اطراف میں گھر ہیں۔“
” چلو نکلیں۔“ میں نے کہا تو ہم سب وہاں سے نکلتے چلے گئے ۔
وہ سڑک مین روڈ سے دائیں جانب نکلتی تھی۔ دور تک جاتی ہوئی اس سڑک پر سٹریٹ لائٹ کی ملجگی روشنی تھی ۔ وہ کوٹھی آ گے جا کر دائیں جانب آ ٹھواں تھا۔وہ ایک کنال پر تھی، جس کے وسط میں رہائشی عمارت تھی ۔ میں نے اس کوٹھی کے عین سامنے جا کر کار روکی۔ تب تک ہم دونوں اسلحہ سے لیس ہو چکے تھے ۔ ہم نے جو جیکٹیں پہنی تھیں۔ اس میں سب کچھ تھا ۔ ہم دونوں نکلے اور گیٹ پر چلے گئے۔ اس دوران ایک لڑکا باؤنڈری وال پر چڑھ گیا۔ اس نے اندر دیکھا ، کوئی نہیں تھا۔ بانیتا کور نے اسے اشارہ کیا کہ اندر سے جا کر گیٹ کھول دے۔وہ اندر کود گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے گیٹ کھول دیا۔ میں اندر چلا گیا۔ باقی میرے پیچھے آ گئے ، دو بندے گیٹ کے پاس رک گئے۔