Episode 74 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 74 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 اڑسٹھ گھنٹے گذر گئے تھے۔ برصغیر میں موجود لوگوں کی طرح ہم بھی اس واقعے کے ساتھ مسلسل جڑے رہے تھے ۔ پوری توجہ اسی دہشت گردی کی واردات پر تھی۔ اس سارے واقعے میں ایک سو چھاسٹھ سے زائد بے گناہ لوگ مارے گئے ،جبکہ ساڑھے تین سو کے قریب لوگ زحمی ہوگئے تھے۔ ان میں بائیس غیر ملکی مارے گئے۔ وہ بائیس غیر ملکی کون تھے؟ جگجیت بھر بھرے کی بلٹ پروف جیکٹ کہاں گئی؟ اسے کس نے اس طرف دھکیلا؟ کیا بھارتی انٹیلی جنس اور نیوی کی خفیہ اس قدر نالائق ثابت ہوئی کہ انہیں ان حملوں کا احساس تک نہیں ہوا ۔
دس بندے ان کے ملک میں آسانی سے داخل ہوگئے، کسی نے ان سے نہیں پوچھا؟ وہ اپنی نااہلی کے باعث لاعلم تھے یا ان کی ملی بھگت تھی؟ ابھی حملہ ہوا ہی تھا، تاج محل میں لوگ محصور تھے ، ہر طرف افراتفری تھی، کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے ، لیکن بھارتی میڈیا یہ بکنے لگا تھا کہ پاکستان کے کن کن شہروں پر حملہ کر دینا چاہئے۔

(جاری ہے)

اس دوران مجاہدین نامی نامعلوم تنظیم نے حملوں کی ذمہ داری بھی لے لی اور ای میل کے ذریعے یہ ذمہ داری قبول کی ؟ یہ ای میل کسے بھیجی گئی؟ وہی بندہ کیوں پکڑا گیا جس نے جگجیت بھر بھرے کو قتل کیا؟ وہ وہاں سے نکل کر کدھر جا رہے تھے؟ وہ زندہ گرفتار ہونے والا دہشت گرد تین بر س پہلے نیپال میں گرفتار کیا گیا تھا۔

وہی زندہ کیوں بچا جس نے بھر بھرے کو مارا؟ تاج محل کے باہر پولیس اور ”کچھ لوگ“ اس طرح لوگوں کی ”مدد“ کر رہے تھے جیسے وہ ہلاکتیں بڑھانا چاہتے ہیں اور سب سے اہم سوال کہ جگجیت بھر بھرے کو کاما ہسپتال کی طرف کس نے دھکیلا اور وائرلیس پر ایسا پیغام کیوں دیا گیا تھا۔ ایک ہی جگہ تین آ فیسر کس طرح جمع ہوگئے تھے ۔ کس نے انہیں وہاں جانے کا حکم دیا تھا۔
یہ اور ایسے سوالوں کا تسلسل تھا جس کی سمجھ اسے آ سکتی جسے ہند توا کی تنظیموں کے بارے میں ذرا سا بھی پتہ ہو۔ یہ بھارت کا گھٹیا اور فلاپ ڈرامہ تھا۔ اگر پاکستانی حکومت اسی وقت ہوش سے کام لیتی تو حملے کی پہلی رات ہی بھارت کے کپڑے اُتار کر اس کے میڈیا کے منہ پر دے مارتے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔
ان اڑسٹھ گھنٹوں کی کارروائی نے مجھے بہت کچھ سو چنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہر نئی سوچ کے ساتھ ایک ایسا سوال پیدا ہوتا کہ میں اپنے اندر سے ہل جاتا۔ جدید ٹیکنالوجی جہاں ہر راز کھول رہی ہے، وہاں درندگی کس تک بڑھتی چلی جا رہی ہے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔یہ سب کیوں؟ ایک سوچ ہی ہے نا،جسے نظریہ بنا لیا جاتاہے اور پھر اس کی آبیاری انسانی خون کے ساتھ کی جاتی ہے۔ کیا یہ انسانیت ہے یا شیطانیت؟ ہندو انتہا پسند جو مسلمانوں کو زندہ جلانے سے دریغ نہیں کرتے، ان کے لئے اپنوں کو مار دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
ان شدت پسند ہندوؤں کی حالت تو یہ تھی کے ان کے اخبار” سامنا “ کے اداریے میں یہ لکھا گیاکہ ہم نے بھر بھرے کے منہ پر تھوک دیا۔مجھے ان سے کوئی غرض نہیں تھی ، لیکن ان کا پاکستان کو میلی نگاہ سے دیکھنا ہر گز قبول نہیں تھا۔ ان میں کچھ انتہا پسند ہندو ایسے بھی تھے جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بھارتی فوج آج ہی پاکستان پر چڑھائی کر دے۔سیاسی بیانا کی مچھلی منڈی میں صرف پاکستان ہی کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا تھا۔
مجھے یہ ہر گز قبول نہیں تھا۔
میں اپنے کمرے میں پڑا سو چتا رہا ۔ پھر اس شام میں نے دو اہم فیصلے کر لئے۔ ایک یہ کہ پاکستانی سیاست میں ان لوگوں کا قلع قمع کرنا جو کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے وجود کو برداشت نہیں کرتے اور دوسرا زخم زخم پاکستان کی سیاسی نظام کو عوامی بنانا۔
 ڈنر کے بعد کراچی اور لاہور کے لوگ آن لائین ہو گئے۔ جس طرح پچھلے دو دنوں سے رات کے وقت بیٹھ کر ان حالیہ واقعات پر تبصرہ آرائی ہوتی تھی۔
میں نے ان سب کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”جمال تمہارے یہ فیصلے سر آنکھوں پر، یہ ہونے چاہئیں لیکن یہ ابھی فوری نوعیت کے نہیں ہیں۔ ہمیں ابھی اس طرف توجہ دینا ہو گی کہ اس وقت پاکستان کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان کا سد باب کیسے کیا جائے۔“ اکبر علی انٹیلی جنٹ نے اپنی رائے دی
”اگر ہم اس میں پڑگئے تو جو اک نیا جہان جمال بنانا چاہتا ہے ، وہ نہیں بنا پائیں گے۔
“ زویا ایک دم سے بولی
” مطلب دونوں کام ایک ساتھ کرنے ہوں گے۔“جنید نے دھیمے لہجے میں کہا
” ظاہر ہے ابتدا ایسے ہی ہو گی، یہ سیاست دانوں کی اتنی غلاظت ہے کہ اسے سمیٹتے سمیٹتے عمر گذر جائے گی۔“ علی نواز نے اپنی بھڑاس نکالی
” تو ڈن ہو گیا۔“ اکبر علی نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا
” کیا؟“ میں نے پوچھا
 وہ لوگ جو ہمارے نئے جہان میں رکاوٹ ہوں گے، انہیں دور کر یں گے اور بس۔
“ اس نے وضاحت کی
” اس کے لئے طاقت چاہئے ، دولت کی ہمارے پاس کمی نہیں، افرادی قوت اکھٹا کر رہے ہیں۔ اسلحہ جتنا چاہیں مل سکتا ہے ۔“ اکبر نے جذباتی لہجے میں کہا
” چلو یہیں سے شروعات کرتے ہیں۔“ میں نے کہا تو ہمارے درمیان بحث چھڑ گئی۔ ہم نے طے کر لیا کہ کس نے کیا کر نا ہے ۔ کل کی شام سے ہم اپنا کام شروع کر دیں گے۔ کسی انتظار کی ضرروت نہیں۔
 
                                #…#…#
” ہمارا مسئلہ وہی ہے جو غلام کا ہوتا ہے ۔ ہم آ زاد ملک میں آزاد شہری ہوتے ہوئے بھی غلا م ہیں۔ ایک سکھ اس ملک میں دہشت گرد اور ملک دشمن ہی سمجھا جا تا ہے ، کیوں ، ایسا کیوں ہو رہا ہے ، اس کی وجہ صرف اور صرف وہ ہندو ذہنیت ہے جو اپنے سوا کسی کو برداشت ہی نہیں کر پا رہی ہے۔ اور ہمارے گرو مہاراج ، سچے بادشاہ نے جو ہمیں سبق دیاہے وہ یہی ہے کہ سچا سکھ مر تو سکتا ہے لیکن غلام نہیں ہو سکتا۔
بانیوں میں یہی لکھا ہے، ہم جد وجہد کر یں گے ۔“ جسپال نے پورے جوش سے کہا اور سب کی طرف دیکھا۔ اس کے سامنے رونیت، بانیتا، گرلین اور اروند بیٹھے ہوئے تھے۔ 
 ” ہم نے اپنی زندگی اپنے دھر م کے نام لگا دی ہے جسپال ، یہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔“ رونیت نے گرلین کی طرف دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
” اروند۔! اگر تم یہاں رہو یا کینیڈا، تمہارے لئے ایک ہی بات ہے۔
اگر میں تم تینوں کو وہاں بھیج دوں تو کیا تم محفوظ نہیں ہو جاؤ گے اور ہماری مدد…“
” میں سمجھ گیا ہوں تم کیا کہنا چاہ رہے ہو۔ ہم وہاں زیادہ محفوظ ہوں گے اور زیادہ کام آ سکیں گے۔“ اس نے تیزی سے کہا
” تو پھر تیاری کرو۔ یہ بانیتا کی ذمہ داری ہے کہ تمہارے جانے کا بندو بست کردے۔ وہاں تم میرے پاس ہی ہوگے۔ بانیتا اور میں یہاں اپنی طاقت بنائیں گے، جو جیسی بھی بنی۔
“ جسپال نے کہا
” ہو گیا سمجھو، ابھی امرتسر کے لئے نکلو۔“ بانیتا نے ساری بات سمجھتے ہوئے کہا اور اٹھ گئی۔
آدھی رات سے کچھ زیادہ ہی وقت ہو گیا تھا جب جسپال انہیں امرتسر کی جانب روانہ کرکے خود اُوگی کی طرف چل پڑا۔ اس نے ہر پریت کو فون کر دیا تھا کہ وہ آ رہا ہے ۔ وہ اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے پورچ میں گاڑی کھڑی کی، ہر پریت نے دروازہ کھول دیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو کو یوں دیکھتے رہے جیسے صدیوں بعد ایک دوسرے کو دیکھا ہو ۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط