Episode 16 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 16 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اس نظم میں کل تین بند ہیں اور شروع سے آخر تک تشبیہ و تمثیل اور تخیل کی معراج ہر بند میں نظر آتی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ حسینہ کون تھی اور نہ ہی معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عشق حسینہ کے حسن کی طرح ناپائیدار ہی ہوگا لیکن اس نے اس حساس اور باکمال شاعر کو متاثر کرکے جو اشعار لکھوائے ہیں،وہ عشقیہ شاعری میں ہمیشہ لطافت فکر و تاثر اور حسن کلام کا نمونہ پیش کرتے رہیں گے اور اقبال کے متعلق آئندہ نسلوں کو یہ یاد کراتے رہیں گے کہ یہ ”دل بکسے نہ باختہ“ کہنے والا شاعر کہیں کہیں عشق مجازی کا بھی شکار ہوا ہے۔
ایک جگہ اقبال نے اپنی نسبت کہا ہے:
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید
معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی عشق کے علاوہ انفرادی عشق کی ورزش بھی کبھی کبھی کی ہے،کسی کی گود میں بلی دیکھ کر جو کچھ کہا ہے وہ بھی اسی راز کا غماز ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اقبال کی طبیعت میں ہر جزو اور ہر فرد کے حسن و عشق کے ساتھ ہی حسن کلی اور عشق کلی کا جذبہ بھی ابھرتا ہے اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بغیر اقبال کے نزدیک بات پوری نہیں ہوتی،بات بلی سے شروع ہوتی ہے:

تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے
ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
لیکن آخری اشعار میں حسن و عشق کا احساس کائنات پر پھیل جاتا ہے:
کیا تجسس ہے تجھے؟ کس کی تمنائی ہے
آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں سامان مسرت کہں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے
کلی کی نظم میں بھی جو خورشید ہے وہ بھی کوئی مہ وش ہی ہے:
مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب
بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بیتاب
ترے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں
عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں
اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں
صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں
اقبال کی عاشقانہ نظموں کے متعلق یہ بات خاص طور پر ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ کسی محبوب پر اگر اس نے کوئی نظم لکھی ہے تو وہ حقیقی انسان تھا،اقبال کی شاعری کہیں بھی مصنوعی نہیں۔
اُردو اور فارسی کے دیوان ایسی غزلوں سے بھرے پڑے ہیں جو کسی مخصوص محبوب کے متعلق نہیں،زیادہ تر معشوق ایک فرضی معشوق ہوتا ہے اور اس فرضی بت کے متعلق تمام تاثرات اور تخیلات آوردسے پیدا کئے جاتے ہیں۔ ایسی شاعری شاعری نہیں بلکہ محض صناعی ہوتی ہے،جیسے خمریات میں ایسے لوگوں نے دیوانوں کے دیوان بھر دیئے جنہوں نے مے انگور کو کبھی منہ نہیں لگایا لیکن تخیل میں تمام عمر مے خواری میں اور میخانے ہی میں گزار دی۔

 ریاض کے خمریات کو دیکھئے کون شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس مرد خدا نے کبھی پی ہی نہیں لیکن اس کی زندگی سے واقف لوگ اس کی پارسائی کے شاہد ہیں۔ امیر مینائی کو دیکھئے تہجد گزار،ہر وقت تسبیح بدست،عابد و زاہد،ہوس رانی کے کیا کیا نقشے مزے لے لے کر کھینچتا ہے اور کتنی مضمون آفرینی کرتا ہے،ابتذال سے بھی اس کو گریز نہیں،شراب کے بارے میں بھی جھوم جھوم کر نکتے پیدا کرتا ہے:
انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں
جس دن سے کھچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے
لیکن فرضی معشوق کے مصنوعی عشق آورد اس کے بیان میں آورد کی شاعری سوز و گداز سے معرا ہوتی ہے اور جو بات دل سے نہیں نکلی وہ دلوں میں گھستی بھی نہیں۔
داغ اور امیر مینائی دونوں ہوس پرستی کے تغزل میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے لیکن امیر مینائی زاہد تھا اور داغ کو اس چیز سے حقیقی رابطہ بھی رہا تھا جس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرکے وہ لطف آفرینی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ امیر مینائی نے داغ کے سامنے ایک روزا قرار کیا کہ ہم نے غزل میں بہت زور مارا لیکن تمہارے تغزل والی بات نہ ہو سکی۔ اس کے جواب میں داغ نے کہا کہ بھائی جورو کے عاشق کی غزل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی تمہاری ہے۔

اقبال کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رندی اور شباب کے زمانے میں بھی وہ عاشقی کے معاملے میں ”کردے و گذشتے“ ہی تھا اور ”دل بکسے نہ باختہ“ میں اس نے اپنی نسبت صحیح بات کہی ہے۔ بقول غالب وہ اس معاملے میں مصری کی مکھی تھا،شہد کی مکھی نہ تھا،جس کے پاؤں اس میں دھس جائیں:
من بجا ماندم و رقیب بدر زد
نمہ لبش انگبین و نمہ طبر زد
یورپ میں لکھی ہوئی نظموں میں ایک نظم میں کھول کر اپنے عاشق ہرجائی ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس نظم کا عنوان ہی عاشق ہرجائی رکھا ہے:
ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامہ محفل بھی ہے تنہا بھی ہے
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کیلئے پھر 
عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
ہے حسینوں میں وفا ناآشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے
لے کر آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بیتیابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو
اس نظم کے دوسرے بند میں اس تلون اور بے وفائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
کہتا ہے کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ ایک تراشا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو میں نیا رنگ جھلکتا ہے،میرے دل میں گیتوں کا ایک محشر ہے،ہر کیفیت میں ایک نئے جلوے کی آرزو ہے،میں کسی ایک حسین کے عشق میں کیسے ہمیشہ گرفتار رہ سکتا ہوں،میرا پیمان وفا حسن سے ہے نہ کسی فرد حسین سے،میں حسینوں کے نظارے میں حسن کامل کو ڈھونڈتا ہوں:
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کی لئے پھرتی ہے اجزا میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لادوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط