اس جلالی جذبی کے سینکڑوں اشعار اقبال کے کلام میں ملتے ہیں اور یہ اس کے نظریہ حیات کی ایک امتیازی خصوصیت ہے،لیکن کون صاحب ذوق سلیم کہہ سکتا ہے اس کے نظریے اور پیرایہ بیان میں جمال نہیں۔ وہ بعض اوقات ایک ہی شعر میں جلال و جمال دونوں کی یکجا تلقین کرتا ہے۔ رزم حیات کیلئے سیل کہسار ہو جا،لیکن بزم میں جوے خیاباں کی طرح نرم رو ہو:
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
#
اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اس کے ہاں شہسوار کی صفت غارت گری اور چنگیز خانی نہیں۔
شہسوار کو ہمت وقوت کے ساتھ ساتھ خلق عظیم کا بھی مالک ہونا چاہئے جو ایک جمالی صفت ہے:
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقین
اس مضمون کے بے شمار اشعار آپ کو اقبال کے کلام میں ملیں گے جہاں وہ جمال و جلال کی ہم آہنگی کو زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے۔
(جاری ہے)
جلال اگر بے جمال ہو جائے تو اس میں ابلیس کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس طرح زیرکی اگر عشق سے معرا ہو جائے تو وہ شیطان کی حلیہ گری رہ جاتی ہے:
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ادبیات میں ذوق جمال زیادہ تر انفعالی ہو گیا تھا جس سے ایک ادنیٰ قسم کی لذت پیدا ہوتی ہے۔
اس کے خلاف ردعمل لازمی تھا تاکہ جلال اور ہستی فعال کے پہلو کو نمایاں کیا جائے۔ انحطاط کی وجہ سے قرآن میں بھی مسلمانوں کو تقدیر کا وہ مفہوم نظر آیا جس سے انسان کا اختیار اور اس کی جدوجہد نفس کا دھوکا بن جاتی ہے۔ یہ عقیدہ کہ زاہد کا زہد اور عاصی کا گناہ سب ازل سے مقدر ہے اور انسان کو تن بہ تقدیر عجز اختیار کرنا چاہئے۔ اشاعرہ کا علم الکلام،صوفیہ کی وحدت وجود،حکماء کی جبر پرستی سب انسان کو بے بس کرنے میں متحد ہو گئے۔
صوفیہ میں فقط عارف رومی نے اس کے خلاف جہاد کیا اور زمانہ حال میں اقبال نے مسلمانوں کو قرآنی تقدیر کا مفہوم بتایا۔ مسلمانوں کی ادبیات میں غلط نظریہ حیات کی بدولت عجز اور قناعت اور رضا و تسلیم کی تعلیم ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھنے کی تلقین بن گئی۔ اقبال اس قسم کے مذہب اور اس قسم کے ادب کو انحطاط کی پیداوار سمجھتا ہے:
اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
’تن بہ تقدیر‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
فن لطیف کا ایک شعبہ ڈراما بھی ہے جس کیلئے تھیڑ قائم کئے جاتے ہیں۔
ہر ڈرامے میں مختلف کردار ہوتے ہیں اور اداکار ان کرداروں کو اس طرح اپنی شخصیت میں سموتے ہیں کہ اگر شیطان کا پارٹ ادا کر رہے ہیں تو مجسم ابلیس نظر آئیں۔ اچھے صاحب کمال اداکار وہ شمار ہوتے ہیں جو نہایت کامیابی سے اپنی شخصیت کسی دوسرے کردار کی نقالی میں ہنگامی طور پر ختم کر دیں۔ اس کمال آفرینی کا رفتہ رفتہ یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اداکار اپنی خو کو کھو بیٹھتا ہے۔
اچھا ڈرامہ دیکھنے والوں کو نفسی اور اخلاقی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں،لیکن اداکار کی نفسیات خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مغرب میں بھی بعض نقادان فن نے اس تخریب کا اقرار کیا ہے:
حریم تیرا خودی غیر کی معاذاللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے!
رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات
مغربی تہذیب میں ڈرامے کا رواج بہت عام ہے۔
بعض ڈرامے اصلاح معاشرت کی خاطر لکھے جاتے ہیں،جیسے برناڈشا کے ڈرامے اور بعض محض تفریح و تفنن کیلئے۔ لیکن یہ عجب بات ہے کہ مغرب میں بھی کوئی سنجیدہ شخص اداکاروں کے اخلاق کا قائل نہیں بلکہ یہ ایک مسئلہ بن گیا ہے کہ اداکاری کے فن کو اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہالی وڈ کے ستاروں کی جو اخلاقی زندگی ہے وہ عوام و خاص کے نزدیک ایک مضحکہ خیز چیز ہے۔
ایک طرف تو اداکاروں کو یہ داد ملتی ہے کہ بے پایاں دولت ان کو اجرت میں دی جاتی ہے اور دوسری طرف یہ مشتہر ہوتا ہے کہ نکاح کے معاملے میں:
از یک بگستی بہ دگر پیوستی
فارسی شاعر نے تو یوں ہی تفریحاً کہا تھا کہ ہر موسم بہار میں ایک نئی شادی کیا کر،کیوں کہ پچھلے سال کا کیلنڈر بے کار ہو جاتا ہے:
زن نو کن اے مرد در ہر بہار
کہ تقویم پاریں نیاید بکار
لیکن امریکہ کے مشہور اداکار مرد و زن دوسری بہار کی آمد کا بھی انتظار نہیں کرتے۔
کیا اقبال کی تنقید غلط ہے کہ خودی میں جو سرور و سوز و ثبات حیات ہے وہ کاملا تمثیل میں ناپید ہو جاتا ہے؟ یہ درست ہے کہ ڈرامہ بعض اوقات اصلاح خلق کیلئے لکھا جاتا ہے،لیکن اس اصلاح کی تمثیلی تلقین کرنے والے اپنی زندگی میں کیا مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فن براے فن کے قائل کہتے ہیں کہ فن لطیف کا کام اصلاح کوشی نہیں ہے اور فن کاروں کو عام اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں۔
اقبال نے اہل ہنر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں بھی اچھے ہنر کو خودی کے احساس کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ ادبیات میں فکر و ذکر یا دین و دانش کی جو پیکار نظر آتی ہے وہ خودی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر خودی بیدار ہو تو فکر و ذکر میں کوئی تضاد نہ ہو۔ یہ چپقلش خودی کا غیاب پیدا کرتی ہے اور خودی کے حضور سے روح پرور شعر و سرود کا عالم پیدا ہوتا ہے،مگر یہ ہمارے غزل گووں کی شاعری اور ہمارے پیشہ ور مطربوں اور حسن فروشوں کا سرود نہیں:
تیری خودی کا غیاب معرکہ ذکر و فکر
تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود
#
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!
اقبال رومی کی طرح ”سماع راست“ کا دلدادہ ہے،لیکن ان معنوں میں سماع راست کہاں؟ روح انسانی کے جتنے بلند اقدار ہیں وہ پیشہ وروں کی بدولت اپنی روح کو کھو بیٹھتے ہیں۔
مذہب کو بھی انہیں لوگوں نے خراب کیا جنہوں نے اس کو پیشہ بنا لیا۔ اسلام تو کوئی مذہب پیشہ جماعت پیدا نہ کرنا چاہتا تھا جو برہمنوں کی طرح ملت اسلامیہ پر مسلط ہو جائے،لیکن اب پیشہ ور فقیہ اور ملا کہتے ہیں کہ مذہب کا علم ہمارا اجارہ ہے۔ اسی اجارہ داری نے ہمیشہ روحانیت اور اخلاق حسنہ کو فنا کیا ہے۔ فنون لطیفہ کی بھی یہی حالت ہے کہ پیشہ ور شاعروں نے شاعری کو ہوس پرستی کا سنڈاس اور دروغ بافی کا ایک طومار بنا دیا۔
موسیقی پیشہ بن کر میراثیوں اور ارباب نشاط کے حوالے ہو گئی۔ کرشن کی بانسری اور عارف رومی کی نے،مطرب و معنی کے ساز بن گئے۔ ایک صوفی نے کیا خوب کہا ہے کہ سڑک کے کنارے قرآن کی آیات پڑھ کر بھیک مانگنے والے گداگر کے دل میں اگر قرآن کا ایک حرف بھی اتر جائے تو وہ گداگری کی بجائے دنیا و مافیہا سے مستغنیٰ ہو جائے۔ اقبال کہتا ہے کہ مغنی بھی اگر دل کے رمز سمجھ جائے تو اس کا ہنر کمال کو پہنچ جائے:
جس روز دل کے رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہاے ہنر ہیں طے
آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے
اصل اس کی نوار کا دل ہے کہ چوب نے؟