”میں فہیم الحق ہوں لاہور کے نزدیک ایک گاؤں سے ہوں۔ آئی ٹی انجینئر ہوں۔میں نے تعلیم تو امریکہ میں حاصل کی ہے لیکن کام اپنے وطن میں کرنا چاہتا ہوں۔ مختلف سوفٹ وئیر بنانے اور ہیک کرنا مجھے آتا ہے۔ یہاں نہ آتا تو چین چلا گیا ہوتا۔ “
اس کے دائیں گال پر تل تھا او ر شاید مسکراتے رہنا اس کی عادت تھی۔کافی حدتک فربہ مائل، موٹے موٹے گالوں ، غلافی آنکھوں ، موٹے اور رسیلے لبوں والی اس لڑکی نے لب وا کئے۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”میں مہوش ہوں۔ ابھی حال ہی میں ملائیشیا سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ مائیکرواکنامکس میں بہت آگے تک جانا چاہتی ہوں۔پنجاب کے شہر ساہیوال سے میرا تعلق ہے۔“
اس کے ساتھ ہی ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔بہت زیادہ سفید اور سرخ رنگ کی۔انتہائی سرخ گال ،پتلے پتلے ہونٹ اور گہری سیاہ آنکھیں جبکہ اس کے بال بھورے مائل تھے۔
(جاری ہے)
اس نے سب کی طرف دیکھا اور کافی حد تک دھیمی آواز میں کہا۔
”زویا میرا نام ہے۔اسلام آبادسے تعلق رکھتی ہوں۔ تحقیق و ترقی اور انسانی وسائل میرا شعبہ ہے لیکن کمپیوٹر میرا شوق ہے۔ برطانیہ سے تعلیم لی ہے۔ اب یہیں رہنا ہے۔ بہت کچھ کرنا ہے۔“
خوبصورت اور اسٹائلیش ،اس کے لباس میں رنگوں کا امتزاج آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا۔چہرے پر سرخی، سفید رنگت۔
وہ بولی تو اس کی آ نکھیں زیادہ باتیں کر رہی تھیں۔
”میں گیت ہوں۔ فیشن ڈئیزانر، مگرمیڈیا میرا کام ہے۔ میں اتنی مذہبی نہیں ہوں سمجھ لیں کہ سیکولرہوں۔کراچی سے ہی تعلق ہے۔“
”میں جمال ہوں،پاکستان کے شہر بہاول پور سے تعلق ،مسلمان ہوں لیکن آپ سب جیسا پڑھا لکھا نہیں ہوں۔“میں نے اپنا تعارف کرایا تو کرنل سرفراز نے سب کی طرف دیکھا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔
” یہ جتنے بھی شعبے ہیں، ان کے علاوہ یہ سب تربیت یافتہ ہیں۔ پچھلے ایک برس سے یہ سب مختلف جگہوں پر وہی تربیت حاصل کر رہے ہیں،جو تم نے روہی میں حاصل کی ہے۔ابھی ایک ماہ سے یہ روہی میں تھے۔انہوں نے تمہارے بارے میں بہت کچھ جان لیا ہے۔ یہ پچھلے ایک ماہ سے تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ جو تم کرتے رہے ہو۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوگئے، ایسے میں ایک نوجوان اندر آ گیا۔
مجھے وہ جانا پہچانا لگا۔ اس پر کرنل نے کہا۔
”یہ ایک ماہی گیر کے روپ میں ہمارے ساتھ فیری میں آیا ہے۔سلمان صغیر نام ہے اس کا۔ہر طرح کے اسلحے اور بلیک مارکیٹ کی پوری معلومات اس پاس ہوتی ہیں، یہ مستونگ بلوچستان سے ہے۔“
سلمان نے سب کی طرف دیکھا اور خوشدلی سے سب کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
”ہم سب کے درمیان اگر کوئی مشترک چیز ہے تو وہ ہے پاکستان،جو ہمارا وطن ہے۔
پاکستان وجود میں آیا، یہ خوش قسمتی ہے ، لیکن اس کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ یہ ُان ہاتھوں میں آ گیاجو اس نظریاتی مملکت کے خلاف رہے اور فقط اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے پر پوری طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسے ایک فلاحی اسلامی ریاست بننا تھا۔ مگر ہوا کیا؟یہاں پر کسی نہ کسی صورت میں آ مریت مسلط رہی۔ وہ نظام جس کے لیے یہ پاکستان تخلیق ہوا تھا، اب تک خواب ہے۔
یہ سب اسی جاگیر داری نظام کی وجہ سے ہے،جوسفید انگریزوں کے بعد کالے انگریزوں کو منتقل ہوا۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس ملک کے سارے ثمرات چند خاندان سمیٹ کر لے جائیں اور انسانی تذلیل کا نظام اس کے عوام پر مسلط کر دیا جائے۔ سینتالیس سے لیکر اب تک حکمرانی کرنے والے جو ادارے ہیں، اسمبلیاں ہیں ، ان میں کتنے انہی خاندانوں سے ہیں اور کتنے عوام میں سے۔
اس ملک کی نام نہاد اشرافیہ ہی اس ملک کو کتوں کی مانند بھنبھوڑ رہی ہے۔ انہی کتوں کے باعث کئی گدھ اس ملک کو نوچنے کے لیے رال ٹپکا رہے ہیں ، اس کے ساتھ مل کر کئی چوہے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ دیمک زدہ سوچ والے بے غیرت سیاست دان مفاد پرستی کی انتہا کئے ہوئے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ وہی انگریز والا اصول کہ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو، اپنایا ہوا ہے۔
انہوں نے پاکستانی قوم کو لسانیت، مذہبی تفرقہ بازی ، صوبائی عصبیت اور اس طرح کے کئی خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ یہ دراصل ان کے بیرئیر ہیں، تاکہ عوام انہی میں الجھی رہے اور وہ مزے سے حکمرانی کریں۔ان سے نکلیں گے تو سوچیں گے لیکن ہم نے پاکستان کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ کیسے ہوگا ، یہ تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ مجھے تم لوگوں کو لیکچر دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
“
”کرنل! امریکیوں نے ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس ملٹی نیشنل کمپنی کو خود پر حکومت کرنے کی اجازت دے۔ سو اس وقت جمہوریت کا تماشہ یہ ہے کہ اپنے اوپر سرمایہ داروں یا پھر جاگیر داروں کو مسلط کر لیں۔ یہ جمہوریت اور اس کا تماشہ ہم سمجھتے ہیں۔ آپ ہمیں یہ بتائیں، ہمارے کام کرنے کی سمت کیا ہوگی؟“ سب سے پہلے جنید نے پوچھا۔
”اس وقت بیرونی طاقتیں پوری طرح پاکستان کو کمزور نہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ہندو کی سازش سے ہمارا ایک بازو کٹ گیالیکن ایٹمی طاقت سے زور حیدری ہمیں عطا ہو گیا۔ پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جس نے یہ قوت حاصل کی۔ جس دن اس طاقت کا اعلان کیا تھا، اسی دن سے امریکن اس کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ قوت ان سے چھین لی جائے اور وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم سے یہ طاقت چھین نہیں لی جاتی۔
شاید دنیا کو ابھی معلوم نہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ اگر بے غیرت اور نام نہاد اشرافیہ اس ملک کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اپنے مفادات کے لیے ملک سے کھیل رہے ہیں تو یہاں غیور اور غیرت مند لوگ بھی ہیں جو اپنے ملک کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ ہم نے ہر اس قوت سے لڑنا ہے ، اسے ختم کرنا ہے جو ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس ملک کے لیے وہ کچھ کرنا جو یہاں وہی نظام لے آئے جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔
تاکہ یہ وہی اسلامی فلاحی ریاست بن سکے ، جس کا نمونہ حضرت عمر نے ہمیں دیا ہواہے۔ہمارا نعرہ ہوگا۔ پاکستان کا مقصد کیا ، محمد رسول اللہ ﷺ۔“
”کرنل! میں سمجھ گیا کہ آ پ مجھے ممبئی سے یہاں کیوں لائے ہیں۔ ہمیں حکم دیں تاکہ ہم ابھی سے اس پر عمل کریں۔“ میں نے پورے جذب سے کہا۔
”نہیں۔ مجھے حکم نہیں دینا ، یہ سب تم لوگ خود طے کرو گے۔
آج اور ابھی سے یہ سب تمہارے ساتھی ہیں اور تم انہیں لیڈ کرو گے۔ تم لوگوں کا رابطہ روہی سے رہے گا۔ میں تم سب کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔“ کرنل سرفراز نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا اور اٹھ گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا، جب میں اس بھاری ذمہ داری کے لیے پوری جان سے لرز گیا۔ یہ لرزہ کسی خوف سے نہیں تھا ، بلکہ وہ سرخوشی تھی کہ میں بھی کسی مقصد کے لیے چن لیا گیا ہوں۔ میں نے سب کی طرف دیکھا، تو مسکرا دیا۔ انہوں ایک جاندار اور بااعتماد مسکراہٹ مجھے دی تو میں سرشار ہو گیا۔ مقصد واضح تھا۔
ؤ…ؤ…ؤ