فائرنگ سے پورا علاقہ گونج اٹھا تھا۔سامنے کھڑی فوروہیل پر جنید اور اکبر نے اتنی گولیاں چلائیں تھیں کہ اس میں آ گ بھڑک اٹھی۔ جیسے ہی آ گ کا شعلہ بلند ہوا وہ فووہیل ایک دھماکے سے پھٹ گئی ۔ اس وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ کتنے آ دمی اس میں تھے ، زندہ بھی تھے کہ وہ لوگ اپنی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
کون ہو سکتے تھے؟ یہ پہلا سوال تھا جو میرے ذہن میں آ یا ۔
مگر اس کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا۔ سبھی کے ہونٹوں پر یہی سوال تھا۔ مگر یہ وقت اس سوال کے جواب کا نہیں تھا ۔
” اس سے پہلے کہ پولیس یہاں پر آ ئے ، فہیم تم ایسا کرو، فوراً بانیتا اور گیت کو لیکر یہاں سے نکل جاؤ۔ سلمان تم بھی ان کے ساتھ جاؤ۔“
” جانا کہاں ہوگا؟“ سلمان نے پوچھا
” وہیں ماڈل ٹاؤن، فوراً۔
(جاری ہے)
“
میرے کہنے پر وہ پورچ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھے اور اگلے چند منٹ میں وہ وہاں سے چلے گئے۔
جنید اور اکبر ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔ وہ سامنے کی چھت پر دکھائی دے رہے تھے۔ میرے پیچھے مہوش، زویا، علی نواز کھڑے تھے۔
” ابھی پولیس آ تی ہوگی، اس کے بہت سارے سوال ہوں گے۔ لہذا، جو بھی کہنا ہے ،میں نے ہی کہنا ہے، تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ،سلمان سے رابطہ رکھنا۔“ میں نے کہا اور دوسری گاڑی ی طرف اشارہ کیا۔ وہ تینوں بھی وہاں نکل گئے۔
تب میں طارق نذیر کو فون کیا۔
” سر ، مجھے اطلاع مل گئی ہے اور میں اپنے آفس سے نکل پڑا ہوں۔ میرا متعلقہ تھانے سے رابطہ ہو گیا ہے۔ “ وہ تیزی سے بولا
” پولیس والے بہت سوال کریں گے اور …“ میں نے کہنا چاہاتو اس نے میری بات کاٹ کر کہا
” وہ کوئی سوال نہیں کریں گے۔ میں سب دیکھ لوں گا، بس میرے آنے تک وہاں رہیں۔“
” اوکے ۔
“میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہونا شروع ہو گیاتھا۔ میں واپس پلٹ کر اندر آ گیا۔ مجھے اب طارق نذیر کا انتظار تھا۔
باہر پولیس کی بہت ساری نفری آ چکی تھی۔ ڈی ایس پی رینک کے آ فیسر نے گیٹ پر کھڑے سیکورٹی گارڈ سے سوال جواب شروع کئے ہی تھے کہ طارق نذیر پہنچ گیا۔ اس نے پولیس آ فیسر سے بات کی اور اس کے ساتھ ہی اندر آگیا۔
جس طرح طارق نذیر میرے ساتھ تپاک سے ملا،پولیس آ فیسر بھی ویسے ہی ملتے ہوئے بولا
” ہم نے پورے علاقے کو گھیر لیا ہے ۔“
” لیکن ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ لوگ تو اپنا کام کر کے جا چکے۔ اگر ان کا کوئی بندہ ہوا بھی تو انہی تماشائیوں میں ہوگا، جسے ہم پکڑ نہیں سکتے۔“ میں نے کہا
” آپ کو کسی پر شک ہے یا کوئی پہلے سے دھمکی؟“ پولیس آفیسر نے پوچھا
”بظاہر کوئی دھمکی نہیں تھی اور شک ۔
!اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ “ میں نے جواب دیا
” سر ، آپ ابھی یہاں سب دیکھیں، پھر میں آپ سے تفصیل کے ساتھ بات کروں گا۔ “ طارق نذیر نے پولیس آ فیسر سے کہا
” وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن میڈیا کو کیا کہا جائے۔ وہ تو اپنی تھیوری بنا کر اس کے شواہد بھی جاری کر چکا ہوگا۔“ پولیس آفیسر بالکل درست کہہ رہا تھا۔ اسے بھی تو کوئی ایسی بات چاہئے تھی ، جو وہ میڈیا سے کہہ سکتا۔
” آپ اسے ڈکیتی بتا دیں ، میرا بھی یہی بیان ہے کہ کچھ نامعلوم افراد ڈکیتی کے لئے آئے تھے، میرے سیکورٹی گارڈز نے انہیں مار بھگایا۔“
” اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔“ پولیس آ فیسر نے طارق نذیر سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ دونوں ہی سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔
پولیس آ فیسر کے جانے کے بعد طارق نذیر نے بتایا
” سر جی ، فیضان بٹ سے بہت ساری باتیں معلوم ہوئی ہیں۔
اس کا پورا ایک گروہ یہاں کام کر رہا ہے۔ ان کی طرف سے کافی دھمکیاں بھی آ رہی ہیں۔ اس گھر کے بارے میں کب ، کسے اورکیا معلوم تھا ، میں کچھ نہیں کہہ سکتا ابھی، لیکن بہت جلد یہ پتہ چل جائے گا۔“
” اوکے، اب سنبھالو یہاں سب کچھ، ظاہر ہے میڈیا یہاں کے رہائشی کے بارے میں بھی کوئی بات کرے گا، اس لئے میں نکل رہا ہوں۔“ میں نے کہا تو وہ اس نے تیزی سے کہا
” سر یہی بات میں آپ سے کہنے والا تھا، میں سب دیکھ لیتا ہوں۔
آپ کے لئے سیف ہاؤس…“
” وہ ہے میرے پاس ۔“ میں نے کہا اور جنید کو اشارہ کیا۔ وہ اکبر کے ساتھ گاڑی میں جا بیٹھا اور ہم وہاں سے نکل کر ماڈل ٹاؤن کی جانب چل پڑے۔
مین روڈ پر آتے ہی اکبر نے پوچھا
” سر یہ کس کا کام ہے ، کچھ پتہ چلا؟“
” نہیں ابھی نہیں، لیکن بہت جلد پتہ چل جائے گا ۔ ‘ ‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا تو ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی۔
مجھے یقین تھا کہ وہ بھی یہی سوچ رہے تھے۔ وہ بھی میری طرح جلد از جلد ان تک پہنچ جانا چاہتے ہوں گے۔ جہاں تک میرا خیال تھا، یہ فیضان بٹ کے لوگوں کاکام نہیں ہو سکتا تھا۔ یہاں پر میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے کرنل صاحب نے اپنے لوگوں کی حفاظت کے لئے جو پلان کیا ہے ، مجھے اسے بدلنا پڑے۔
میرا ذہن تیزی سے سوچ رہا تھا۔ یہ محض فیضان بٹ کے لوگ نہیں ہوسکتے تھے۔
ان کے پیچھے لازماً کو ئی دوسری قوت ہے۔ وہ کوئی بھی ہوں،آخر انہوں نے یہاں کی ریکی کی ہوگی۔انہوں نے ہمارے آ نے جانے کا پورا شیڈول دیکھا ہوگا۔ اور پھر اسی وقت حملہ کی اجب یہ سارے لوگ یہاں آ چکے تھے۔ اگر وہ لوگ یہاں پورے پلان کے ساتھ حملہ کرسکتے ہیں تو ماڈل ٹاؤن والا گھر بھی ان کی نگاہ میں لازماً ہوگا۔ وہ قطعا ً محفوظ نہیں ہو سکتا تھا۔ابھی یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا کہ یہ سب کس نے کیا، ابھی تو اپنے لوگوں کی حفاظت کیسے کروں، مجھے یہ سوچنا تھا۔ انہیں ابھی ماڈل ٹاؤن نہیں جانا چاہئے۔ یہ خیال آ تے ہی میں نے فوراً سلمان کو فون کیا۔