Episode 14 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 14 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

”خبردار، کوئی ہلا تو ۔“ میں نے شیشے میں سے باہر دیکھتے ہوئے زور دار آواز میں کہا ۔ 
نوجوان نے اس وقت فائر کر دیا۔ یہ باہر والوں کے لیے الرٹ تھا۔ اس کے ساتھ ہی دائیں طرف سے ایک دم فائرنگ ہونے لگی۔ سیکورٹی والے اس طرف دیکھنے لگے تبھی اس نوجوان کے پیچھے کھڑے لڑکے نے ایک گن پر ہاتھ مارا اور گن قابو میں کرتے ہی ان پر تان لی ۔
”پیچھے ہٹ جاؤ ۔
“ اس نوجوان نے کہا۔
اسی لمحے گیٹ پر زور دار فائرنگ ہوئی ۔ مجھے معلوم تھا کہ بانیتا پیچھے نہیں رہنے والی۔ وہ کار میں پورچ تک آن پہنچی۔ تبھی پریم ناتھ نے گھگیائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ 
”کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟“
”میری بات مانو گے تو ماروں گا نہیں۔ تعاون کروگے تو کام آؤں گا، چلو ۔“ یہ کہہ کر میں نے اسے آگے بڑھایا تو سیکورٹی والوں نے گنیں تان لیں۔

(جاری ہے)

تبھی بانیتا ریوالور تان کر کھڑی ہو گئی۔
”پیچھے ہٹ کر گنیں پھینک دو ، اگر اپنی زندگی چاہتے ہو تو، پورا لشکر ہے ، کوئی زندہ نہیں بچے گا۔“ اس نے نفرت اور غصے میں کچھ یوں کہا کہ پریم ناتھ تیزی سے بولا۔
”کوئی فائر نہیں کرے گا۔“
میں اسے دکھیلتے ہوئے اندر کی جانب لے گیا۔
”تیرے پاس صرف تین منٹ ہیں، میرے دس ملین ڈالر دے دو، ایک بھی بلٹ نہیں چلاؤں گا اور چلا جاؤں گا ، دوسری صورت میں…“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”تم ؟“ اس نے شدت حیرت سے میری طرف یوں دیکھا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ تب میں نے سرد لہجے میں کہا۔
”وقت شروع ہو گیا ہے ۔“
اسی لمحے اندر سے ایک بندہ نمودار ہوا ، اس نے فائر کرنا چاہا، میں نے اس کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔
”مجھے اوپر کمرے تک جانا ہوگا ۔“
”آدھا منٹ گذر چکا ہے۔“ میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا تو وہی ادھیڑ عمر شخص جلدی سے اندر کی طرف گیا، ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ایک بریف کیس لے آ یا، اس نے جلدی سے کھول کر دکھایا، اس میں نوٹ تھے ۔
 
”کم ہوئے تو میں دوبارہ وصول لوں گا۔اب چلو، باہر تک ہمیں چھوڑ کے آؤ۔“ میں نے کہا تو وہ ایک دم سے ہچکچا گیا۔ اس ہچکچاہٹ میں خوف تھا۔ 
”تمہیں رقم مل گئی ، تم جاؤ۔“ اس نے کہا۔
”مگر مجھے تم سے کچھ باتیں بھی کرنی ہیں اور تجھے اپنی سیکورٹی کے لیے کچھ ٹپس بھی دینا چاہتا ہوں، اگر تم زندہ رہے، میرے ساتھ تعاون کرو گے تو…“ میں نے کہا تو فوراً بولا۔
”چلو۔“
میں اس کے ساتھ باہر کی جانب آیا تو باہر بہت سارے لوگوں نے ایک دوسرے پر گنیں تانی ہوئی تھیں ۔ ایک لمحے کے لیے وہ بھی ٹھٹک گیا ۔
”کتنا خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ دیکھ رہے ہو؟“
میرے یوں کہنے پر اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو اس کے باڈی گارڈوں نے گنیں جھکا دیں۔ ہم آگے بڑھے۔میں نے اُسے بانیتا والی کار میں بٹھایا اور کار چل پڑی۔
ہم جیسے ہی گیٹ کے باہر گئے۔ کاروں کا قافلہ آگے پیچھے ہو گیا۔مجھے معلوم تھا کہ اس کے بندے ہمارا پیچھا کریں گے۔اس لیے میں نے کہا۔
”میرا وعدہ ہے کہ میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ اپنے بندو ں کو ہٹ جانے کا کہو، ورنہ …“ میں نے سخت لہجے میں کہا ۔ اس نے فون نکالا اور انہیں رک جانے کا کہہ دیا۔ کافی دور نکل آنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔
”تم کس کے ماتحت کام کرتے ہو،نام بتاؤ اور جاؤ، تیرا کام ختم ، یہ بات ہمارے درمیان رہے گی ۔“ 
”رامیش پانڈے۔“ اس نے چند لمحے سوچنے کے بعد سکون سے کہا۔
”گاڑی روکو۔“ میں نے ڈرائیور سے کہا تو گاڑی رک گئی۔ میں اسے ٹٹول چکا تھا۔ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔”صرف ایک بات دھیان میں رکھو، موت کے منہ میں چھلانگ لگانا کوئی معمولی بات نہیں، لیکن اسی میں ہی سب سے کم خطرہ ہے، صرف حوصلہ چاہئے۔
ورنہ ہزار پلان دھرے رہ جاتے ہیں ۔ جاؤ۔“
 میں نے اسے جانے دیا۔ ڈرائیور سمجھتا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ وہ نکل گیا۔ ایک کراس پر ہم نے گاڑی چھوڑ دی۔ میں اور بانیتا جانی بھائی والے لڑکوں کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں اب ان کے رحم و کرم پر تھا۔ وہ مجھے کہاں لے جاتے ۔وہ ہمیں جو ہو والے بنگلے کے آگے چھوڑ کر نکل گئے۔ اس سارے معاملے میں چار گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا تھا۔
میں نے بریف کیس جانی بھائی کے لڑکوں کو دے دیا تھا۔ ہم اندر گئے تو سبھی ڈرائینگ روم میں تھے۔ہمیں دیکھ کر ان کی سانس میں سانس آئی ۔ 
”یہ دیکھ ، قتل اور ڈکیتی کی واردت، یہی ہے نا وہ بندہ؟“ہماری بات سن کر سندو نے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جوش میں کہا۔
”ہاں یہی ہے ۔“ بانیتا نے کہا 
”مان گئے استاد، یار تو اتنا حوصلہ کیسے کر لیتا ہے ؟“ سندو نے جوش بھرے لہجے میں حیرت سے پوچھا۔
”دیکھ ، موت کا ایک وقت مقررہے ، اسے جب ، جہاں اور جس وقت آنی ہے سو آنی ہے اور پھر جو انسانیت کا دشمن ہے، وہ قابل رحم نہیں۔ اس نے میرے ساتھ تعاون کیا، میں نے اسے چھوڑ دیا۔ میں اسے مار بھی سکتا تھا۔“ میں نے سکون سے کہا۔ 
”اب کیا کرنا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”یہ رونیت کور بتائے گی ۔“ میں رونیت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”مطلب ؟“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
 
”مطلب ، رامیش پانڈے، اسے ٹریس کرو، پھر پلان کرتے ہیں۔“ میں نے کہا ہی تھا کہ جانی بھائی کا فون آ گیا
”بڑو تم تو استادوں کا استاد نکلا رے ، لڑکا لوگ تم سے امپریس ہو گیا یار۔“ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
”بس جانی بھائی ، کام تو پھر کام ہی ہوتا ہے نا۔“ میں نے بھی خوشگوار موڈ میں کہا
”ارے تیرا سٹائل ان لڑکالوگن نے ایسا بتایا، دل خوس ہو گیا رے ۔
پن یہ تو نے ڈالر کیوں بھیجا؟“
”یہ دیکھنے کو کہ اصلی ہے یا نقلی، اور پھر لڑکوں نے بھی محنت کی ہے نا۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہے تو اصلی، پن ابھی مارکیٹ میں لے جانے کا نہیں، میری بات سمزتا ہے نا، لڑکا لوگ کو میں نے خوس کر دیا، ڈونٹ وری ۔“ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
”اچھا کیا، یہ تیرا کام ہے جو مرضی کر ۔“
”یار ایسن کر ادھر میرے پاس آ جا ، بڑو اَکھّا ممبئی پر راج کریں گے۔
چل ففٹی ففٹی پر بات کر۔“ جانی بھائی نے بڑے موڈ میں کہا۔ 
”نہیں جانی بھائی ، میں کسی اور منزل کا راہی ہوں۔ تو بول ، تیرا کوئی کام ہے تو…“ میں نے کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ارے نائیں ، کوئی پلان ہو تو بتانا بڑو، چل رکھتا ہوں۔“ اس نے کہا تو میں نے بھی فون بند کر دیا۔
 ہم ساری رات نہیں سوئے تھے۔رات کے دو بجے کے قریب جب رونیت نے بتایا
”اس وقت رامیش پانڈے گوا میں ہے اور وہاں پر اپنی فیملی کے ساتھ ہے ۔
سرکاری معلومات کے مطابق وہاں پر وہ چھٹی گزارنے گیا ہے۔ تین دن کا ٹور ہے، ایک دن ہو گیا ہے، ابھی دو دن باقی ہیں۔“
”تو پھر نکلتے ہیں۔“ سندو نے فیصلہ سنا دیا
”پہلے پوری معلومات لو، پھر نکلنا، وہ سڑک چھاپ یا گینگ چلانے والا غنڈہ نہیں ہے، سرکاری پروٹو کول کے ساتھ ہوگا۔“ ہر پال ہنستے ہوئے بولا۔
”پر وہ ہے تو انسان ہی نا ،یہاں ممبئی میں وہ زیادہ طاقتور ہوگا۔
“ سندو نے اپنی رائے دی تو رونیت بولی۔
”بات یہ نہیں کہ وہ کتنا طاقت ور ہے یا کمزور، بات صرف معلومات کی ہے۔ تم یہ کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ جس کے پاس زیادہ معلومات ہو گی وہ اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ وہ یہاں ہے یا وہاں ، ہمیں رستہ کہاں سے ملتا ہے ؟ “
”تو ٹھیک ہے نا، آج اور ابھی نکلتے ہیں گوا،اپنی گاڑیوں میں نکلیں گے تو دس گھنٹے کا راستہ ہے ، جہاز سے جاؤ گے تو ایک گھنٹے کا، وہاں جا کر لوکیشن دیکھتے ہیں، دو دن میں کچھ نہ کچھ تو معلومات ملیں گی۔ میرا ایک دوست ہے وہاں۔“
”ٹھیک ہے ،تو پھر نکلتے ہیں۔“ میں نے کہا۔
”ایک بات کہوں اگر برا نہ مانو تو؟“ سندو نے میری طرف دیکھ کر کہا تو سب نے اس کی طرف دیکھا
”بولو۔“ میں نے سکون سے کہا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط