اسی فلسفے نے وحدت وجود کی صورت اختیار کر لی جو اکثر صوفیہ اور شعراے متصوفین کا ایک دلکش مضمون ہے۔ موجودات کے اندر ہستی جس درجے کی بھی ہے وہ نور الٰہی کی کم و بیش تنویر ہے:
مشکل حکایتے است کہ ہر ذرہ عین اوست
لیکن نمی تواں کہ اشارت بہ او کنند
#
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
یہی اشراقی اور فلاطینوسی فلسفہ کسی قدر تغیر کے ساتھ جلال الدین رومی کا فلسفہ ارتقا بن گیا ہے کہ تمام ارواح خدا سے صادر ہوئی ہیں اور ان کی جو ماہیت ہے وہ الٰہی ہے۔
اس لحاظ سے ارواح بھی غیر مخلوق اور قدیم ہیں۔ خدا سے لے کر جمادات تک موجودات کا ایک تدریجی نظام ہے۔ ہر روح خدا سے جدا ہو کر پہلے اسفل السافلین میں گرتی ہے لیکن اپنی اصل کی طرف رجعت کا میلان اس میں بدستور باقی رہتا ہے ”کل شی یرجع الی اصلہ“:
ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
تمام کائنات اس لئے مائل بہ ارتقا ہے کہ وہ خدا کی طرف عود کرنا چاہتی ہے۔
(جاری ہے)
اس تنزلاتی اور تدریجی نظام میں وہ جذبہ جو عالم کے اجزاء اور نظم عالم،غایت حیات و کائنات نہیں،ہر ذرے کا مقصود و صعود الی اللہ ہے۔ مادے سے خدا تک ایک نرد بان ہے اور جس ہستی کو بھی خدا کی طرف واپس جانا ہے اسے پایہ پایہ قدم بہ قدم ترقی کرنا ہے۔ مادہ آب و خاک میں جب ایک بیج ڈال دیا جاتا ہے تو اس کے گرد و پیش کا تمام مادہ،جو جامد و بے جان معلوم ہوتا تھا،نبات کی محبت میں اپنی ہستی کو فنا کرکے نخل کی صورت میں مبدل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح نبات کو حیوان کھا جاتے ہیں تو نبات حیوانیت کے عشق کی بدولت حیوان کی ترقی یافتہ صورت میں بدل جاتی ہے۔ نبات و حیوان دونوں کو انسان کھا جاتا ہے تو وہ انسان بن جاتے ہیں،اب انسان کو آئندہ کسی اعلیٰ تر روحانیت کی محبت میں ہستی کے اعلیٰ تر مدارج میں اپنے آپ کو ختم کرنا ہے۔ اسی طریقے سے عشق اعلیٰ تر اقدار حیات کا خلاق بن جاتا ہے اور عشق کی بدولت ہستی کا ہر ذرہ وسیع ترین اتحاد پیدا کرنے اور اوپر کی طرف ترقی کرنے پر مائل ہے۔
ارتقا کے متعلق مولانا روم کے اشعار مشہور ہیں:
از جمادی مردم و نامی شدم
وزنما مردم بہ حیواں سر زدم
مردم از حیوانی و آدم شدم
پس چہ ترسم کے ز مردن کم شدم
حملہٴ دیگر بمیرم از بشر
تا بر آرم از ملائک بال و پر
بار دیگر از ملک پراں شوم
آنچہ اندر وہم ناید آں شوم
آخر منزل خدا سے وصال کامل ہے جس پر وجود کا کوئی تصور قابل اطلاق نہیں،اس لئے صوفیہ نے اس کا نام عدم رکھ دیا ہے جس کے معنی اثبات کامل ہیں نہ کہ نفی ہستی:
پس عدم گردم عدم چوں ارغنوں
گویدم کانا الیہ راجعون
صوفیہ کے ہاں خدا کے پاس واپس لوٹنے کے عام ظاہری اور شرعی معنی نہیں بلکہ ذات الٰہی میں واصل اور یک رنگ و یک آہنگ ہونا ہے جو تمام جنتوں اور تمام اجروں سے افضل کیفیت اور ہر ہستی کی منزل مقصود ہے:
منزل ماکبریاست
اس نظریہ حیات کو مسلمانوں کے بہت سے حکما نے قبول کر لیا اور ”اخوان الصفا“ کے رسائل کے غیر معلوم مصنفین نے اس کو مسلمانوں میں عشام کر دیا۔
عشق کے اس فلسفیانہ نظریے کا لب لباب نہایت وضاحت کے ساتھ مثنوی مولانا روم کے مندرجہ ذیل اشعار میں ملتا ہے۔ ذرات کی ترکیب کے متعلق طبیعیات اور کیمیا کے نظریات اور اجرام فلکیہ کے باہمی تجاذب سے ان نتظامات کا قیام اور جماد سے انسان تک حیات و کائنات کا طریق ارتقا،سب کی توجیہ مولانا روم نے اسی نظریہ عشق سے کی ہے:
جملہ اجزاے جہاں زاں حکم پیش
جفت جفت و عاشقان جفت خویش
ہست ہر جزوے ز عالم جفت خواہ
راست ہمچو کہربا و برگ کاہ
آسماں گوید زمیں را مرحبا
با توام چوں آہن و آہن رہا
میل ہر جزوے بہ جزوے ہم نہد
ز اتحاد ہر دو تولیدے جہد
ہر یکے خواہاں دگر را ہمچو خویش
از پے تکمیل فعل و کار خویش
از پے تکمیل فعل و کار خویش
از پئے تکمیل فعل و کار خویش
دور گردوں را ز موج عشق داں
گر نبودے عشق بفسردے جہاں
کے جمادی محو گشتے در نبات
کے فداے روح گشتے نامیات
ہر یکے بر جا فسردے ہمچویخ
کے بدے پران و جویاں چوں ملخ
یہاں ایک شک کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔
مشرق و مغرب کے بہت سے محققین اور مورخین نے تمام تصوف اور اس کے نظری اور عملی اور جذباتی پہلوؤں کو اسلام میں خارج سے داخل شدہ چیز سمجھ لیا ہے،کوئی اس کو فلاطینوسی فلسفے سے اخذ کردہ قرار دیتا ہے اور کوئی بدھ مت اور ویدانت سے اس کا رشتہ جوڑتا ہے۔ اس خیال کو زیادہ تر مغرب کے مستشرقین نے عام کیا ہے اور اس سے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اسلام تو ایک خشک اور سطحی سی چیز تھی،اس میں فکر و تاثیر کی کوئی گہرائی نہ تھی۔
بالفاظ دیگر وہ ایک بے روح سا جسم تھا جس میں حکماء اسلام نے جو یونانی حکمت سے متاثر تھے اور صوفیہ نے جو غیر اسلامی حیات گریز نظریات کی عملی اورفکری تلقین کرتے تھے،حکمت اور روحانیت کو داخل کرکے ایک نیا مرکب بنا دیا جسے ہر ایک اکسیر حیات سمجھنے لگا۔ اس خیال نے ایک جزئی حقیقت کو کامل تحقیق بنا کر تصوف اور اسلام کے باہمی تعلق کی بابت گمراہ کن افکار کی ایک تعمیر کھڑی کر دی ہے۔
اس کا جواب ہم مختصراً پہلے دے چکے ہیں کہ عشق کا لفظ تو قرآن و حدیث میں مستعمل نہیں،کیوں کہ اس تصور کو بیان کرنے کیلئے عربی زبان میں اس دور تک اور الفاظ استعمال ہوتے تھے،لیکن اسلام کی بنیاد عشق خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہوسلم ہے۔ اسلام اس کائنات کو باطل فریب ادراک یا دیدانت کی طرح مایا نہیں سمجھتا،بلکہ اس خیال کو قرآن کئی جگہ دہراتا ہے کہ یہ کائنات حق ہے،باطل نہیں۔
”ربنا ما خلفت ھذا باطلا“ اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ہم نے اسے یوں ہی کھیل نہیں بنایا،یہ ایک نہایت معنی خیز اور سنجیدہ حقیقت ہے،جس کا مشاہدہ اور جس کے آئین،خلاق حیات و کائنات کی صفات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ قرآن حکمت کو خیر کثیر کہتا ہے اور حکمت اسی چیز کا نام ہے جسے سائنس اور فلسفہ اپنا مقصود سمجھتا ہے اور مذہبی انسان تزکیہ نفس کو اس کا وسیلہ سمجھتا ہے۔
ارتقاے حیات و کائنات کے اشاروں سے بھی قرآن خالی نہیں۔ وہ مادی کائنات کی ابتدائی حالت وہی بتاتا ہے جس پر آج کل کے طبیعی حکماء متفق ہیں کہ شروع میں اس کی دخان کی سی کیفیت تھی۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ ارض و سماوات پہلے ایک مخلوط سی چیز تھے،اس کے بعد اجرام فلکیہ اور ارض الگ الگ ہوئے اور پھر جہاں نباتی یا حیوانی زندگی پیدا ہوئی وہ پانی بننے کے بعد ہوتی
اولم یز الذین کفروا ان السموات و الارض کانتارتقا ففتقنھما و جعلنا من الماء کل شی ء حی افلا یومنون ۲۱:۳۰
کیا منکرین نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں کا ایک بھنڈا سا تھا۔
پھر ہم نے اس کو توڑ کر زمین و آسماں الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جان دار چیزیں بنائیں تو کیا یہ لوگ پھر بھی یقین نہ کریں گے؟
انسان کے ارتقا کی ابتدائی منازل کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ اس دہر میں،ابتدائی دور میں وہ ایسا بے حیثیت تھا کہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی اس کا اطلاق فرد پر بھی ہوتا ہے اور نوع پر بھی:
ھل انی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا
پھر عام انسانی نوع تک پہنچ کر بھی یہ ارتقا ختم نہیں ہوتا کیوں کہ قرآن کا نصب العینی آدم جو انسان کامل کا تصور ہے،مسجود ملائک ہے اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ ”تخلقو باخلاق اللہ“ کی منزلیں طے کرتا ہوا وہ ایسے صفات پیدا کرے جو حکمت و مشیت الٰہی سے ہم آہنگی کی بدولت اس کو الوہیت سے بہت قریب کر دیں۔
امریکہ میں راقم الحروف نے فلسفہ اسلام پر بہت سے لیکچر دیئے۔ ایک روز بوسٹن میں سیسل یونیورسٹی کا مشہور پروفیسر نارتھروپ،جس نے شرقی اور اسلامی نظریات حیات پر مبسوط کتابیں تصنیف کی ہیں،مجھ سے کچھ سوالات پوچھنے کیلئے ساٹھ میل کی مسافت طے کرکے آیا۔ وہ علامہ اقبال کی بالغ نظری کا بہت قائل تھا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ اقبال نے یہ خودی اور عشق کے نظریات قرآن میں کہاں سے اخذ کئے ہیں،کیوں کہ اقبال اس تعلیم کا ماخذ قرآن ہی بتاتا ہے۔
میں نے اس کو قرآن کا نظریہ آدم بڑی وضاحت سے بتایا اور پھر اس سے دریافت کیا کہ بتاؤ کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اسی نظریے کی شرح و تفسیر ہے یا نہیں۔ اس نے بے حد شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مدت سے ایک کانٹا میرے دل میں کھٹک رہا تھا،آج تم نے وہ کانٹا نکال دیا۔