Episode 37 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 37 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

نگاہیں نا امید نور ایمن اور بجلیاں آسودہ دامان خرمن ہو گئی ہیں،ملتوں کی آبرو اور ان کا اقتدار ان کی جمعیت کی بدولت ہوا ہے جس میں کوئی فرد اپنے تئیں محض ایک فرد نہیں بلکہ عضویہٴ نظام جماعت کا ایک عضو سمجھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں میں سے غائب ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے وہ رسوائے دہر ہیں:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
کبھی ہجوم یاس میں کہہ اٹھتا ہے:
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دوشینہ ہو سکتی نہیں
جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے اس ملت مرحومہ کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔
خدا ایک نصب العینی آدم کی تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ملت کی مٹی اس قابل نہیں معلوم ہوتی:
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
اس ملت کے ہاتھوں میں زور نہیں۔

(جاری ہے)

دل الحاد سے خوگر ہیں۔ نمازوں اور روزوں کی کچھ باطنی یا ظاہری صورت کچھ غریبوں میں نظر آتی ہے۔ دولت و اقتدار والوں کے ہاں یہ شعائر غائب ہیں۔ نئی تعلیم و تہذیب کے دلدادہ مذہب سے روگرداں ہیں۔

علم و فن کی یہ حالت ہے کہ
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
جیسے کفر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ”الکفرملتہ واحدة“ اسی طرح اسلام اور ملت اسلامیہ کے متعلق یہ بات صحیح ہونی چاہئے تھی کہ ”الاسلام ملتہ واحدة“ لیکن موجودہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ ذات پات اور قبائل و اقوام کی غیر اسلامی تقسیم و تفریق میں مسلمان مسلمان کا بھائی نہیں رہا۔
شعائر اغیار بھی وہی آنکھوں میں سمائے ہیں جن کے اختیار کرنے میں کوئی نفع نہیں بلکہ صریح گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ نئی پود کی نگاہ طرز سلف سے بیزار اور ان کے انداز حیات کو فرسودہ سمجھتی ہے۔ کسی کے قالب میں سوز اور روح میں احساس نظر نہیں آتا۔ زبان سے کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن پیغام محمد صلی اللہ علی وسلم کا کسی کو پاس نہیں۔ واعظ قوم جاہل اور خام خیال ہے،اس کے وعظ میں نہ حکمت کا ساز ہے اور نہ محبت کا سوز۔
موذن کی اذان میں روح بلالی نہیں،استدلالی بھول بھلیوں والے فلسفے نظر آتے ہیں،لیکن کوئی غزالی اب ملت میں سے نہیں ابھرتا۔ نہ حیدری فقر ہے اور نہ دولت عثمانی۔ جسے دیکھو وہ ذوق تن آسانی میں مست ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملت نے خود کشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ غیور و خود دار مسلمان نظر نہیں آتے۔ ذرا ذرا سے اختلاف پر شیشہ اخوت پاش پاش ہو جاتا ہے۔
قوموں کی توقعات اپنے نوجوانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس ملت کے نوجوانوں کا یہ حال ہے:
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
عہد نو کی بجلی تمام اقوام کہن پر گری ہے۔ تمام قدیم انداز و افکار حیات ایندھن کی طرح جل رہے ہیں۔
ملت اسلامیہ کے پیراہن میں بھی شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اس آتش نمرود کو ابراہیمی ایمان ہی گلشن بنا سکتا ہے،لیکن اس ملت میں تو وہ ایمان نظر نہیں آتا۔ اصلاح کے آرزو مند کہتے تھے کہ قوم جاہل ہے،جب اس میں تعلیم عام ہو جائے گی تو اس کی حالت درست ہو جائے گی،لیکن تعلیم نے بھی مرض میں اضافہ ہی کیا ہے:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ
ملت اسلامیہ میں اقبال کو نام کے مسلمانوں اور درحقیقت غیر مسلموں کا ایک بے مقصود ہجوم نظر آتا ہے:
خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں
جس سے تیرے حلقہٴ خاتم میں گردوں تھا اسیر
اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں
وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح
ہو گئی ہے اس سے اب ناآشنا تیری جبیں
دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں
تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے
ہے وہی باطل ترے کاشانہ دل میں مکیں
صائب کا ایک شعر ہے:
ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیابان جلوہ گر باشد
ندارد تنگ ناے دہر تاب حسن صحرائی
بانگ درا میں اس پر تضمین کرتے ہوئے اقبال نے اپنی ملت کے متعلق مایوسانہ اشعار کہے ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ تو ایسی ملت کو بیدار کرنے کیلئے کیا نوا گری کر رہا ہے جس میں کوئی احساس ہی باقی نہیں۔
اس کے جوان ہمت خواہ ہیں اور نہ اس کے پیر بیدار دل۔ اس محفل میں کوئی نشوونما کا تقاضا نہیں:
کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا
نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی
شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن
نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمین سے تخم سینائی
کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی
جہاں ہر شے جو محروم تقاضائے خود افزائی
قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستان کی
نہ ہے بیدار دل پیری نہ ہمت خواہ برنائی
دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں
نواگر کیلئے زہراب ہوتی ہے شکر خائی
نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستان سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط