مطلب یہ ہے کہ آزادی گفتار اور آزادی عمل اس سے پہلے چند افراد اور مخصوص طبقات کو حاصل تھی،اب آنے والے دور میں یہ امتیاز اٹھ جائے گا۔
اس سے قبل خدا کے عاشق بنوں میں مارے مارے پھرتے تھے،اب یہ لوگ انسانی جماعتوں میں رہ کرعشق سے کوئی تعمیری کام لیں گے اور عشاق اپنے لئے نئے میدان عمل ڈھونڈیں گے،حیات گریز تصوف ختم ہو جائے گا،اب صوفی جماعتوں کے اندر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے:
کبھی جو آوارہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اس کے بعد دو اشعار ملت اسلامیہ کے متعلق رجائی پیش کرتے ہیں کہ یہ شیر خفتہ بھی ہشیار ہو گا اور وہ اسی قوت کا مظاہرہ کرے گا جس نے کسی زمانے میں روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔
(جاری ہے)
دو اشعار میں تہذیب مغرب پر تنقید ہے اور اس کی تخریب کے متعلق وہ پیش گوئی ہے جو چند ہی سال بعد پوری ہو گئی،کہتا ہے کہ مغرب کی ملوکیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ تاجرانہ ملوکیت ہے،مغربی اقوام کمزور اقوام کو اس لئے مطبع و مغلوب کرتی ہیں کہ تجارت کے ذریعے سے ان سے ناجائز فائدے اٹھائے جائیں،غلاموں کو خام پیداوار کی افزائش میں لگایا جائے اور پھر اپنی صناعی سے اسے مصنوعات میں بدل کر من مانی قیمت پر پھر انہیں غلاموں کے ہاتھ فروخت کیا جائے،دونوں بڑی جنگیں دراصل تجارت کی منڈیوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں تھیں۔
اقبال کہتا ہے کہ ان مغربی اقوام نے خدا کی بستیوں کو خرید و فروخت کی دکانیں سمجھ لیا ہے،انسانی ہمدردی اور انسانیت کا وقار ان کے زاویہ نگاہ میں نہیں،ہر وقت اسی فکر میں ہیں کہ سستا خریدو اور مہنگا بیچو اور اگر چین ہماری افیون خرید کر مدہوش ہونے پر رضا مند نہ ہو تو اس کے خلاف جنگ کرکے زبردستی اس کے پاس افیون بیچو،پسماندہ اقوام کے پاس شراب بیچ کر ان کی قوتوں میں اضمحلال پیدا کرو۔
اقبال کہتا ہے کہ اب وہ دور قریب ہے کہ تمہارے یہ ہتھکنڈے کام نہیں آئیں گے،قومیں بیدار ہو کر احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور تم خود آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرو گے اس لئے کہ تمہاری تہذیب کی بنیاد ہی اس لوسٹ کھسوٹ پر ہے مگر اب یہ جاری نہ رہ سکے گی۔ دیکھئے کہ ان دو جنگوں کے بعد کتنی قومیں بیدار اور آزاد ہو گئیں اور انگریز کو ہندوستان کا وسیع ملک اس لئے چھوڑنا پڑا کہ اب غاصبانہ تجارت کا موقع نہیں رہا تھا کہ لنکا شائر کے کارخانوں کے مالکوں کے تقاضے سے ہندوستانی صنعت پارچہ بافی پر اتنا ٹیکس لگایا جائے کہ وہ انگریزوں کے مقابلے میں کم قیمت پر اپنا مال فروخت نہ کر سکیں۔
ایسی تجارت کے متعلق نطشے نے خوب کہا ہے کہ پہلے زمانے میں بحری ڈاکو تمام سمندروں میں اپنے جہاز لئے پھرتے تھے کہ جہاں بھی موقع ملے دوسروں کے جہازوں کا مال لوٹ لیں،زمانہ حال کی وسیع تجارتیں بھی حقیقت میں ڈاکا ہی ہیں لیکن اس کی صورت ایسی ہے کہ آسانی سے لوگوں کو اس غارت گری کا پتہ نہیں چلتا:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
جس زمانے میں اقبال نے یہ نظم لکھی ہے تمام عالم اسلامی،ایشیا کا معتدبہ حصہ اور پورا ہندوستان احساس کمتری میں مبتلا تھا۔
مغرب کے سیاسی علمی اور تہذیبی غلبے نے عام و خاص سب کی طبائع پر جادو کر رکھا تھا جس کا لب لباب اقبال نے ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے کہ ”سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری“۔ اس ہپنائزم کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام زندگی کو مغرب کی عینک سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا،اپنی خوبیاں بھی عیب معلوم ہوتی تھیں اور مغربیوں کے عیوب بھی خوشنما معلوم ہوتے تھے،بقول میر درد:
جو عیب ہے پردہ ہنر ہے
مٹھی بھر انگریز تھے جو اس برصغیر پر تھوڑی سی فوج اور شاید ایک ہزار سے کم سول سروس والوں کے بل بوتے پر حکومت کرتے تھے،شکاری کو صید افگنی میں کچھ خاص زحمت اٹھانی نہیں پڑتی تھی،صید خود گردن ڈالے،سر تسلیم خم کئے چلے آتے تھے۔
سکھوں کی حکومت کے زمانے میں نشہ اقتدار کے زور میں جب ایک سکھ دوسرے سے سر راہ ملتا تھا تو پوچھتا تھا کہ فوجیں کدھر سے آ رہی ہیں،گویا ہر ایک سکھ فرد اپنے آپ کو ایک لشکر کے برابر سمجھتا تھا،سکھوں کے ہاتھ سے حکومت کے نکل جانے کے بعد بھی یہ طرز کلام مدتوں تک باقی رہا۔
انگریزوں کا بھی ہندوستان میں یہ حال تھا،کوئی انگریز یوں کہتا تو نہیں تھا لیکن اپنے آپ کو سمجھتا یوں ہی تھا،مغلوبیت کی ساحری میں ہندوستانی انگریز کو اس سے بھی کہیں زیادہ سمجھتے تھے جتنا کہ وہ تھا یا وہ اپنے آپ کو تصور کرتا تھا۔
یہ ایک نفسیاتی بات ہے کہ بزدلوں کو مخالفوں کی تعدا ہمیشہ اصل سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے اور بہادروں کو دشمن اصل سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ اس شعر میں اقبال نے ایسی غلامانہ نگاہ کی کیفیت بیان کی ہے:
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کرکے ہمیں دکھایا
یہی رہی کیفیت جو تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا
پہلی جنگ عظیم سے قبل تک برٹش امپیریلزم بڑے زوروں پر تھی،انگریز صرف ہندوستان ہی کے مطلق العنان حاکم نہیں تھے بلکہ سیاست اور تجارت کے زور پر بالواسطہ یا بلاواسطہ نصف دنیا پر قابض تھے،انگریز کا رعب صرف ایشیا اور افریقہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پر بھی تھا،ہندوستان کے رئیسوں اور راجوں،نوابوں کی یہ حیثیت تھی کہ وہ اپنی نمائشی حکومتوں کے باوجود انگریزوں کے بے دام غلام تھے۔
جب دیسی حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عام دیسی عہدیداروں کی ذہنیت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
یہاں مجھے حضرت اقبال کا بیان کردہ ایک لطیفہ یاد آ گیا جس سے بہت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عہدیداروں اور رئیسوں کی کیا نفسیات تھی۔ لاہور کا ایک قدم امیر خاندان ہے جنہوں نے فقیر کا لقب اختیار کر رکھا ہے۔ اس خاندان کے ایک فرد فقیر افتخار الدین حکومت میں بڑے عہدوں پر سرفراز تھے اور اقبال کے دوست تھے۔
اس زمانے میں تار کے دو پہیوں والی ایک انگریزی گاڑی کا رواج تھا جسے گگ کہتے تھے۔ گگ کا مالک خواہ رئیس و امیر ہی کیوں نہ ہو،اسے خود چلاتا تھا اور نوکر خاموشی سے عقب میں بیٹھتا تھا۔ اقبال کے پاس بھی برسوں تک گگ تھی جسے وہ حسب دستور چلاتے تھے مگر ایک روز فقیر صاحب اقبال کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے اپنی گگ میں انہیں مال روڈ کی سیر کرا رہے تھے،سامنے سے ایک انگریز اپنی گگ زور و شور سے چلاتا ہوا آ رہا تھا،حالانکہ فقیر صاحب کی سواری بائیں ہاتھ قاعدے سے نصف سڑک پر چل رہی تھی لیکن وہ انگریز سیدھا ان کی طرف بڑھا،حسب قاعدہ اسے بھی بائیں ہاتھ پر گاڑی چلانی چاہئے تھی لیکن غرور میں وہ سیدھا ان کی طرف لپکا کہ دیسی آدمیوں کو اپنی گاڑی سامنے سے ہٹانی چاہئے،ہم انگریز ہیں ادھر ادھر ہونا ہمارے لئے ہتک ہے۔
اگر فقیر افتخار الدین گھبراہٹ میں جلدی سے اور بائیں طرف گگ کو نہ ہٹاتے تو ٹکر کا اندیشہ تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز کی گگ تو سیدھی نکل گئی لیکن فقیر صاحب کی گگ کا پہیہ پیدل پٹری پر چڑھ گیا،خیر بعد میں بہت جلد پھر گگ سڑک پر آ گئی۔
اقبال فرماتے تھے کہ میں نے فقیر صاحب سے کہا کہ تم ٹھیک قاعدے سے جا رہے تھے،نصف سڑک تمہارا حق تھا،تم نے کیوں گھبرا کر اپنا حق چھوڑ دیا،اگر ٹکر ہوتی تو انگریز کا قصور تھا۔
اس پر فقیر صاحب نے فرمایا کہ بھائی! تمام ملک ان کو دے کر ہم خاموش ہو گئے اور صبر کر لیا،اب کیا اس سے آدھی سڑک پر جھگڑا کرتا۔ اس دور میں آزاد کہلانے والے رئیسوں کا یہ حال تھا،یہ شعر اسی ذہنیت کا آئینہ ہے۔
کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل
ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا
غدر کے بعد تو مسلمان بہت ہی خوف زدہ اور دبکے ہوئے تھے۔
سر سیّد کی فطرت میں حریت کے غیر معمولی جوہر تھے اور اس وقت کی حکومت کے مقابلے میں تعاون کی ضرورت کو محسوس کرنے کے باوجود انہوں نے حق کوشی اور حق گوئی سے دریغ نہیں کیا لیکن حکمرانی کی ساحری کا یہ حال تھا کہ منشی عنایت اللہ صاحب (مشہور مترجم) پسر مولوی ذکا اللہ صاحب نے،جو سید صاحب کے دارالعلوم کے ابتدائی طالب علموں میں سے تھے اور سید صاحب ان کی شرافت اور ذکاوت اور اِن کے والد سے دوستی کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرتے تھے،ایک روز مجھ سے بیان کیا کہ سید صاحب گھوڑا گاڑی پر ہوا خوری کو نکلا کرتے تھے،راستے میں جو گورا سڑک پر پیدل چلتا ہوا نظر آتا،اس کو ضرور سلام کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اپنی قوم کا وفادار دوست سمجھے۔
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی سامراج کے زوروں میں کس طرح یہاں کے آزاد بھی پاگل تھے۔ ایسی حالت میں اقبال کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ آزادی کیلئے جدوجہد کی جائے اور اپنے متعلق یہ اعتماد پیدا ہوا کہ میں اپنے کلام سے قوم کو خودداری کی تعلیم دے کر اور اس کی رگ حمیت کو جوش میں لاکر،اسے استبدداد کے پنجوں سے رہائی دلا سکتا ہوں۔
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا
اس زمانے میں اقبال کو لوگ اچھا شاعر سمجھتے تھے،کوئی اس کو مبلغ یا مصلح یا شان پیغمبری سے بہرہ اندوز تصور نہیں کرتا تھا،لوگوں نے یہ نظم پڑھی اور لطف سخن کی داد دی اور اس مقطع کی نسبت یہی خیال کیا کہ یہ ایک شاعر کی تمنا ہے یا مخص تعلی ہے جسے شعر میں جائز سمجھا جاتا ہے،عرفی اور غالب میں اس سے دس گنا زیادہ تعلی موجود ہے لیکن اسے شاعری سمجھ کر اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔
کسے معلوم تھا کہ یہ نوجوان شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسے کرکے دکھائے گا اور اس دنیا سے گزرنے سے پہلے اپنی قوم کیلئے ایک آزاد ملت و مملکت کا سامان مہیا کر دے گا۔
یہ اقبال ہی کی قسم کی شاعری ہے جسے جزو پیغمبری کہا گیا ہے اس نظم میں اقبال نے پیش گوئیاں کی ہیں ان میں سے کچھ پوری ہو چکی ہیں اور باقی کے متعلق یقین رکھنا چاہئے کہ وہ بھی پوری ہوکر رہیں گی،تمام دنیا میں ملت اسلامی کا احیاء شروع ہو گیا ہے،کئی اسلامی ممالک نے مغربی سامراج کا جو اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب ملت اسلامیہ ہر جگہ آزاد اور جادہ ترقی پر گامزن ہوگی۔
###