اس ضمن میں ایک لطیفہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان سلطان کے دربار میں شعراء کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک روز حاضر ہو کر اپنا کلام سنائیں۔ چوبداروں نے شاعروں کو ان کے گھروں سے جمع کیا اور ایک جلوس کی صورت میں ان کو ہمراہ لے کر قصر شاہی کی طرف چلے۔ بعض آوارگان بازار بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لئے کہ اس طرح قصر شاہی میں داخل ہونے اور دربار میں حاضری کا موقع مل جائے گا۔
ان کا یہ حیلہ کامیاب ہو گیا،دربار میں شعراء کی صف کے پیچھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے ان کو بھی شاعر سمجھا۔ جب شعرأ اپنا کلام سنا چکے تو اس پچھلی صف والوں کو حکم ہوا کہ تم بھی اپنا کلام سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ہم شاعر نہیں ہیں۔ اس پر بادشاہ کو نہایت غصہ آیا اور پوچھا کہ تم یہاں کس حیثیت سے داخل ہوئے۔
(جاری ہے)
ان میں سے ایک ظریف نے جواب دیا ”ہم غاوون یعنی گمراہ لوگ ہیں اور شاعروں کے پیچھے پیچھے چلے آئے ہیں۔
“ اس پر دربار میں خوب قہقہہ لگا بادشاہ کا غصہ فرو ہوا اور ان کو بھی کچھ انعام اکرام مل گیا۔
قرآن حکیم اگر شاعروں کے متعلق فقط اتنا ہی کہہ کر چھوڑ دیتا تو بات ادھوری رہ جاتی لیکن قرآن کی نظر زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے،اسی لئے عام شعراء کی سیرت کا یہ نقشہ کھینچنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ اس گروہ میں کچھ مستثنیات بھی ہیں،کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شاعر کا حساس قلب اور حسن بیان عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ ہر زہ گرو نہیں ہوتے،وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں اور ایک معین نظریہ حیات رکھتے ہیں اور اس ایمان کی بدولت ان سے اعمال صالحہ بھی سرزد ہوتے ہیں جو یقین محکم کا نتیجہ ہوتے ہیں،ان کے اقوال و افعال میں تفاوت نہیں ہوتا،ان کے بیان میں خلوص ہوتا ہے،وہ دروغ بیانی نہیں کرتے جذبات رذیلہ ان کی طبیعت میں نہیں ابھرتے اور نہ ہی وہ سامعین کی طبیعتوں میں ان کو اکسانا چاہتے ہیں۔
قرآن کے بیان کے مطابق ایسے شعرا کی تعداد نہایت قلیل ہو گی کیوں کہ اس سورة میں ایسوں کو بطور استثنا پیش کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریمﷺ اچھے شعر کے قدردان تھے بشرطیکہ اس سے اچھے افکار پیدا ہوں اور شریفانہ جذبات کی پرورش ہو۔ حضرت عمر فاروق، جیسا سراپا عدل و عمل شخص بھی اچھی شاعری کا قدردان تھا،وہ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو اچھے اشعار یاد کرایا کرو۔
امراء القیس کے متعلق رسول کریمﷺ کی تنقید کس قدر حکمت آموز ہے،اسے اشعر الشعراء کہنے کے ساتھ ”قائد ھم الی النار“ بھی کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ کامل فن ہونے کے باوجود ایک شاعر ایمان اور اعمال صالحہ سے معرا ہو سکتا ہے اور اپنے کمال سے یہ کام لے سکتا ہے کہ جذبات رذیلہ کو ابھار کر لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائے۔ شعر کی حیثیت بھی علم کی سی ہے کہ علم ایک زبردست مگر بے طرف قوت ہے،علم کے غلط استعمال سے ایک عالم بدعمل اپنے آپ کو بھی تباہ کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی،لیکن علم کے صحیح استعمال سے انسانیت عروج حاصل کر سکتی ہے،
علم چون بر تن زنی مارے شود
علم چون بر جان زنی یارے شود
زندگی میں قوت کے جو اور سر چشمے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے۔
مال کی بھی یہی کیفیت ہے،زندگی بسر کرنے کیلئے مال کی بھی ایسے ہی ضرورت ہے جیسے کشتی چلانے کیلئے پانی لازم ہے،لیکن مال اگر کشتی روح کے اندر جائے تو اس کو ڈبو دے گا:
مال را گر بہر دین باشی حمول
نعم مال صالح گفتا رسولﷺ
آب در کشتی بلاک کشتی است
زیر کشتی بہر کشتی پشتی است
مسلمانوں میں شعراء بے شمار گزرے ہیں لیکن ایسے شعراء کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکیں جو اس معیار پر پورے اتر سکیں جو قرآن نے اچھے شاعر کیلئے قائم کیا ہے۔
زیادہ تر شعراء ایسے ہی ہیں جنہوں نے اپنے کمال کو ہوس پروری اور ہوس انگیزی ہی میں صرف کیا۔ شعرائے ہند اور شعرائے عجم کے تمام تذکرے دیکھ جاؤ،ان میں رومی،سائی،عطار اور حالی جیسے شاعر خال خال نظر آئیں گے،باقی سب کا وہی حال ہے جو حالی نے مسدس میں لکھا ہے ”شعر و قصائد کا دفتر زیادہ تر ناپاک ہی ہے۔“
اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے۔ شاعری کو عام طور پر لطف طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمال حسنہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ بھی قسم ہے جو گرتوں کو ابھارتی ہے اور خستگان حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر نینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ: جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلیٰ درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہئے۔
اقبال کے افکار و تاثرات کی گوناگونی اور بوقلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدت نظر رکھتے ہیں۔ اس ثروت افکار کو ضبط میں لانے کا بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ اس کو خاص عنوانات کے تحت مرتب کیا جائے۔ بعض مضامین اقبال کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں،ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ الگ باب قائم کرنا پڑے گا۔
مثلاً عشق کا موضوع اگرچہ حکما اور صوفیہ کے ہاں بکثرت ملتا ہے لیکن اقبال نے اس میں جو نکات پیدا کئے ہیں وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتے۔ اسی طرح توقیر نفس اور عرفان نفس کا مضمون اگرچہ قدیم ہے لیکن اقبال نے خودی کا فلسفہ اس زور شور سے پیش کیا ہے اور اتنے پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی ہے کہ وہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے۔
اسلام کے متعلق بھی اس کا جو زایہ نگاہ ہے وہ صوفی و ملا و حکیم سب سے الگ ہے۔
قومی شاعری کی ابتدا اگرچہ حالی نے کی لیکن اقبال جس طرح قومی مسائل سے دست و گریبان ہوا ہے اس کی مثال بھی کہیں اور بھی نہیں ملتی۔ حدی خوانی حالی نے شروع کی لیکن محمل کو گراں دیکھ کر اقبال نے اس حدی حوانی کو تیز اور وجد آور بنا دیا۔
اقبال شرق و غرب کے بہترین اور بلند ترین افکار کا وارث ہے۔ اقبال نے اس ورثے کو صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس میں گراں بہا اور قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے،وہ صحیح معنوں میں آزادانہ اور محققانہ نظر رکھتا ہے،اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتا،ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اس لئے کلیتاً کسی حکیم یا صوفی یا فقیہ و مسفر سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔
کسی بڑے مفکر کا قلب مومن اور دماغ کافر معلوم ہوتا ہے تو اس کی داد دیتے ہوئے اس پر بصیرت افروز تنقید بھی کرتا ہے۔ آزادانہ تحقیق و تنقید کے شوق میں کہتا ہے کہ کوئی نبی بھی پرانی لکیروں کا فقیر رہ کر پیغمبر نہ ہو سکتا:
چہ خوش بودے اگر مرد نکوے
ز بند پاستاں آزاد رفتے
اگر تقلید بودے شیوہٴ خوب
پیمبر ہم رہ اجداد رفتے
اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ہوا نہ ہو سکا۔
اقبال پر جو کتابیں عالمانہ،نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں،ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کی ”روح اقبال“ اور مولانا عبد السلام صاحب ندوی کی کتاب ”اقبال کامل“ ان دو کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور اس کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو محتاج تشریح اور تشنہ تنقید باقی رہ گیا ہو لیکن اقبال کے افکار میں اتنی گہرائی،اتنی پرواز اور اتنی وسعت ہے کہ ان کتابوں کے جامع ہونے کے باوجود مزید تصنیف کیلئے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔
راقم الحروف نے بھی اقبال پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ بعض مخصوص مضامین پر مشتمل ہے۔ میں پہلے جو کچھ لکھ چکا ہوں اس کتاب میں اس سے قطع نظر کرنا ناممکن ہے اس لئے یا تو انہی کہی ہوئی باتوں کو دوسرے انداز میں کہنا پڑے گا یا لازماً کچھ اقتباسات دوران شرح میں درج کرنے ہوں گے۔ اقبال کے افکار کا احاطہ کرنا اور اس کے ہر خیال اور ہر تاثر کے مضمرات کو کماحقہ پیش کرنا کسی ایک مصنف کا کام نہیں اور نہ ہی کوئی ایک تصنیف اس کا حق ادا کر سکتی ہے۔
اقبال مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی شعور کا ایک جزو لاینفک بن گیا ہے۔ اقبال اگر انا الملت کا نعرہ لگاتا تو بجا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ اقبال بھی ابد قرار ہو گیا ہے،اگر اس کے افکار محدود اور ہنگامی ہوتے تو کچھ عرصے کے بعد زمانہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا،لیکن اقبال کے افکار اور اس کے وجدانات میں ایک لامتناہی صفت پائی جاتی ہے جو نہ صرف زمان و مکان بلکہ اس ملت کے حدود سے بھی وسیع تر ہے جس کا عروج و زوال اس کا خاص موضوع فکر اور جس کا درد اس کے دل و جگر کا سرمایہ تھا۔
مختلف ادوار میں اقبال کے فکر میں ارتقا کے مدارج کا مطالعہ زیادہ مشکلات پیش نہیں کرتا بانگ درا میں،جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا،انہوں نے خود اپنی نظموں کو زمانی لحاظ سے مرتب کیا ہے،بعد میں شائع کردہ مجموعوں کی طباعت کا زمانہ بھی یقینی طور پر معلوم ہے،چنانچہ ابتداء سے انتہا تک اقبال کے فکر کا ارتقا مطالعہ کرنے والے پر روشن ہو جاتا ہے اور اس زمانی ترتیب کی بدولت اقبال کی شاعری اور اس کے تفکر کا ارتقا بھی واضح ہو جاتا ہے۔