اقبال کے سامنے اُردو اور فارسی کی شاعری کے علاوہ انگریزی شاعری کے بہترین نمونے موجود تھے۔ انگریزی شاعری ایک آزاد قوم کی شاعری ہے،یہ قوم طرح طرح کے سیاسی انقلابات میں سے گزری اور اس کی تاریخ میں شروع سے آخر تک حریت کی جدوجہد نظر آتی ہے۔ اس میں اچھے اور برے،مطلق العنان اور پابند آئین و دستور ہر طرح کے بادشاہ اور حکمران گزرے ہیں لیکن اس قوم میں کبھی غلامانہ ذہنیت پیدا نہیں ہوئی،اگر کوئی بادشاہ دستور شکن اور مستبد معلوم ہوا تو اس کی گردن کاٹ دی گئی،کسی نے مذہبی استبداد کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی لوگ جہاد پر آمادہ ہو گئے۔
مسلمانوں کو اسلام نے یہ تعلیم دی تھی کہ حکومت علما و صلحا اور رموز شناس مملکت کے مشورے سے ہونی چاہئے لیکن طلوع اسلام کے چند سال بعد ہی وہ حکمت و حریت کے تمام سبق بھول گئے،اس کا جو نتیجہ ہوا وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے۔
(جاری ہے)
عربوں کی اپنی قومی اور طبعی شاعری میں بہت زیادہ تخیل اور مضمون آفرینی تو نہ تھی لیکن حقیقت اور خلوص تھا۔
عجم اسلام کا سیاسی طور پر تو مطیع و مسخر ہو گیا لیکن شاہ پرستی کی عجمی روایات نے اسلامی خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا،افراد مملکت مسلم ہوں یا غیر مسلم،حریت و مساوات سے بیگانہ ہو گئے۔ اس کا بہت برا اثر شاعری پر پڑا،عجم میں پہنچ کر پہلے عربی زبان میں قصیدہ گوئی شروع ہوئی اور اس کے بعد فارسی میں بادشاہوں اور امراء کی جھوٹی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے۔
شاعروں نے جب دیکھا کہ دروغ ہی سے فروغ ہوتا ہے تو دروغ بافی اور مبالغہ آرائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی،روحانیت اور اخلاقیات شاعری میں سے عنقا ہو گئے،فطری اور سچے جذبات کو خلوص سے بیان کرنے والا کوئی نہ رہا،رندی،شراب خوری اور ہوس پرستی شاعری کا موضوع بن گئی،رودگی سے لے کر قاآنی تک اس بدر روی میں ترقی ہوتی گئی۔ چند بلند پایہ،صالح الفکر اور صوفی شعراء کو چھوڑ کر باقی سب کا یہ حال ہے،ادب کی یہی مسخ شدہ صورت اُردو شاعروں کے سامنے مرد کی محبت کی جگہ امرد پرستی نے لے لی۔
اس لغو قسم کی مشق سخن میں زبان میں لطافت اور نکتہ آفرینی نے تو ترقی کی لیکن موضوع سخن زیادہ تر بیہودہ ہی رہا۔
تصوف جس کا حقیقی وظیفہ عرفان نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رہنمائی کرنا تھا،وہ بھی غیر اسلامی تخریبی عناصر کی بدولت جادہٴ صداقت سے ہٹ گیا۔ کچھ غلامانہ اور عیاشانہ زندگی نے اور کچھ تشکیک آفرین فلسفے نے ایمان و عمل کی بنیادیں متزلزل کر دیں،ہر قسم کے استبداد نے لوگوں میں اختیار کی بجائے جبر کے عقیدے کو استوار کر دیا،عوام کو یہ تلقین کی گئی کہ رموز مملکت فقط بادشاہ جانتے ہیں،گدائے گوشہ نشیں کو خواہ مخواہ اعتراض اور احتجاج نہیں کرا چاہئے کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے،مومن کا فرض ہے کہ وہ تن بہ تقدیر تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کرے،اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو سننے والا اس کی تائید میں یہ اقرار کرے کہ ہاں مجھے تارے نظر آ رہے ہیں۔
زاہد کا زہد اور عاصی کا عصیان،عابد کی عبادت اور فاسق کا فسق سب مشیت الٰہی ہے جس کے آگے دم مارنا مومن کا کام نہیں،زاہد کے زہد سے اور فاجر کے فجور سے عبادت و کائنات کے لامتناہی کارخانے میں کون سا فرق پڑتا ہے:
بیا کہ رونق این کارخانہ کم نشود
ز زہد ہمچو توئی، و ز فسق ہمچو منے
حافظ بخود نپوشید این خرقہ مے آلود
اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا
در کوے نیک نامی مارا گذر ندادند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
زندگی بھی کسی کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں:
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
اب جب کچھ سمجھ میں نہیں آ سکتا تو کیا کیا جائے سوا اس کے کہ گاؤ بجاؤ،پیو پلاؤ اور خوش رہو:
حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر ہو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
متصوفانہ افکار کے ساتھ ان تمام خیالات کی اس طرح آمیزش ہوئی کہ یہ تمام عقائد اور زوایائے نگاہ دین بن گئے۔
حقیقی فلسفہ، آزادی فکر سے حقیقت کی جستجو کا نام ہے اور یہ جستجو اس اذعان و یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا نے عقل اس لئے دی ہے کہ مشاہدے اور تفکر سے وجود حقیقی کی ذات اور صفات کو حتی الامکان معلوم کیا جائے اور پھر اس دریافت شدہ حکمت کے مطابق اعمال کو ڈھالا جائے۔ تصوف کا کام اس سے بھی زیادہ عمیق عرفان اور تزکیہ قلب تھا لیکن مسلمانوں کی شاعری،نہایت ادنیٰ سطح پر،فن برائے فن رہ گئی یا فن برائے زر اندوزی و جاہ طلبی۔
یہ جو کچھ کہا گیا ہے فارسی کی تمام شاعری پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا،آخر سعدی و رومی اور سنائی و عطار بھی شاعر ہیں،اعلیٰ درجے کی حکیمانہ باتیں بھی بعض شعراء میں منتشر طور پر ملتی ہیں،لیکن شاعری کے طوفان بے تمیزی میں،یہ گوہر کہیں نایاب اور کہیں کمیاب ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے عجمی شاعری سے فائدہ نہیں اٹھایا یا ساز عجم کے نغمے اس کے اشعار میں نہیں ہیں لیکن ساز کے ہم رنگ و ہم آہنگ ہونے کے باوجود اقبال کے ہاں نغموں کا موضوع اور تاثر بہت کچھ الگ ہو گیا۔
اقبال نے اُردو اور فارسی کی تمام شاعری کے طومار کو سامنے رکھ کر ”خذما صفا و دع ماکدر“ سے کام لیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اقبال کی شاعری کا رخ مغرب کے اثرات نے بدلا،اُردو اور فارسی میں مناظر فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر تھی،فارسی میں گلزار و کوہسار کے متعلق جو کچھ ملتا ہے وہ محاکات نہیں بلکہ تخیل ہے،ایران اچھی آب و ہوا اور باغ و بہار کا ملک ہے لیکن انگریزی شاعری کے مقابلے میں اس موضوع پر اس کا سرمایہ شعر عشر عشیر بھی نہیں،وطن اور قوم کی محبت کی شاعری بھی مفقود ہے،اس لئے کہ نہ کسی شاعر میں حب وطن تھی اور نہ جذبہ ملت۔
قدیم عربی شعراء میں قبیلوی عصبیت شدت سے موجود تھی اس لئے وہ جائز یا ناجائز طور پر اپنے قبیلے کے جذبات کو ابھار کر افراد قبیلہ کی ہمت افزائی کر سکتے ہیں اور ان کو عمل و ایثار اور جانبازی پر آمادہ کر سکتے تھے۔ یہ جذبہ انگریزی شاعری میں ملتا ہے۔
فارسی شاعری کو گل و بلبل کی شاعری کہا جاتا ہے لیکن ایرانی شعراء نے گل و بلبل کو فقط اپنی جھوٹی عاشقی کے بیان میں تمثیل و استعارہ کے طور پر استعمال کیا۔
پھولوں کی رنگینی اور پرندوں کی خوش نوائی سے جو اثر طبیعت پر ہوتا ہے اس کا بیان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ انگریزی شاعر حقیقت کو نمایاں کرنے کیلئے تخیل سے کام لیتا ہے،اس کے ہاں تخیل ایک پادر ہوا عنکبوت کا تانا بانا نہیں۔ اقبال کی ۱۹۰۵ء تک کی نظموں میں انگریزی شاعری کا اثر غالب ہے،کئی نظمیں انگریزی نظموں کا آزاد اور دلکش ترجمہ ہیں ۔
کئی نظمیں ایسی ہیں جو ترجمہ تو نہیں لیکن انداز تاثر و تفکر اور اسلوب بیان انگریزی ہے۔ ہمالیہ جیسا عظیم الشان سلسلہ کوہسار جس کے جلال و جمال کی مثال کرہ ارض میں اور کہیں نہیں ملتی،کیا وجہ ہے کہ اقبال سے پہلے کسی شاعر نے اس سے متاثر ہو کر ایک شعر بھی نہ کہا؟ اسی طرح بادل کے مضمون کو لیجئے،اُردو اور فارسی میں کوئی نظم ابر پر بحیثیت ابر نہیں ملتی،البتہ محرک شراب نوشی قرار دے کر بادلوں کے متعلق بہت سے اشعار ملتے ہیں:
بدلی آتی ہے بدل جاتی ہے نیت میری
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج
مکڑے اور مکھی اور پہاڑ اور گلہری پر اُردو اور فارسی روایات کا پابند شاعر،کاہے کو کوئی نظم لکھتا۔
مغربی شاعر کا سب سے اچھا اثر اقبال پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی اور بے حقیقت شاعری سے بچ گیا۔ کوئی اچھا انگریزی شاعر بغیر گہرے ذاتی تاثر کے محض صناعی اور اظہار کمال کیلئے نظم نہیں لکھتا۔
اقبال بھی ایسی فطرت کا شاعر ہے،اس نے کئی مرتبہ احباب سے بیان کیا کہ میں دوسروں کے تقاضے سے شعر نہیں کہہ سکتا اس لئے کبھی کبھی طویل مدت بغیر ایک شعر کہے ہوئے گزر جاتی ہے۔
میں تب تک شعر نہیں کہتا جب تک کوئی زبردست داخلی یا خارجی محرک میری طبیعت میں سے نغمہ یا نالہ پیدا نہ کرے۔ غالب کو بھی فطرت نے شاعر بنایا تھا لیکن وہ بہت کچھ غلط روایات شعری کا شکار ہو گیا،ایک خط میں کہتا ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ مضمون آفرینی ہے۔ایک دوسری جگہ اپنے متعلق کہتا ہے کہ ”نگویم اگر نغز نباشد“ لیکن اقبال کے ہاں شاعری نہ قافیہ پیمائی ہے اور نہ مضمون آفرینی اور نہ نغز گوئی ہے۔ اچھا شعر شاعر کی فطرت کے باطنی تقاضے سے پیدا ہوتا ہے،یہ تقاضا خود بخود قافیہ پیمائی بھی کرتا ہے اور مضمون آفرینی بھی اور جو شعر اس آمد سے نکلتا ہے وہ نغز بھی ہوتا ہے۔ مولانا روم اپنے متعلق فرماتے ہیں:
من نہ دائم فاعلات فاعلات
شعر مے گویم بہ از آب حیات