”خبردار، کوئی ہلا تو ۔“ میں نے شیشے میں سے باہر دیکھتے ہوئے زور دار آواز میں کہا ۔
نوجوان نے اس وقت فائر کر دیا۔ یہ باہر والوں کے لیے الرٹ تھا۔ اس کے ساتھ ہی دائیں طرف سے ایک دم فائرنگ ہونے لگی۔ سیکورٹی والے اس طرف دیکھنے لگے تبھی اس نوجوان کے پیچھے کھڑے لڑکے نے ایک گن پر ہاتھ مارا اور گن قابو میں کرتے ہی ان پر تان لی ۔
”پیچھے ہٹ جاؤ ۔
“ اس نوجوان نے کہا۔
اسی لمحے گیٹ پر زور دار فائرنگ ہوئی ۔ مجھے معلوم تھا کہ بانیتا پیچھے نہیں رہنے والی۔ وہ کار میں پورچ تک آن پہنچی۔ تبھی پریم ناتھ نے گھگیائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟“
”میری بات مانو گے تو ماروں گا نہیں۔ تعاون کروگے تو کام آؤں گا، چلو ۔“ یہ کہہ کر میں نے اسے آگے بڑھایا تو سیکورٹی والوں نے گنیں تان لیں۔
(جاری ہے)
تبھی بانیتا ریوالور تان کر کھڑی ہو گئی۔
”پیچھے ہٹ کر گنیں پھینک دو ، اگر اپنی زندگی چاہتے ہو تو، پورا لشکر ہے ، کوئی زندہ نہیں بچے گا۔“ اس نے نفرت اور غصے میں کچھ یوں کہا کہ پریم ناتھ تیزی سے بولا۔
”کوئی فائر نہیں کرے گا۔“
میں اسے دکھیلتے ہوئے اندر کی جانب لے گیا۔
”تیرے پاس صرف تین منٹ ہیں، میرے دس ملین ڈالر دے دو، ایک بھی بلٹ نہیں چلاؤں گا اور چلا جاؤں گا ، دوسری صورت میں…“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”تم ؟“ اس نے شدت حیرت سے میری طرف یوں دیکھا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ تب میں نے سرد لہجے میں کہا۔
”وقت شروع ہو گیا ہے ۔“
اسی لمحے اندر سے ایک بندہ نمودار ہوا ، اس نے فائر کرنا چاہا، میں نے اس کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔
”مجھے اوپر کمرے تک جانا ہوگا ۔“
”آدھا منٹ گذر چکا ہے۔“ میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا تو وہی ادھیڑ عمر شخص جلدی سے اندر کی طرف گیا، ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ایک بریف کیس لے آ یا، اس نے جلدی سے کھول کر دکھایا، اس میں نوٹ تھے ۔
”کم ہوئے تو میں دوبارہ وصول لوں گا۔اب چلو، باہر تک ہمیں چھوڑ کے آؤ۔“ میں نے کہا تو وہ ایک دم سے ہچکچا گیا۔ اس ہچکچاہٹ میں خوف تھا۔
”تمہیں رقم مل گئی ، تم جاؤ۔“ اس نے کہا۔
”مگر مجھے تم سے کچھ باتیں بھی کرنی ہیں اور تجھے اپنی سیکورٹی کے لیے کچھ ٹپس بھی دینا چاہتا ہوں، اگر تم زندہ رہے، میرے ساتھ تعاون کرو گے تو…“ میں نے کہا تو فوراً بولا۔
”چلو۔“
میں اس کے ساتھ باہر کی جانب آیا تو باہر بہت سارے لوگوں نے ایک دوسرے پر گنیں تانی ہوئی تھیں ۔ ایک لمحے کے لیے وہ بھی ٹھٹک گیا ۔
”کتنا خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ دیکھ رہے ہو؟“
میرے یوں کہنے پر اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو اس کے باڈی گارڈوں نے گنیں جھکا دیں۔ ہم آگے بڑھے۔میں نے اُسے بانیتا والی کار میں بٹھایا اور کار چل پڑی۔
ہم جیسے ہی گیٹ کے باہر گئے۔ کاروں کا قافلہ آگے پیچھے ہو گیا۔مجھے معلوم تھا کہ اس کے بندے ہمارا پیچھا کریں گے۔اس لیے میں نے کہا۔
”میرا وعدہ ہے کہ میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ اپنے بندو ں کو ہٹ جانے کا کہو، ورنہ …“ میں نے سخت لہجے میں کہا ۔ اس نے فون نکالا اور انہیں رک جانے کا کہہ دیا۔ کافی دور نکل آنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔
”تم کس کے ماتحت کام کرتے ہو،نام بتاؤ اور جاؤ، تیرا کام ختم ، یہ بات ہمارے درمیان رہے گی ۔“
”رامیش پانڈے۔“ اس نے چند لمحے سوچنے کے بعد سکون سے کہا۔
”گاڑی روکو۔“ میں نے ڈرائیور سے کہا تو گاڑی رک گئی۔ میں اسے ٹٹول چکا تھا۔ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔”صرف ایک بات دھیان میں رکھو، موت کے منہ میں چھلانگ لگانا کوئی معمولی بات نہیں، لیکن اسی میں ہی سب سے کم خطرہ ہے، صرف حوصلہ چاہئے۔
ورنہ ہزار پلان دھرے رہ جاتے ہیں ۔ جاؤ۔“
میں نے اسے جانے دیا۔ ڈرائیور سمجھتا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ وہ نکل گیا۔ ایک کراس پر ہم نے گاڑی چھوڑ دی۔ میں اور بانیتا جانی بھائی والے لڑکوں کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں اب ان کے رحم و کرم پر تھا۔ وہ مجھے کہاں لے جاتے ۔وہ ہمیں جو ہو والے بنگلے کے آگے چھوڑ کر نکل گئے۔ اس سارے معاملے میں چار گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا تھا۔
میں نے بریف کیس جانی بھائی کے لڑکوں کو دے دیا تھا۔ ہم اندر گئے تو سبھی ڈرائینگ روم میں تھے۔ہمیں دیکھ کر ان کی سانس میں سانس آئی ۔
”یہ دیکھ ، قتل اور ڈکیتی کی واردت، یہی ہے نا وہ بندہ؟“ہماری بات سن کر سندو نے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جوش میں کہا۔
”ہاں یہی ہے ۔“ بانیتا نے کہا
”مان گئے استاد، یار تو اتنا حوصلہ کیسے کر لیتا ہے ؟“ سندو نے جوش بھرے لہجے میں حیرت سے پوچھا۔
”دیکھ ، موت کا ایک وقت مقررہے ، اسے جب ، جہاں اور جس وقت آنی ہے سو آنی ہے اور پھر جو انسانیت کا دشمن ہے، وہ قابل رحم نہیں۔ اس نے میرے ساتھ تعاون کیا، میں نے اسے چھوڑ دیا۔ میں اسے مار بھی سکتا تھا۔“ میں نے سکون سے کہا۔
”اب کیا کرنا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”یہ رونیت کور بتائے گی ۔“ میں رونیت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”مطلب ؟“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”مطلب ، رامیش پانڈے، اسے ٹریس کرو، پھر پلان کرتے ہیں۔“ میں نے کہا ہی تھا کہ جانی بھائی کا فون آ گیا
”بڑو تم تو استادوں کا استاد نکلا رے ، لڑکا لوگ تم سے امپریس ہو گیا یار۔“ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
”بس جانی بھائی ، کام تو پھر کام ہی ہوتا ہے نا۔“ میں نے بھی خوشگوار موڈ میں کہا
”ارے تیرا سٹائل ان لڑکالوگن نے ایسا بتایا، دل خوس ہو گیا رے ۔
پن یہ تو نے ڈالر کیوں بھیجا؟“
”یہ دیکھنے کو کہ اصلی ہے یا نقلی، اور پھر لڑکوں نے بھی محنت کی ہے نا۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہے تو اصلی، پن ابھی مارکیٹ میں لے جانے کا نہیں، میری بات سمزتا ہے نا، لڑکا لوگ کو میں نے خوس کر دیا، ڈونٹ وری ۔“ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
”اچھا کیا، یہ تیرا کام ہے جو مرضی کر ۔“
”یار ایسن کر ادھر میرے پاس آ جا ، بڑو اَکھّا ممبئی پر راج کریں گے۔
چل ففٹی ففٹی پر بات کر۔“ جانی بھائی نے بڑے موڈ میں کہا۔
”نہیں جانی بھائی ، میں کسی اور منزل کا راہی ہوں۔ تو بول ، تیرا کوئی کام ہے تو…“ میں نے کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ارے نائیں ، کوئی پلان ہو تو بتانا بڑو، چل رکھتا ہوں۔“ اس نے کہا تو میں نے بھی فون بند کر دیا۔
ہم ساری رات نہیں سوئے تھے۔رات کے دو بجے کے قریب جب رونیت نے بتایا
”اس وقت رامیش پانڈے گوا میں ہے اور وہاں پر اپنی فیملی کے ساتھ ہے ۔
سرکاری معلومات کے مطابق وہاں پر وہ چھٹی گزارنے گیا ہے۔ تین دن کا ٹور ہے، ایک دن ہو گیا ہے، ابھی دو دن باقی ہیں۔“
”تو پھر نکلتے ہیں۔“ سندو نے فیصلہ سنا دیا
”پہلے پوری معلومات لو، پھر نکلنا، وہ سڑک چھاپ یا گینگ چلانے والا غنڈہ نہیں ہے، سرکاری پروٹو کول کے ساتھ ہوگا۔“ ہر پال ہنستے ہوئے بولا۔
”پر وہ ہے تو انسان ہی نا ،یہاں ممبئی میں وہ زیادہ طاقتور ہوگا۔
“ سندو نے اپنی رائے دی تو رونیت بولی۔
”بات یہ نہیں کہ وہ کتنا طاقت ور ہے یا کمزور، بات صرف معلومات کی ہے۔ تم یہ کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ جس کے پاس زیادہ معلومات ہو گی وہ اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ وہ یہاں ہے یا وہاں ، ہمیں رستہ کہاں سے ملتا ہے ؟ “
”تو ٹھیک ہے نا، آج اور ابھی نکلتے ہیں گوا،اپنی گاڑیوں میں نکلیں گے تو دس گھنٹے کا راستہ ہے ، جہاز سے جاؤ گے تو ایک گھنٹے کا، وہاں جا کر لوکیشن دیکھتے ہیں، دو دن میں کچھ نہ کچھ تو معلومات ملیں گی۔ میرا ایک دوست ہے وہاں۔“
”ٹھیک ہے ،تو پھر نکلتے ہیں۔“ میں نے کہا۔
”ایک بات کہوں اگر برا نہ مانو تو؟“ سندو نے میری طرف دیکھ کر کہا تو سب نے اس کی طرف دیکھا
”بولو۔“ میں نے سکون سے کہا۔