” کہاں ہو تم لوگ؟“
” ہمیں بھوک لگی تھی،میں توانہیں ایک ریستوران میں لے آ یا ہوں۔ کچھ کھا پی لیں تو پھر چلے جاتے ہیں۔“ اس نے خوشگوار انداز میں جواب دیا تو میرے حواسوں پر جو انجانا بوجھ تھا ، ایک دم سے ختم ہو کر رہ گیا۔میں نے ایک طویل سانس لی اور کہا
” بہت اچھا کیا۔ باقی کہاں ہیں؟ تیرے پاس ہی ہیں نا؟“
” بالکل ، میرے پاس ہیں۔
اور ڈٹ کر کھا رہے ہیں ۔ کیا آپ نے بھی وہی سوچا،جو ہم سب کا خیال تھا کہ ابھی فوراً ماڈل ٹاؤن نہیں جانا چاہئے؟“
” بالکل، تم ٹھیک سمجھے ہو۔ میں آ رہا ہوں، پھر کسی طرف نکلتے ہیں۔ لیکن باہر نظر ضرور رکھنا۔“ میں نے اسے سمجھایا تو وہ بولا
” اسکی فکر نہ کریں۔ مجھے پورا خیال ہے۔“
اس کی طرف سے اطمینان کرنے کے بعد میں نے فون بند کیا تھا کہ جنید نے پوچھا
” کون سی جگہ ہے آ پ کی نظر میں؟“
” ہے ، لیکن اس وقت فہیم اور بانیتا کور کے سوا باقی سب وہیں چلیں جائیں گے۔
(جاری ہے)
“
” کیا ہم بھی ؟“جنید نے پوچھا
” ہاں، تم دونوں بھی۔یہاں سارا سیٹ اپ ،ڈسٹرب ہو گیا ہے۔ اسے دوبارہ بناتے تھوڑا وقت لگے گا۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔“ میں نے اُسے سمجھایا تو انہوں نے سر ہلا دیا۔
اس وقت ہم نہر کنارے جا رہے تھے۔ جبکہ وہ سارے گلبرگ میں کہیں تھے۔ میں نے جنید کومسلم ٹاؤن کی طرف جانے والی سڑک پر چھوڑ دینے کو کہا ۔
انہوں نے مجھے اتار دیا۔ میں نے وہاں سے رکشہ لیا اور شاہ جمال کے سٹاپ پر رکشہ چھوڑ کر پیدل ہی چل پڑا۔
شاہ جمال کے علاقے میں بہت پہلے میں نے اپنے لئے سیف ہاؤس بنایا تھا۔ وہاں کافی دیر سے ایک فیملی رہ رہی تھی، جسے میں ہی افورڈ کرتا تھا۔ ایسے ہی کسی وقت کے لئے میں نے وہ جگہ بنا کر رکھی ہوئی تھی۔ میرا وہ دوست ایک سرکاری محکمے میں سیکشن آفیسر کی سطع کا ملاز م تھا۔
میں اکثر وہاں چلا جاتا اور رات رہ کر ، یا کبھی دن گذار کر چلا آتا تھا۔ وہاں میں یہی مشہور تھا کہ میں ان کا ایک رشتہ دار ہوں جو دوسرے شہر میں رہتا ہے اور وہیں کاروبار کرتا ہے۔ یہاں مال خریدنے آ تا ہے ۔ ایک دو دن رہ کر واپس چلا جاتا ہے۔ میں نے اسے فون کیا۔اس وقت وہ گھر سے دفتر کے لئے جانے کو تیار تھا۔ وہ میرے آ نے تک رک گیا۔میں اس کے پاس جا پہنچا تو وہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھ کر چلا گیا۔
اوپری منزل پر میرے لئے مخصوص کمرہ تھا۔ میں وہاں چلا گیا۔ ان کی ملازمہ میرے لئے چائے رکھ گئی۔
وہ سبھی گلبرگ کے ریستوران میں بیٹھے کھا پی رہے تھے۔میں نے ان کے لئے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ کہاں رہیں گے۔ایسا ہی ایک بزرگ جوڑا ایک معروف ٹاؤن میں رہتا تھا۔ ان کے ساتھ نورنگر سے آیا ہوا ایک جوڑا رہتا تھا ، جو ان کی خدمت پر مامور تھا۔ یہ وہاں جاتے تو ان کے پوتے پوتیاں ہی ظاہر ہوتے۔
میں نے انہیں ساری بات سمجھا دی اور وہاں جانے کے بارے میں کہہ دیا۔
دوپہر کے بعد میرا اروند سنگھ سے رابطہ ہوا۔ اس نے دسترس میں موجود تمام کمپیوٹر کھنگال مارے، اپنی طرف سے بہت سر کھپایا لیکن اسے کوئی ایسا بھی اشارہ نہیں ملا، جس سے ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ یہ کس کا کام ہے؟ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اس دوران میں نے ہر طرف رابطہ کیا۔
کرنل سرفراز کی بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ سب ہوا کیسے؟ باقی ہر طرف سے سب اچھا کی خبر آ ئی تھی۔ نور نگر میں بھی سکون تھا۔ اشفاق چوہدری کو ہم پر ہونے والے حملے کی خبر ہو چکی تھی۔ وہ وہاں متحرک ہو گیا تھا کہ کہیں یہاں سے تو کچھ نہیں ہوا؟
سورج ڈھل گیا لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا ، جیسے یہ راز اچانک ہی کھلنے والا ہے۔
میں نے سب کچھ ذہن سے جھٹکا اور نیچے آ گیا۔ میں تھوڑی دیر اپنے دوست کے پاس بیٹھا اور وہاں سے نکل پڑا۔
شاہ جمال کا علاقہ ، وہاں ایک بزرگ کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہیں ایک اونچی سی جگہ پر ان کا مزار ہے۔ اس کے ساتھ ایک بڑی ساری مسجد تھی۔ میں خود کو پر سکون کرنے کے لئے اس طرف بڑھ گیا۔ فاتحہ خوانی کے بعد جب میں واپسی کے لئے پلٹ رہا تھا کہ میری نگاہ ایک سفید پوش پر پڑی۔
سر پر سفید عمامہ، سفید لباس، ریش مبارک سفید ، یہاں تک کہ ان کی بھنویں بھی سفید ہو چکی تھیں۔ بھاری بھرکم وجود اور سرخ و سفیدچہرہ۔ وہ میری جانب بڑی پر شوق نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ میرا دل کیا کہ ان کے پاس جا کر بیٹھوں۔ میں نے جونہی ان کی جانب قدم بڑھائے، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ زیادہ ہوگئی۔ وہ سفید کپڑا بچھائے، مسجد سے ہٹ کر قبروں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
میں انکے پاس چلا گیا۔میں نے سلام کیاتو میرے سلام کا جواب دے کر بڑے پیار سے لیکن دھیمے لہجے میں بولے۔
” بیٹھو۔! چلو آج تم سے بھی ملاقات ہوگئی۔“
انکا اتنا ہی کہنا تھا کہ میں سمجھ گیا۔ ان سے ملاقات کوئی اتفاق نہیں ہے، منظر کچھ اور ہے اور پس منظر کوئی اور بنا رہا ہے ۔ تب میں نے بڑی عاجزی سے کہا
” جی ، یہ میری بھی خوش نصیبی ہوگی کہ میں نے آ پ کا دیدار کر لیا۔
“
” یہ تو بندے کی خوش نصیبی اسی وقت ہو جاتی ہے جب وہ رَبّ تعالی کے حضور آ جاتا ہے۔ باقی ساری رکاوٹیں تو عارضی ہیں، اس عارضی دنیا کی طرح۔ کیونکہ یہ دنیا ہے نا۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
” جی آپ نے بالکل درست فرمایا۔ میں چاہوں گا کہ آپ مجھے کوئی نصیحت کریں۔“ میں نے کہا تو وہ بولے
” ارے بھائی، میں جانتا ہوں کہ تم کیا ہواور تو کس منزل کا راہی ہے۔ تجھے کہاں سے کیا مل گیا۔ ہم تو بس پیام دینے والے ہیں۔ اگر چاہو تو لے لو۔“